پیگاسس حملہ: ڈیجیٹل فارنسکس دکھاتے ہیں کہ ایس اے آر گیلانی کا فون ہیک ہوا تھا

نگرانی کے لیےممکنہ نشانے پر‘کمیٹی فار دی ریلیز آف پالیٹکل پرزنرس’بھی تھی، جس سے وابستہ ماہرین تعلیم اور کارکنوں کے فون نمبر بھی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہوئے سرولانس والے ہندوستانی فون نمبروں کی لیک ہوئی فہرست میں شامل ہیں۔

نگرانی کے لیےممکنہ نشانے پر‘کمیٹی فار دی ریلیز آف پالیٹکل پرزنرس’بھی تھی، جس سے وابستہ  ماہرین تعلیم اور کارکنوں  کے فون نمبر بھی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہوئے سرولانس والے ہندوستانی  فون نمبروں کی لیک ہوئی فہرست میں شامل ہیں۔

ایس اےآر گیلانی۔ (فائل فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

ایس اےآر گیلانی۔ (فائل فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

ممبئی:سال 2017 کے وسط  میں دہلی یونیورسٹی کے سابق  پروفیسر سید عبدالرحمٰن گیلانی کے فون پر ایک کے بعد ایک کئی پیغامات موصول ہوئے۔ اس میں کشمیر کے سلسلے میں کئی ساری فرضی خبریں تھی، جس کے ذریعے گیلانی کے دھیان کو کھینچنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اب پچھلے مہینے ان کے فون پر کیے گئے ایک آزاد ڈیجیٹل فارنسکس کے نتائج کی بنیاد پر پتہ چلا ہے کہ ہندوستان کی ایک نامعلوم ایجنسی، جو اسرائیل کے این ایس او گروپ کی کلائنٹ تھی، کے ذریعے سال 2017 اور 2019 کے بیچ گیلانی کے فون کو ہیک کیا گیا تھا۔

دی وائر نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکیورٹی لیب کےتعاون  سے گیلانی کے آئی فون، جس کو ان کے اہل خانہ  نے محفوظ  کیا ہوا ہے، کا فارنسک تجزیہ  کرایا ہے اور اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ فون کے ساتھ دو سال سے زیادہ وقت  تک چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔

گیلانی کے فون میں پیگاسس اسپائی ویئر ڈالا گیا تھا، جو اسرائیل کے تل ابیب واقع فرم کا نامی پروڈکٹ ہے۔ پیگاسس اس کے آپریٹر کو صارف کی اجازت کے بنا اس کے موبائل پر غیرقانونی پہنچ دیتا ہے۔

یہ واضح  نہیں ہے کہ ایس ایم ایس پر مبنی  حملوں کا کوئی فائدہ  ہوا تھا یا نہیں، لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکیورٹی  لیب کے ذریعے کیے گئے خصوصی  فارنسک تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ پیگاسس کے ذریعےفروری2018 اور جنوری 2019 کے بیچ اور پھر ستمبر 2019 سے اکتوبر 2019 اور اکتوبر 2019 کے بیچ فون کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی گئی تھی۔

فرانس واقع نان پرافٹ میڈیا ادارےفاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکیورٹی لیب نے ان ریکارڈ تک رسائی حاصل کی، جسے انہوں نے دی وائر اور دنیا بھر کے 15دوسرے میڈیا آؤٹ لیٹس  کے ساتھ ایک مشترکہ جانچ اور رپورٹنگ منصوبے کے حصہ کے تحت ساجھا کیا ہے۔

گیلانی، جو دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین کالج میں عربی پڑھاتے تھے، کو پارلیامنٹ حملے کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن بعد میں اکتوبر 2003 میں دہلی ہائی کورٹ  کی جانب سے‘ثبوتوں کے فقدان ’میں انہیں بری کر دیا گیا تھا، جس فیصلے کو بعد میں سپریم کورٹ  نے اگست 2005 میں برقرار رکھا تھا۔

جیل میں رہنے کے دوران بڑے پیمانےپرحمایت  حاصل کرنے والے گیلانی نے جیل میں بند لوگوں کے لیے کام کرنے کے لیے اپنی زندگی  وقف  کر دی۔ انہوں نے اپنے دوست رونا ولسن، جو سال 2018 کے ایلگار پریشد معاملے میں کلیدی ملزم کے طور پر نامزد ہیں، کے ساتھ مل کر سیاسی  قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک کمیٹی کمیٹی فار دی  ریلیز آف پالیٹکل پرزنرس (سی آرپی پی)کا قیام  کیا۔

ملک  بھر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق  کئی معاملوں سے جڑے رہے گیلانی بعد میں جی این سائی بابا کی سلامتی  اور رہائی کے لیے 17 رکنی کمیٹی کااہم  حصہ بھی بنے تھے۔

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر جی این سائی بابا کو ممنوعہ  ماؤنواز تنظیم کے ساتھ مبینہ تعلقات کے لیے یواے پی اے کی کئی دفعات  کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 90 فیصدی سے زیادہ  جسمانی معذوری کے سبب  سائی بابا کو جیل میں سخت مشکلات  کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن نچلی اور اعلیٰ عدلیہ  دونوں نے کئی بار ضمانت سے انکار کر دیا۔

گیلانی کے بیٹے سید عاطف گیلانی، جو دہلی میں وکیل ہیں، نے اکتوبر 2019 میں اپنے باپ  کے گزر نے کے بعد بھی ان کے فون کو محفوظ  رکھا تھا۔ عاطف گیلانی نے دی وائر کو بتایا کہ فارنسک رپورٹ نے صرف ان خدشات  کی تصدیق  کی ہے جو وہ  دہائیوں سے محسوس کر رہے تھے۔

عاطف نے کہا، ‘ہمیں ہمیشہ ڈر رہا ہے کہ پریوار کو ٹریک کیا جا رہا ہے۔ ان کی (گیلانی کی) موت کے مہینوں بعد تک ان کا فون، ان کے ای میل ہیک کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تھی۔ اس فارنسک نتیجے نے صرف ہمارے شبہ  کی تصدیق  کی ہے۔’

گیلانی کے علاوہ لیک ہوئے ڈیٹا نے سائی بابا ڈیفینس کمیٹی کے نو اور ممبروں  اور قریبی حامیوں کے نمبر بھی شامل ہیں۔

رونا ولسن اور ایلگار پریشد معاملے میں ان کے شریک ملزم اور دہلی یونیورسٹی  کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر ہینی بابو بھی اس فہرست میں شامل تھے۔

ہینی بابو سی آرپی پی اور سائی بابا ڈیفینس کمیٹی  دونوں کے کور ٹیم کے ممبر بھی تھے۔ وہ  بنیادی طور  پریس ریلیزکو سنبھالتے تھے اور ان کی ای میل آئی ڈی اور فون نمبر عام طور پر پریس بیانات پر چھپے ہوتے تھے۔

ممکنہ نشانے کےطورپر چنے جانے والے سائی باباکمیٹی اور سی آرپی پی کے دیگرممبریا قریبی حامی میں سبکدوش  پروفیسر جی ہرگوپال، کمیٹی کے صدر سروج گری اور راکیش رنجن، دونوں دہلی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ  پروفیسر ہیں اورباقاعدگی سےدہلی کی بیٹھکوں میں حصہ  لیتے ہیں، سائی بابا کی بیوی  وسنتا کماری اور دو دیگر ماہرین تعلیم بھی شامل تھے۔

دوسرے لفظوں  میں کہیں، تو ڈیجیٹل فارنسک تجزیے کے بنا یہ پتہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ ہینی بابو، ولسن اور کمیٹی کے دیگر ممبروں  کے فون کو ہیک کیا گیا تھا یا نہیں۔

دی وائر نے ہرگوپال کے انڈرائیڈ فون کا فارنسک تجزیہ کرایا، لیکن اس کا کوئی نتیجہ  نہیں نکل پایا کیونکہ آئی فون کے برعکس  انڈرائیڈ میں وہ جانکاری نہیں ہوتی ہے، جو ایمنسٹی کی تکنیکی جانچ کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

ویسے تو سائی باباڈیفنس کمیٹی ایک الگ اکائی ہے، لیکن اس سے جڑے کئی لوگوں سے ایلگار پریشد معاملے میں بھی قومی جانچ ایجنسی کے ذریعے پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔

عاطف نے دی وائر کو بتایا کہ پریوار کو ایلگار پریشد معاملے میں گیلانی کی گرفتاری کا خدشہ تھا۔ عاطف نے دعویٰ کیا،‘اگر میرے والدکی موت اکتوبر میں نہیں ہوئی ہوتی، تو ہمیں پورا یقین تھا کہ وہ انہیں بھی معاملے میں پھنسانے کا راستہ  تلاش کر لیتے۔’

وسنتا نے کہا کہ سائی بابا کی رہائی کی مانگ کو لےکر پورے ہندوستا ن میں منعقد کئی اہم بیٹھکوں اور احتجاجی مظاہروں  کے دوران ہی یہ نگرانی کرائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘سائی بابا کی سزا کے فوراً بعدکمیٹی  نے مختلف شہروں میں کئی بیٹھکیں منعقد کی تھیں۔ متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر باقاعدگی  سے شائع پریس بیانات کے ساتھ ہمارے پروگرام عوامی نظر میں تھے۔’

وسنتا کو حیرانی  نہیں ہوئی کہ وہ بھی پیگاسس کے ممکنہ نشانوں میں سے ایک تھیں۔ انہوں نے کہا، ‘سال 2014 میں سائی بابا پر جھوٹےالزام لگائے جانے کے بعد سے مجھے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میں نے عوامی اجلاس  میں حصہ لینا، ان کی جھوٹی گرفتاری اور بعد میں ان کی سزا کے خلاف بولنا شروع کیا۔ یہ ٹارگیٹیڈ ہراسانی  کی توسیع  ہے جسے میں پچھلی ایک دہائی  میں برداشت  کر رہی ہوں۔’

ہینی بابو کی بیوی  جینی رووینا، جو ڈی یو کے مرانڈا کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہیں، کو لگتا ہے کہ ان کے شوہرکو ان کی پہچان کی وجہ سےنشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘وہ ایک مسلمان، ایک او بی سی ہیں اور حاشیے پر پڑے لوگوں کو مجرم  بنانے کے لیے سرکاری مشینری کے خلاف بولتے رہے ہیں۔’

رنجن اور گری نے دی وائر کو بتایا کہ حالانکہ وہ  کمیٹی  کے عہدیدار نہیں ہیں، لیکن وہ باقاعدگی سے بیٹھکوں میں حصہ  لیتے رہے ہیں۔ رنجن نے تصدیق  کرتے ہوئے کہا، ‘سائی بابا کی گرفتاری اور سزا کی بڑے پیمانےپرمخالفت کی گئی  تھی۔ دیگرلوگوں کی طرح میں بھی ان بیٹھکوں میں باقاعدگی سے حصہ لیتا تھا۔’

گری نے کہا کہ سائی بابا اور ولسن دونوں کے ساتھ ان کےدیرینہ تعلقات نے انہیں نشانے پر لا دیا۔ انہوں نے دی  وائر سے کہا، ‘میں اس کمیٹی  کا ضروری  حصہ  رہا ہوں جو ان کی رہائی کی مانگ کر رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں میں نے ڈی یو کے پروفیسر جی این سائی بابا کے لیے حمایت  جٹانے کی کوشش کی ہے۔’

سال 2014 میں سائی بابا کی گرفتاری سے پہلے جب ان کے گھر پر دو بار چھاپہ مارا گیا تھا، تب گری ان کے ساتھ تھے، گرفتاری کے خلاف لوگوں کو صف بند کر رہے تھے۔ بعد میں جب سائی بابا ضمانت پر باہر تھے، تو گری کہتے ہیں، وہ انہیں کئی بار اسپتال لے جاتے تھے۔

انہوں نے کہا، ‘ان کی حالت تب نازک تھی۔ میں ان کے ساتھ باقاعدگی سے اسپتال جاتا تھا۔’