کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کے وکیل نے بتایا کہ کپن کی ضمانت کی شرط کے مطابق انہیں یوپی کے رہنے والے دو ضمانت داروں کی ضرورت ہے، لیکن ‘معاملےکی حساس نوعیت’ کی وجہ سے لوگ مدد کے لیے آگے آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
کیرل کے صحافی صدیقی کپن۔ (فوٹو بی شکریہ: ٹوئٹر/@vssanakan)
نئی دہلی: ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ سے
ضمانت دیےجانے کے ایک ہفتہ بعدکیرالہ کے صحافی صدیقی کپن کے لیے کوئی بھی مقامی شخص ضمانت دینے کوتیار نہیں ہے۔
اکتوبر 2020 میں ہاتھرس گینگ ریپ اور قتل معاملے کی رپورٹنگ کے لیے جاتے ہوئے کپن کو گرفتار کیا گیا تھا۔
کپن کے وکیل محمد دانش نے جمعہ کو
دی کوئنٹ کو بتایا کہ ‘معاملے کی حساس نوعیت’ کی وجہ سے کپن کے لیے مقامی ضامن کے طور پر دو لوگوں کوتلاش کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یو اے پی اے کیس میں ضمانت ملے نو دن ہوچکے ہیں، لیکن لوگ کپن کی مدد کے لیے آگے آنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
بتادیں کہ کپن کو اتر پردیش میں رہنے والے دو لوگوں کی ضرورت ہے تاکہ انہیں ضمانت مل سکے۔ کپن اور ان کے اہل خانہ کیرالہ کے رہنے والے ہیں اور گرفتاری سے قبل نئی دہلی میں رہتے تھے۔
تاہم، ان کے وکیلوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ شنوائی کے دوران موجود کپن کی بیوی اور بھائی کے ناموں پر ضمانت داروں کے طو رپر غور کیا جائے لیکن ضمانت کے لیے شرائط طے کرنے والی لکھنؤ کی نچلی عدالت نے اس سے انکار کر دیا تھا۔
ضمانت کی شرائط کے مطابق، عدالت نےکہا تھا کہ ان کے وکیل دو لوگوں کو پیش کریں، جن کے اکاؤنٹ میں یا جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے ہو،ساتھ ہی اتنے ہی رقم کانجی مچلکہ بھی بھرنا ہوگا۔
جج نے کپن سے ایک حلف نامہ بھی طلب کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے ان پر عائد کردہ شرائط کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
تاہم، ضمانت ملنے کے باوجود کپن فی الحال لکھنؤ جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ ان کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی طرف سے زیر تفتیش معاملہ ابھی زیر التوا ہے۔
لکھنؤ جیل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آشیش تیواری نے بتایا تھا کہ ای ڈی کیس میں ضمانت ملنے کے بعد انہیں رہا کردیا جائے گا۔
کپن کے وکیل ہیرس بیرن نے بھی دی وائر کو بتایا تھاکہ وہ اس بات سے واقف ہیں کہ سپریم کورٹ اور لکھنؤ کے جج دونوں نے ان کی رہائی کے لیے شرائط رکھی ہیں، لیکن انھیں رہائی کے لیے پی ایم ایل اے کیس میں بھی ضمانت کی ضرورت ہوگی۔
اس معاملے کی سماعت 19 ستمبر کو ہونی ہے۔
بتا دیں کہ گزشتہ سال ای ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا ہاتھرس واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ تشددبھڑکا نا چاہتی تھی اور دہشت پھیلانا چاہتی تھی۔ اس کی چارج شیٹ میں دیگر کے ساتھ کپن کا نام بھی درج ہے۔
معلوم ہو کہ کپن، ملیالم نیوز پورٹل ‘اجیمکھم’ کے نمائندے اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری کو 5 اکتوبر 2020 کو تین دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
کپن اس وقت ہاتھرس ایک 19 سالہ دلت لڑکی کے ریپ کے بعد ہسپتال میں ہوئی موت کی رپورٹنگ کے لیےوہاں جا رہے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ امن و امان کو خراب کرنے کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے۔
یوپی پولیس کا الزام ہے کہ ملزم امن و امان خراب کرنے ہاتھرس جا رہا تھا۔ ان پر پی ایف آئی سے وابستہ ہونے کا بھی الزام ہے۔
پولیس نے تب کہا تھا کہ اس نے چار لوگوں کو متھرا میں شدت پسند تنظیم پی ایف آئی کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں گرفتار کیا اور ان چاروں کی شناخت کیرالہ کے ملاپورم کے صدیق کپن، اتر پردیش کے مظفر نگر کے عتیق الرحمان، بہرائچ کے مسعود احمد اور رام پور کے محمد عالم کے طور پر ہوئی ہے۔
ان کی گرفتاری کے دو دن بعدیوپی پولیس نے ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت سیڈیشن اور دیگر مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
یو اے پی اے کے تحت درج مقدمہ میں الزام لگایا گیاتھا کہ کپن اور اس کے ساتھی مسافر ہاتھرس گینگ ریپ اور قتل کیس کے تناظر میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔