سپریم کورٹ مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج دینے والی متعدد عرضیوں پر سماعت کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ نوٹ بندی کے بارے میں اس نے فروری 2016 میں آر بی آئی کے ساتھ بات چیت شروع کی تھی اور اسی کے مشورے پر یہ فیصلہ لیا گیا۔
علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ 2016 میں کی گئی نوٹ بندی بہت سوچ سمجھ کرلیا گیا فیصلہ تھا اور یہ جعلی نوٹ، دہشت گردی کی مالی معاونت، کالے دھن اور ٹیکس چوری جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
مرکز نے یہ بات نوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضیوں کے جواب میں داخل کردہ حلف نامہ میں کہی ہے۔
مرکز نے بدھ کے روز سپریم کورٹ میں اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کرنے اورنوٹ بندی کا یہ فیصلہ ریزرو بینک آف انڈیا کے ساتھ بہت ہی غور وخوض کے بعد لیا گیا تھا اور نوٹ بندی سے پہلے اس کی تیاریاں کر لی گئی تھیں۔
مرکزی حکومت نے کہا، نوٹ بندی کا فیصلہ اپنے آپ میں ایک مؤثر قدم تھا اور یہ جعلی پیسے، دہشت گردی کی مالی معاونت، کالے دھن اور ٹیکس چوری کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ بھی تھا، لیکن یہ صرف یہیں تک محدود نہیں تھا۔ یہ تبدیلی معاشی پالیسی اقدامات کے سلسلے میں ایک اہم قدم تھا۔
پانچ ججوں کی آئینی بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے، جس میں جسٹس ایس اے نذیر، بی آر گوئی، اے ایس بوپنا، وی راما سبرامنیم اور بی وی ناگارتنا شامل ہیں۔ اب اگلی سماعت 24 نومبر کو ہوگی۔
حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے کہا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ریزرو بینک کے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹرز کی خصوصی سفارش پر لیا گیا تھا اور آر بی آئی نے اس کے نفاذ کے لیے ایک ڈرافٹ پلان بھی تجویز کیا تھا۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘آر بی آئی نے سفارش کے نفاذ کے لیے ایک ڈرافٹ پلان بھی تجویز کیا تھا۔ مرکزی حکومت کی طرف سے سفارشات اور ڈرافٹ اسکیم پر غور کیا گیا تھا اور اس کی بنیاد پر گزٹ آف انڈیا میں نوٹیفکیشن شائع کیا گیاتھا جس میں اعلان کیا گیا تھاکہ مخصوص بینک نوٹوں کو قانونی ٹینڈر کے طور پر ختم کر دیا جائے گا۔’
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، مرکز نے سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ اس نے نوٹ بندی کے بارے میں فروری 2016 میں آر بی آئی کے ساتھ بات چیت شروع کردی تھی، نوٹیفکیشن جاری ہونے سے کم از کم آٹھ ماہ قبل۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے، یہ (فیصلہ) آر بی آئی کے ساتھ مشاورت اور پیشگی تیاری کے بعد لیا گیا تھا… اس وقت کے وزیر خزانہ نے پارلیامنٹ میں کہا تھا… کہ آر بی آئی کے ساتھ حکومتی مشاورت فروری 2016 میں شروع ہوئی تھی۔ تاہم مشاورت اور فیصلہ سازی کے عمل کو خفیہ رکھا گیا۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ اس مشاورت اور فیصلہ سازی کے عمل کے لیے رازداری ایک اہم ضرورت تھی۔ یہ بتاتے ہوئے کہ لوگوں کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لیے جامع اقدامات کیے گئے تھے، مرکز نے کہا کہ اس نے مخصوص بینک نوٹوں کو بعض لین دین جیسے کہ بس، ٹرین اور ہوائی ٹکٹ کی بکنگ، سرکاری اسپتال میں علاج اور ایل پی جی سلنڈروں کی خریداری کے لیے چھوٹ دی تھی۔
حکومت نے کہا کہ جعلی کرنسی، کالے دھن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت، رسمی شعبے کی توسیع، لین دین کی ڈیجیٹائزیشن، آخری کونے تک رسائی ، کے لیے مواصلاتی رابطوں کو وسعت دینے،ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے، ٹیکس کی تعمیل میں اضافہ…… حکومت کی اقتصادی پالیسی سے متعلق ایجنڈے اہم تھے۔
حلف نامے میں کاروبار کرنے کی لاگت کو کم کرنے، مالی شمولیت کو آسان بنانے اور غیر رسمی شعبے میں دیرینہ بگاڑ کو دور کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
بتا دیں کہ 9 نومبر کو اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی نے جامع حلف نامہ تیار نہ کرنے پر
بنچ سے معذرت کی تھی اور ایک ہفتہ کا وقت مانگا تھا۔
جسٹس ناگارتنا نے تب کہا تھا کہ عام طور پر آئینی بنچ کبھی بھی اس طرح ملتوی نہیں ہوتی ہے۔ ایک بار جب ہم شروع کرتے ہیں تو ہم اس طرح کبھی نہیں اٹھتے ۔ یہ اس عدالت کے لیے انتہائی شرمناک ہے۔۔ بالآخر سپریم کورٹ نے حکومت کو حلف نامہ پیش کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا۔
بنچ 8 نومبر 2016 کو مرکز کے نوٹ بندی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی 58 عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ 16 دسمبر 2016 کو اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے مرکزی حکومت کے فیصلے کے جواز اور دیگر متعلقہ معاملات کےآفیشیل فیصلے کے لیے پانچ ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔
وہیں، حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے والے عرضی گزار کہتے رہے ہیں کہ اس میں آئینی اہمیت کے معاملے شامل ہیں۔ انہوں نے استدلال کیا ہے کہ یہ سوال اب بھی کافی حد تک زندہ ہے کہ کیا حکومت کسی خاص طبقے کی پوری کرنسی کو ڈیمونیٹائز کرنے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 کو لاگو کر سکتی ہے اور اگر اس کا جواب نہیں دیاجاتا تو حکومت مستقبل میں بھی ایسا کر سکتی ہے۔
وہیں، عدالت نے پہلے کہا ہے کہ وہ اس کے لیے اختیار کیے گئے عمل اور طریقہ کار کی جانچ کرے گی جس کے تحت نوٹ بندی کو لاگو کیا گیا تھا۔
بتادیں کہ 12 اکتوبر کو بنچ نے کہا تھا، حکومت کی سمجھداری اس معاملے کا ایک پہلو ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ
لکشمن ریکھا کہاں ہے۔ لیکن جس طریقے سے یہ کیا گیا ہے اور جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس کی جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں شنوائی کی ضرورت ہے…’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)