دہلی تشدد سے جڑے معاملے میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم آصف اقبال تنہا کو مقامی عدالت میں پیش کیے جانے پر ایڈیشنل سیشن جج نے کہا کہ پولیس تشدد میں شامل دوسرے فریق کے بارے میں اب تک ہوئی جانچ کو لےکر کچھ نہیں بتا سکی ہے۔ تنہا کو جمعرات کو ضمانت دے دی گئی۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم آصف اقبال تنہا کو گزشتہ سال دسمبر میں شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف مظاہروں کے دوران یونیورسٹی کے پاس ہوئے تشدد سے جڑے ایک معاملے میں جمعرات کو ضمانت دے دی ہے۔اس سے پہلے بدھ کی شنوائی میں عدالت نے تبصرہ کیا تھا کہ ‘معاملے کی جانچ ایک ہی فریق کی کو نشانہ بناتی’ نظر آ رہی ہے۔
تنہا کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے فروری مہینے میں ہوئے شمال مشرقی دہلی میں ہوئےتشدد سے جڑے معاملے میں 20 مئی کو یو اے پی اے کی دفعہ13 کے تحت گرفتار کیا تھا۔اس وقت انہیں مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرتے ہوئے پولیس نے کہا کہ دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی پوری سازش کا انکشاف کرنے کے لیے تنہا کو ریمانڈ پر لینے کی ضرورت ہے، انہیں 27 مئی تک حراست میں بھیجا گیا تھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، بدھ کو انہیں ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا کے سامنے پیش کرتے ہوئے پولیس نے 30 دن کی عدالتی حراست مانگ کی تھی۔الزام لگایا گیا تھا کہ وہ دہلی تشدد میں شامل تھے۔اس پر جج دھرمیندر رانا کا کہنا تھا، ‘کیس ڈائری پڑھنے پر پریشان کرنے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔ جانچ ایک ہی فریق کو نشانہ بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انسپکٹر لوکیش اور انل سے سوال جواب کرنے پر وہ دوسرے فریق کے اس میں شامل ہونے کے بارے میں اب تک کی گئی جانچ کو لےکر کچھ بھی نہیں بتا سکے۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے متعلقہ ڈی ایس پی کو اس کی نگرانی کرتے ہوئےغیر جانبدارانہ جانچ یقینی بنانی چاہیے۔’
اس کے بعد انہیں ضمانت مل گئی۔ خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اایڈیشنل سیشن جج گورو راؤ نے تنہا کو یہ راحت 25000 روپے کے مچلکے اور اتنی ہی رقم کی ضمانت پر دی۔عدالت نے اس بات پر غور کیا کہ معاملے کے 10 ملزمین میں سے آٹھ ضمانت پر ہیں، ساتھ ہی اس پر بھی غور کیا کہ تنہا ایک اسٹوڈنٹ ہیں اور 24 سال کے ہیں۔
عدالت نے کہا، ‘ملزم کی پچھلی زندگی صاف ستھری رہی ہے، برابرای کی بنیادپر اور سب سے اہم کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے ملزم کو ضمانت دی جاتی ہے۔’عدالت نے ساتھ ہی تنہا کو ہدایت دی کہ چاہے جو بھی ہو وہ کسی تشدد ملوث نہ ہوں اور ایک اچھے ذمہ دارشہری کی طرح برتاؤ کریں اور قانون کی پیروی کریں۔
ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوئی شنوائی کے دورانایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹراشوک کمار نے ضمانت عرضی کی مخالفت کی اور کہا کہ تنہا کی جائے واردات پر موجودگی جانچ کے دوران کال ڈیٹا ریکارڈ سے ثابت ہوئی ہے۔انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی الزام لگایا کہ تنہا نے بڑے پیمانے پر ہوئےتشدد میں فعال رول ادا کیااور اس کے خلاف الزامات کی نوعیت سنگین ہے۔
تنہا کے لیے پیش ہوئیں وکیل ایس شنکرن نے عدالت کو بتایا کہ تنہا کو معاملے میں جھوٹ ہی پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی فیملی کا کمانے والے بنیادی رکن ہیں اور پڑھائی کے ساتھ ایک ریستوراں میں پارٹ ٹائم کام کرتے تھے۔ضمانت عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ چارج شیٹ میں اس کے خلاف تشدد کے مخصوص الزام نہیں ہیں۔ عرضی میں کہا گیا کہ تنہا کو 17 مئی کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ معاملے میں چارج شیٹ 12 فروری کو داخل کی گئی تھی اور جانچ کے دوران وہ پولیس کے سامنے پیش ہوا تھا۔
اس میں الزام لگایا گیا کہ اس کی گرفتاری میں دیری اور اس کے بعد کی حراست ‘غیرقانونی، قابل سزا اور غیر مناسب’ ہے۔عرضی میں کہا گیا کہ جانچ کے دوران وہ جانچ میں شامل ہوا اور پولیس کے ساتھ تعاون کیا اور تنہا کے ذریعے شواہد سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے کیونکہ اس میں سے اکثر پراسیکیوٹرکے قبضے میں ہے۔
فارسی میں بی اے کے طالبعلم تنہا کو دسمبر 2019 میں درج ایف آئی آر میں ملزم بنایا گیا تھا، لیکن مئی تک گرفتاری نہیں ہوئی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)