وزیرقانون روی شنکر پرساد نے صفائی دی ہے کہ سپریم کورٹ کے کولیجیم نے چیف جسٹس کی صدارت میں 12 فروری کو ہی جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلے کی سفارش کر دی گئی تھی۔ کسی بھی جج کے ٹرانسفر پر ان کی بھی رضامندی لی جاتی ہے اور اس کاپر بھی عمل کیا گیا ہے۔
جسٹس مرلی دھر: فوٹو بہ شکریہ : لائیو لاء
نئی دہلی: کانگریس نے دہلی تشدد معاملے میں شنوائی کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلے کو لے کر جمعرات کو الزام لگایا کہ کئی بی جے پی رہنماؤں کو بچانے اور تشددکی سازش کا پردہ فاش نہیں ہونے دینے کے مقصد سے سرکار نے تبادلہ کرایا ہے۔پارٹی کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ،یہ کپل مشرا اور کچھ دوسرے بی جی پی رہنماؤں کو بچانے کی سازش ہے، لیکن ‘مودی شاہ سرکار’ کامیاب نہیں ہوگی ۔
انہوں نے صحافیوں سے کہا،26 فروری کو جسٹس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی دو ججوں کی بنچ نے فساد بھڑ کانے میں کچھ بی جے پی رہنماؤں کے رول کو پہچان کر کےان کے خلاف سخت ہدایت پاس کیے اور پولیس کو قانون کے تحت فوری کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک جج کا تبادلہ کر دیا گیا۔’انہوں نے الزام لگایا،‘مودی سرکار نے عدلیہ کی غیر جانب داری پر حملہ بولا ہے۔ عدلیہ کے خلاف بدلے کی کارروائی کر رہی ہے۔’
سرجے والا نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی رہنماؤں کو بچانے کے لیے تبادلے کا یہ قدم اٹھایا گیا؟ کیا بی جےپی سرکار کو ڈر تھا کہ بی جے پی رہنماؤں کی سازش کاپردہ فاش ہو جائے گا؟ کتنے اور ججوں کا تبادلہ کریں گے؟انہوں نے دعویٰ کیا، ‘عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا کام بی جے پی سرکار نے کوئی پہلی بار نہیں کیا ہے۔ پہلے بھی کئی بار کر چکی ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس عقیل قریشی اور جسٹس گیتا متل کے معاملوں میں ایسا کیا گیا۔’
کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی اور پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے بھی جسٹس مرلی دھر کے تبادلے پر سوال کھڑے کرتے ہوئے الزام لگایا کہ سرکار نے عدلیہ میں دخل دینے کی کوشش کی ہے۔
دراصل، مرلی دھر کا پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ
میں تبادلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے دہلی تشدد کے معاملے پرشنوائی کی تھی اور اشتعال انگیز بیان دینے والے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش صاحب سنگھ ورما جیسےبی جےپی رہنماؤں پر ایف آئی آر درج نہ کرنے
پر سخت اعتراض کیا تھا۔
وہیں، دہلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھر کے تبادلے پر گھری سرکار کی جانب سے صفائی دی گئی ہے۔وزیرقانون روی شنکر پرساد نے صفائی دی ہے کہ سپریم کورٹ کے کولیجیم نے چیف جسٹس کی صدارت میں 12 فروری کو ہی ان کے تبادلے کی سفارش کر دی گئی تھی۔ کسی بھی جج کے ٹرانسفر پر ان کی بھی رضامندی لی جاتی ہے اور اس پر بھی عمل کیا گیا ہے۔
اس مدعے پر سیاست کرکے کانگریس نے ایک بار پھر عدلیہ کے تئیں اپنی غلط نیت کو دکھایا ہے۔ ہندوستان کی عوام نے کانگریس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب وہ سبھی اداروں پر لگاتار حملے کر کے ان کو برباد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔روی شنکر پرساد نے کہا کہ جسٹس لو یا کیس کی سپریم کورٹ میں شنوائی ہوئی تھی۔ جو اس پر سوال اٹھاکر کچھ لوگ عدلیہ کی توہین کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر جامع بحث ہوئی تھی۔ کیا راہل گاندھی خود کو سپریم کورٹ سے اوپر سمجھتے ہیں؟
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)