چند برس قبل بی جے پی کی آئی ٹی سیل میں کام کرنے والے ایک نوجوا ن نے بتایا کہ ان کو مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی بھر پور ٹریننگ دی جاتی ہے۔مختلف ناموں سے شناخت بناکر سوشل میڈیا پر کسی مسلم ایشو کو لےکر بحث شروع کروائی جاتی ہے یا قرآن و حدیث و شریعت کو لےکر دل آزاری کی جاتی ہے۔
جس طرح کے فتوے آجکل بعض علما
ارطغرل ڈرامہ سیریل کے حوالے سے صادر کر رہے ہیں، مجھے یاد آتا ہے کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں شہید ٹیپو سلطان پر مبنی سیریل کو بھی کچھ اسی طرح نشانہ بنایا گیا تھا۔ ارطغرل پر نشانہ کچھ زیادہ ہی ہے کیونکہ نوجوان نسل اس میں اپناروشن اورتابناک ماضی،حمیت اور تہذیب وثقافت تلاش کرنے لگی ہے۔
بھگوان گڈوانی کے ناول دی سورڈ آف ٹیپوسلطان پر سیریل بنانے کا بیڑا معروف بالی ووڈ اداکار اور ہدایت کار سنجے خان نے اٹھایا تھا۔ وہ خود ہی ٹیپو سلطان کا کردار بھی نبھا رہے تھے۔ اس سے قبل دوردرشن سے ہندو اساطیری کہانیوں رامائن اور مہابھارت پر سیریل ٹیلی کاسٹ ہو چکے تھے۔ شاید سیکولرازم کا بھرم رکھنےکے لیے حکومتی ذمہ داروں نے ان دو مقبول سیریلوں کے بعد بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان پر ڈرامہ بنانے اور نشر کرنے کی منظور ی دی تھی۔
بس کیا تھا کہ ایک طرف ہندو انتہا پسند کورٹ اور سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے، دوسری طرف مولوی حضرات کے فتوے تھے۔ حیدر علی کی اہلیہ اور ٹیپو سلطان کی والدہ کا کردار گجراتی اداکارہ دیپیکا شخالیہ نبھا رہی تھی۔ ہندو انتہا پسندوں کو غصہ تھا کہ دیپیکا نے رامائن سیریل میں بھگوان رام کی بیوی سیتا کا کردار ادا کیا تھا۔ اور اس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر بڑودہ سے لوک سبھا کا انتخاب جیت کر ممبر پارلیامان بن چکی تھی۔ اب وہ کیسے ایک مسلم کردار کی اہلیہ اور ٹیپو سلطان کی والدہ بن سکتی ہے؟ پھر ٹیپو سلطان کی مثبت شبیہ پیش کرنے پر وہ طیش میں تھے۔
آئے دن فلم کے ڈائیلاگ اور اس کے مختلف سین کو لےکر مولوی حضرات بھی فتوے صادر کررہے تھے۔ انہی دنوں مغربی اتر پردیش سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت ہندی روزنامہ دینک جاگرن میں آئے دن کسی نہ کسی ایشو کو لےکر دارالعلوم دیوبند یا کسی اور مدرسہ یا مولوی و مفتی کا کوئی نہ کوئی فتویٰ شہ سرخی کی زینت بنتا تھا۔ بعد میں انگریزی کے اخبارات بھی اس فتویٰ، جس میں لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کا دفتروں میں کام کرنا،گھروں میں خواتین کی نافرمانی، شوہرو ں کی حکم عدولی اور اس کی سزا وغیرہ جیسے ایشوز شامل ہوتے تھے، پر خوب بحث ہوتی تھی، اور مسلمانوں کو رجعت پسند، ترقی مخالف وغیرہ جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ ہفتہ دس دن کے وقفہ سے متواتر جاری تھا۔
میرے ایک ساتھی مرحوم سالار محمدخان، جن کا تعلق راجستھان سے تھا، نے ان فتووں کے پیچھے کی کہانی کا پردہ چاک کرنے کی ٹھانی۔ خان صاحب ہندی و سنسکرت زبان و ادب پر خاصا عبور اور ہندو رسوم و رواج کے حوالے سے اچھی خاصی معلومات رکھتے تھے۔ بعد میں انہوں نے صحافت کو خیر باد کرکے وکالت میں پیر جمالئے تھے۔ چند سال قبل ہی دہلی میں ان کا اچانک انتقال ہوگیا۔ دیوبند کے دارالافتاء سے انہوں نے معلوم کروایا کہ خطوط کے ذریعے لوگ مختلف مسائل کے متعلق جاننا چاہتے ہیں اورخط کے اسی کاغذ پر ان کو جواب ارسال کیا جاتا ہے۔ اس کی فوٹو کاپی دارالعلوم دفتر میں ریکارڈ کے لیےرکھتا تھا۔
ان میں سے جن فتووں کو دینک جاگرن نے شہ سرخی بنایا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ وہ ایک ہی ہینڈ رائٹنگ میں لکھے ہوئے تھے، بس ان کے پتے الگ الگ تھے۔ خان صاحب ہندو نام سے اپنے وزٹنگ اور شناختی کارڈ بنوا کر جب ان ایڈرس کی چھان بین کرنے میرٹھ، باغپت، سہارنپور اور دیگر جگہوں پر ایک طرح کا اسٹنگ آپریشن کرنے پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ تو ہندو انتہا پسند تنظیموں وشو ہندو پریشد یا بجرنگ دل کے دفاتر میں کام کرنے والے کارکنان تھے۔ ان میں سے ایک تو دہلی کے ایک ہندو اخبار ملاپ یا پرتاپ میں کام کرنے والے ایک شرما جی تھے، جو آئے دن درالافتا میں مختلف ایشوز کو لےکر استفسا ر بھیجتے تھے۔جیسے وہ شریعت کی رو سے زندگی گزارنے کے لے بیتاب تھے۔
بعد میں جب میں نے دہلی میں کشمیر ٹائمز کا بیورو جوائن کیا، چونکہ انٹر نیٹ ابھی عام نہیں تھا، کئی افراد میرے گھر پر اخبار کی کاپی کا مطالعہ کرنے آتے تھے، تاکہ کشمیر کے حالات و واقعات سے آگہی حاصل کرسکیں۔ انہی دنوں میں پاکستان کے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن کے لیےبھی رپورٹنگ کرتا تھا۔ اس لیے بذریعہ ڈاک مجھے نوائے وقت، نیشن، ہفتہ روزہ فیملی اور ماہ نامہ پھول بھی موصول ہوتے تھے۔ ہندوستان کے مغربی صوبہ گووا سے تعلق رکھنے والے ایک ادھیڑ عمرکے مراٹھی برہمن ہفتہ میں ایک یا دو بار آکر پاکستانی اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے اور نوٹس بھی لیتے تھے۔
ان کے ساتھ جب تعلق بنا تو معلوم ہوا کہ وہ وشو ہندو پریشد کے دفتر میں پبلک ریلشنز کے شعبہ میں کام کرتے ہیں اور ان کا کام میڈیا بریف بنانا ہوتا ہے۔ ایک بار باتو ں باتو ں میں انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوانا اور الجھا کر رکھنا کتناآسان ہے۔ جس طر ح آجکل کے نوجوان وہاٹس ایپ کے دیوانے ہیں اسی طرح ان دنوں یاہو چیٹ رومز نے لوگوں کو گرویدہ بنایا ہو اتھا۔ مختلف موضوعات پر وہاٹس ایپ گروپوں کی طرز پر چیٹ رومز ہوتے تھے اور لوگ ان میں بحث و مباحثہ کرتے رہتے تھے۔
اسلام اور مسلمانوں کے حوالے بھی کئی چیٹ رومز تھے۔ ان حضرت نے بتایا کہ وہ کس طرح مسلمان آئی ڈی سے کسی اسلامی چیٹ روم میں انٹری کرکے کوئی فروعی موضوع چھیڑ تے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے دنوں ایک اسلامی چیٹ روم میں انہوں نے سوال داغا کہ آخر اس روم میں خواتین کیسے غیر محرم کے ساتھ بحث و مباحثہ کرتی ہیں؟ جو خلاف شریعت ہے۔ بس کیا تھا چند منٹوں میں ہی رن لگ گیا۔ کچھ لوگ دفاع میں تو کچھ چیٹ رومز یا انٹرنیٹ پر خواتین کی شمولیت پر اعتراض کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے رومز میں جب نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے تو وہ خاموشی سے لاگ آؤٹ کرکے دیگر رومز میں شکار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔
چند برس قبل بی جے پی کی آئی ٹی سیل میں کام کرنے والے ایک برگشتہ نوجوا ن نے ایک ویڈیو پروگرام میں اس سیل کے کام و کاج کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی بھر پور ٹریننگ دی جاتی ہے۔مختلف ناموں سے شناخت بناکر سوشل میڈیا پر کسی مسلم ایشو کر لےکر بحث شروع کروائی جاتی ہے یا قرآن و حدیث و شریعت کو لےکر دل آزاری کی جاتی ہے۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ ان کو بتایا گیا تھا کہ مسلمان انتہائی جذباتی قوم ہے اور وہ جلدہی دام صیاد میں آجاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میرے آبائی قصبہ شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں مفتی مولوی غلام حسن تب تک کوئی فتویٰ صادر نہیں کرتے تھے، جب تو وہ استفسار کرنے والے شخص کی غرض و غایت نہیں جان لیتے اور فتویٰ سے پہلے اس کی اچھی خاصی انٹروگیشن کرتے تھے۔ چونکہ انہوں نے فتویٰ کے لیے باضابطہ فیس رکھی تھی اس لیے ہر کس و ناکس اپنے ذاتی مفاد و عناد کے لیے فتویٰ حاصل کرنے سے گریز کرتے تھے۔ ایک بار مسجد کا ایک منتظم ان کے پاس آیا کہ اس نے پتہ لگایا ہے کہ ان کے مسجد کے امام نے بینک میں اکاؤنٹ کھولا ہے۔ اس لئے ان کو فی الفور فتویٰ چاہیے تاکہ امام کو برخاست کرسکیں۔
مفتی صاحب نے پوچھا کہ امام صاحب کو تنخواہ کتنی ملتی ہے؟ تو معلوم ہوا کہ ان کو ماہانہ پچاس روپے اور بچے جو قرآن شریف پڑھنے آتے ہیں وہ پارہ ختم کرنے پر ان کو ایک روپیہ دیتے ہیں۔ اس کمائی سے اور پھر موسم خزاں میں فصل کٹائی کے وقت زمیندار ان کو دھان کی چند بوریاں عنایت کرتے ہیں اور اسی سے ان کا پورا خاندان پلتا ہے۔ یہ شخص خود سیبوں کے کئی باغات کا مالک تھا۔ مفتی صاحب نے ان سے پوچھا کہ دہلی میں جب ان کے سیب بکتے ہیں تو وہ کیسے پیسے وصول کرتے ہیں؟ تو منتظم نے کہا کہ دہلی میں بیوپاری ان کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے جمع کرواتے ہیں۔ مفتی صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ پہلے وہ خود بینک سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کے کھاتے بند کروائیں اور پھر امام صاحب کے بینک اکاؤنٹ کو لےکر فتویٰ مانگنے آجائیں۔
خاکسار تحریک کے بانی مولانا عنایت اللہ خان مشرقی نے ایک بار کہا تھا علم کتابوں اور امتحانوں میں شامل ہونے سے پیدا نہیں ہوتا۔ علم و نفس ایمان کا مرتبہ ہے، جو آنکھوں کے براہ راست دیکھنے، کانوں سے براہ راست سننے اور فہم و فراست سے پیدا ہوتا ہے۔ مولوی اگر ان چیزوں کو صرف نظر کرے تو اس کے سینے سے قرانی علوم کا نور یکسر مفقود ہوجاتا ہے۔
بے عملی، بے حسی، تکبر اور حسد، بد دیانتی، دین فروشی، نکتہ چینی اس کا شعار بن جاتے ہیں۔ بہتر ہے کہ مفتیان کرام فتوے صادر کرنے سے پہلے استفسار کرنے والے کی غرض و غایت پر استفسارکریں۔ گزارش اتنی سی ہے کہ فتویٰ دینا ایک سنجیدہ عمل ہے اس کو آئے دن میڈیا میں مذاق کا موضوع نہ بننے دیں۔
شاید کہ اتر جائے تر ے دل میں مری بات!