وزارت داخلہ نے دہلی میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار لوگوں کے نام بتانے سے کیوں انکار کیا

08:06 PM Aug 18, 2021 | گورو وویک بھٹناگر

گزشتہ دنوں لوک سبھا میں وزیرمملکت برائے داخلہ  نتیانند رائے نے ‘عوامی مفاد’کا حوالہ دیتے ہوئے دہلی پولیس کی جانب سے درج یو اے پی اےمعاملوں کی جانکاری دینے سےمنع کردیا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس بارے میں ساری جانکاری عوامی  طور پر دستیاب ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ دہلی میں اس سخت قانون کے تحت گرفتار 34 لوگوں میں اکثر مذہبی اقلیت  ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: پچھلے مہینے لوک سبھا میں دہلی پولیس کی جانب سےیو اے پی اے کےتحت معاملے درج کرنے کو لےکر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیرمملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے بتایا تھا کہ سال 2020 کے دوران دہلی میں یو اے پی اے کے تحت نو معاملے درج کیے گئے تھے اور اس میں34 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

حالانکہ اس دوران انہوں نے یہ کہتے ہوئے معاملوں کے آگے کی جانکاری کاانکشاف کرنے سے انکارکر دیا تھا کہ یہ بڑے پیمانے پر عوامی مفادمیں نہیں اور اس سے معاملوں پر اثر پڑ سکتا تھا۔

دراصل یہ سوال ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)کی لوک سبھا ایم پی  مالا رائے نے پوچھا تھا۔ انہوں نے پچھلے ایک سال کے دوران یو اے پی اے کے تحت دہلی پولیس کی جانب سے درج کل مقدموں کی تعداد اور ان لوگوں کے نام کی جانکاری مانگی تھی۔

یو اے پی اے کےتحت ملزم  بنائے گئے لوگوں کے ناموں کا انکشاف نہ کرنا چونکانے والا تھا کیونکہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار یا چارج شیٹ کیے گئے ہر شخص کا نام پہلے سے ہی عوامی  ہے اور یہ صاف نہیں ہے کہ ان کا پھر سے ذکر کرنے سے معاملے کیسے متاثر ہوں گے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ قومی راجدھانی میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار لگ بھگ ہر ملزم  مذہبی اقلیت  ہے۔

دی وائر نے نیوز رپورٹس اور عدالتی ریکارڈوں کا پتہ لگایا اور یو اے پی اے معاملوں میں درج 50لوگوں کے نام اکٹھا کیے۔ ان میں سے 34 کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور 16دیگر کے خلاف چارج شیٹ  داخل کی گئی ہے لیکن گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔

اس فہرست میں 26 مسلم، 21 سکھ، ایک ایس ٹی  سے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس فہرست میں دو ہندو بھی ہیں، جو مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کرنے والے شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے کی وجہ سے گرفتار کیے گئے تھے۔

پارلیامانی اصول کیا کہتے ہیں؟

وزیر کی جانب سےملزمین کے نام دینے سے انکارکرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ان کے انکشافات سے معاملے متاثر ہو سکتے ہیں، پورا جواب مانگنے کے ممبروں کے حق کی بھی خلاف ورزی  تھی۔

لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری  پی ڈی ٹی آچاریہ نے کہا کہ ایک ممبر کے خصوصی حق  اور اس کے لیےدستیاب حل کے تحت اگر اسے ایک وزیرکی جانب سے ٹھیک سے جواب نہیں دیا جاتا ہے تو لوک سبھا میں طریقہ کار اور طرز عمل کے قواعد کے تحت ، اسپیکر وزیر کو مکمل اور درست جواب دینے کی ہدایت  دینے کا اختیار ہے۔

آچاریہ نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ہی صحیح جواب نہ پانے کی صورت میں ممبر آدھے گھنٹے کے بحث کے لیے نوٹس بھی دے سکتا ہے۔

سینئر وکیل صارم نوید نے دی وائر کو بتایا کہ قانون میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو ملزم کی پہچان اجاگر ہونے سے روکتا ہو۔

تمام یو اے پی اے معاملوں کی جانکاری آن لائن موجود

جہاں وزارت داخلہ نے ایم پی  کے سوالوں کا پورا جواب نہیں دیا، وہیں دی وائر نے آن لائن دستیاب عدالتی ریکارڈ میں ان کی جانب سے مذکورتمام  نو ایف آئی آر کی تفصیلات کا پتہ لگایا۔

نو میں سے چار ایف آئی آر دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی جانب سے درج کی گئی تھی اور پانچ این آئی اےنے درج کی تھی۔

دہلی پولیس کی جانب سے درج کی گئی چار ایف آئی آرمیں سے سب سے اہم  اورمشہورایف آئی آر ایف آئی آر نمبر59 ہے، جو دہلی دنگے سے متعلق  ہے۔

سال 2020 میں درج نو ایف آئی آر میں سے یہ مشرقی دہلی میں کڑکڑڈوما عدالت کو سونپی گئی واحد ایف آئی آر ہے۔ووسرےتمام آٹھ معاملوں کو نئی دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں بھیج دیا گیا ہے۔

یہ بھی توجہ دینے والی بات ہے کہ ان نو ایف آئی آر میں کل ملزمین کی تعداد گرفتار کیے گئے 34 لوگوں سے کہیں زیادہ  ہے۔

نو میں سےتین معاملے علیحدگی پسندسکھ گروپوں کی سرگرمیوں سےمتعلق  ہیں، جبکہ دو معاملوں میں ملزم اسلامک اسٹیٹ کی سرگرمیوں  سے متاثر بتائے گئے ہیں۔

کیا ہیں معاملے

کیس1: ایف آئی آر نمبر 59

گرفتاریوں کی تعداد18

دہلی پولیس نے 6 مارچ، 2020 کو دہلی دنگوں میں ایف آئی آرنمبر59 درج کی، جس میں یو اے پی اے کی مختلف دفعات  لگائی گئیں۔ ستمبر 2020 میں دنگوں میں بڑی سازش، جس میں53 لوگ مارے گئے تھے اور 600 سے زیادہ زخمی  ہوئے تھے، کے لیے چارج شیٹ  دائر کی گئی۔

چارج شیٹ میں15 لوگوں کے نام ہیں جنہیں اس سلسلے میں 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ تھے:

طاہر حسین –عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر

عشرت جہاں –سابق کانگریس کونسلر

خالد سیفی – یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کیمپین کے بانی

صفورہ زرگر – جامعہ جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی

میران حیدر – جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی

شفیع  الرحمٰن – جامعہ کے اسٹوڈنٹ

شاداب احمد – جامعہ کے اسٹوڈنٹ

آصف اقبال تنہا – جامعہ کے اسٹوڈنٹ

دیوانگنا کلتا – پنجرہ توڑ کی ممبر اور جے این یو اسٹوڈنٹ

نتاشا نروال – پنجرہ توڑ کی  ممبراور جے این یو اسٹوڈنٹ

گلفشاں  فاطمہ – اینٹی سی اے اے پروٹیسٹر

تسلیم احمد –شمال مشرقی دہلی کے باشندہ

سلیم ملک – شمال مشرقی دہلی کے باشندہ

محمد سلیم خان – شمال مشرقی دہلی کے باشندہ

اطہر خان –شمال مشرقی دہلی کے باشندہ

تین دوسرے بھی تھے، جنہیں ایف آئی آرنمبر59 کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن چارج شیٹ  میں ان کا نام نہیں تھا۔ چارج شیٹ داخل ہونے سے پہلے انہیں ضمانت پر رہا بھی کر دیا گیا تھا۔ یہ تین تھے: محمد دانش، محمد الیاس اور محمد پرویز احمد۔

بعد میں اس معاملے میں یو اے پی اے کے تحت 930صفحوں  کاضمنی  چارج شیٹ داخل کیا گیا۔

جے این یواسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد

جے این یو پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ شرجیل امام اور

موبائل فون سم کارڈ فروخت کرنے والےفیضان خان

اتفاق سے امام اور خالد پولیس کی سازش کے دعوے کے کلیدی کردار تھے، لیکن بنیادی چارج شیٹ  میں ان کا نام ملزم یا مشتبہ افراد کے طو رپر نہیں تھا۔

کیس 2: ایف آئی آر نمبر 154

گرفتاریوں کی تعداد3

اس معاملے میں‘خالصتان سے ہمدردی کا اظہار کرنے ’کے شک  میں تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا:

مہندر پال سنگھ

گرتیج سنگھ

راج کمار عرف لوپریت

کیس 3: ایف آئی آر نمبر 174/2020

گرفتاریوں کی تعداد1

محمد مستقیم خان

اس معاملے میں پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ آئی ایس آئی ایس مشتبہ ہے، جو ملک میں خودکش  حملے کرنا چاہتا تھا۔’

پولیس نے کہا کہ وہ اتر پردیش میں اپنے گاؤں کے پاس سدھارتھ نگر ضلع میں ایک مقامی مسجد میں جاتا تھا جہاں وہ نوجوانوں  کو اپنے مقصد کی جانب  مائل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

کیس4: ایف آئی آر نمبر 224/2020

گرفتاریوں کی تعداد: 2

اس معاملے میں پولیس نے ستمبر 2020 میں پنجاب کے لدھیانہ کے رہنے والے دو لوگوں کی گرفتاری کے ساتھ ببر خالصہ انٹرنیشنل کے ایک ماڈیول کا پتہ لگانے کا دعویٰ کیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہیں شمال مغربی دہلی سے ایک انکاؤنٹر کے بعد پکڑا گیا تھا۔

بھوپندر سنگھ

 کلونت سنگھ

کیس 5: این آئی اے، رجسٹریشن نمبر 284

گرفتاریوں کی تعداد: 0

اس معاملے میں این آئی اے نے ‘کشمیر میں علیحدگی کو بڑھاوا دینے’ اورمبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے خالصتان حامی  گروپ  ‘سکھ فار جسٹس’کے 16 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔

کیس 6: این آئی اے رجسٹریشن نمبر 132/2020

گرفتاریوں کی تعداد3

اس معاملے میں تین مشتبہ افراد کو جنوری 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا:

خواجہ معین الدین

سید علی نواس

عبدالصمد

پولیس نے کہا کہ وہ آئی ایس آئی ایس سے متاثر تھے اور ہندو منانی رہنما کےپی سریش کمار کے قتل میں ان کا ہاتھ تھا ۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ نئی دہلی اور اتر پردیش میں حملے کامنصوبہ  بنا رہے تھے اور شمالی دہلی کے وزیرآباد علاقے میں گولی باری کے بعد انہیں پکڑا گیا۔

کیس 7: این آئی اے رجسٹریشن نمبر 74/2020

گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد 1

اسلم انصاری

این آئی اے نے اس معاملے میں ملزم کو اس ‘شک ’کی بنیاد پرگرفتار کیا تھا کہ اس کے ذریعےاسمگل کیے جا رہے سونے کی آمدنی  کا استعمال ہندوستان  میں دہشت گردی  کےمالی امداد کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ میں اپنی عرضی  میں انصاری نے دعویٰ کیا کہ اس بنیاد پر درج کی گئی ایف آئی آربے بنیادہے۔ سونے کی اسمگلنگ کے معاملے کوکسٹم ایکٹ کی متعلقہ شق کے تحت دیکھا جانا چاہیے نہ کہ یو اے پی اے کے تحت۔

کیس 8: این آئی اے رجسٹریشن نمبر 2/2020

گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد5

یہ معاملہ دہلی میں سی اے اے مخالف مظاہروں سے جڑا ہے۔ این آئی اے نے حکومت ہندکے خلاف عدم اطمینان پیدا کرنے کی سازش کرنے کےالزام میں پانچ لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔ الزام لگایا گیا تھا کہ ملزم، جن میں سے دو خواتین تھیں، بھولے بھالے نوجوانوں کو سی اے اےکے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے کے لیے اکسا رہے تھے اور عوامی املاک کو جلانے اور برباد کرنے کامنصوبہ بھی بنا رہے تھے۔

سرینگر کے جہاں زیب سامی عرف داؤد ابراہیم

جامعہ نگر کے اوکھلا وہار میں رہنے والی سرینگر کی حنا بشیر بیگ

این آئی اے نے کہا کہ اس کی جانچ میں پایا گیا کہ گروپ ہندوستان میں آئی ایس آئی ایس کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر نسل کشی  کو انجام دینے کامنصوبہ بنا رہا تھا۔ گرفتار کیے گئے تین دوسرے تھے:

حیدرآباد کے عبداللہ باسط عرف بن فلان(26)

سعدیہ انور شیخ (20)

نبیل صدیق کھتری(27) (دونوں پونے سے)

معاملہ شروع میں مارچ 2020 میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی جانب سےدرج کیا گیا تھا۔ این آئی اے نے لگ بھگ دو ہفتے بعد اپنا کیس درج کیا۔

کیس 9: این آئی اے رجسٹریشن نمبر 1/2020

گرفتاریوں کی تعداد1

ایلیم لا ضمیر عرف میری شمرنگ

اس معاملے میں این آئی اے نے نیشنل سوشلسٹ کاؤنسل آف ناگالینڈ(اساک موئیواہ)کے رہنما کے خلاف ٹیررفنڈنگ معاملے میں چارج شیٹ داخل کی تھی۔ ضمیر کو اس سے پہلے دسمبر 2019 میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے ذریعے ان کے پاس سے 72 لاکھ روپے نقد برآمد کیے جانے کے بعد ٹیررفنڈنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)