ای ڈی نے جہانگیر پوری علاقے میں ہوئے تشدد کے معاملے میں دہلی پولیس کی جانب سے کلیدی ملزم بنائے گئے محمد انصار سمیت دیگرمشتبہ افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا یہ معاملہ درج کیا ہے۔پولیس نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انصار کے کئی بینک کھاتوں میں پیسےہیں اور اس کے پاس کئی جائیدادیں بھی ہیں، جو مبینہ طور پر جوئے کے پیسوں سے خریدی گئی ہیں۔
نئی دہلی: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے دہلی کے جہانگیر پوری میں حالیہ تشدد کے کلیدی ملزم محمد انصار سمیت دیگر مشتبہ افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا ایک مقدمہ درج کیا ہے۔ حکام نے سنیچر کو یہ جانکاری دی۔
ایجنسی نے منی لانڈرنگ روک تھام قانون (پی ایم ایل اے) کی مجرمانہ دفعات کے تحت انفورسمنٹ کیس انفارمیشن رپورٹ (ای سی آئی آر) درج کی ہے۔ ای ڈی کی ای سی آئی آر پولیس کی ایف آئی آر کی طرح ہی ہوتی ہے۔
دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ نے حال ہی میں ای ڈی کو ایک خط لکھ کر ایجنسی (ای ڈی) سے (منی لانڈرنگ) کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے اس معاملے میں دہلی پولیس کے حکام کے ذریعے حاصل کیے گئے ابتدائی حقائق اور ان کے ذریعے درج کی گئی ایف آئی آر کا حوالہ دیا تھا۔
حکام نے بتایا کہ پولیس میں درج کی گئی ان شکایتوں کے بعد ای ڈی نے معاملہ درج کیا ہے۔
جہانگیر پوری میں 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر نکالی گئی شوبھا یاترا کے دوران دو برادریوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی، جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مقامی باشندہ زخمی ہوگیا تھا۔ پولیس کے مطابق تشدد کے دوران پتھراؤ اور آتش زنی کے واقعات پیش آئے اور کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔
پولیس کے مطابق، جہانگیر پوری کے بی بلاک کے رہائشی 35 سالہ انصار تشدد کے واقعے کا مبینہ طور پر کلیدی ‘ سازش کار’ ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ انصار کے کئی بینک کھاتوں میں پیسے ہیں اور کئی جائیدادیں بھی ہیں، جو مبینہ طور پر جوئے کے پیسوں سے خریدی گئی ہیں۔
ای ڈی تمام ملزمین سے پوچھ گچھ کر سکتی ہے اور ان کے مالی لین دین کی جانچ کر سکتی ہے۔ اس کے پاس منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے دوران ملزمان کو گرفتار کرنے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا بھی اختیار ہے۔
پولیس نے اب تک جہانگیرپوری تشدد کیس میں 25 افراد کو گرفتار کیا ہے، جبکہ دو نابالغوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔
انصار سمیت پانچ ملزمان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق، شوبھا یاترا میں شامل لوگوں کے ساتھ انصار کی مبینہ طور پربحث ہوئی تھی، جس پر تنازعہ ہوگیا اور اس کے بعد پتھراؤ ہوا تھا۔
تشدد کے واقعے کے بعد 20 اپریل کو بی جے پی مقتدرہ شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کی طرف سے انسداد تجاوزات مہم چلائی گئی تھی، جس نے تنازعہ کو جنم دیا۔
الزام ہے کہ اس مہم کے تحت ملزمان کے مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو توڑا جا رہا تھا جس پر سپریم کورٹ کی روک کے بعد بھی کارروائی نہیں روکی گئی۔ کچھ گھنٹوں بعد جب درخواست گزار کے وکیل واپس عدالت پہنچے تب توڑ پھوڑ کی کارروائی روکی گئی۔
اس کے بعد 21 اپریل کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے این ڈی ایم سی کی توڑ پھوڑ کی مہم پر دو ہفتے کی پابندی لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ 20 اپریل کو ہوئی توڑ پھوڑ کی کارروائی کا نوٹس لے گی، جو کارپوریشن کو اس کے فیصلے سے آگاہ کیے جانے کے بعد بھی جاری رہی۔
ترنمول نے دہلی تشدد کے ملزم انصار کے ساتھ بی جے پی لیڈروں کی تصویریں شیئر کیں
دہلی کے جہانگیرپوری میں ہوئے تشدد کے ملزم محمد انصار کے ساتھ ترنمول کانگریس کے ایک کونسلر کی تصویر وائرل ہونے کے بعد پارٹی لیڈروں نے جمعہ کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر انصار کے ساتھ بی جے پی لیڈروں کی مبینہ تصویریں شیئر کیں اور انہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کو کہا۔
کئی نیوز چینلوں نے 21 اپریل کو انصار اور ہلدیہ سے کونسلر عزیزالرحمٰن کی تصویریں دکھائی تھیں۔ ترنمول کے رکن رحمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ تصویر 2019 میں لی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور لوگ ہمارے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے اس معاملے کو طول دیے جان کے ساتھ ہی مغربی بنگال کے صنعت و تجارت کے وزیر پارتھا چٹرجی سمیت ترنمول کے کئی لیڈروں نے بی جے پی لیڈروں کے ساتھ انصار کی مبینہ تصویروں کو ٹوئٹ کیا۔ ترنمول جنرل سکریٹری چٹرجی نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں انصار دہلی میں بی جے پی لیڈروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
چٹرجی نے لکھا، میرا ماننا ہے کہ انصاف کو یقینی بنانا ہماری ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ مجرموں کو سزا ملنی چاہیے۔ یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح انصار کا بی جے پی کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ صرف ایک پہلو کوہی نہیں دیکھنا چاہیے۔
I truly believe that our priority should be ensuring justice! The perpetrators must be adequately punished!
Here, we see how Ansar has been closely associated with @BJP4India. Let's not have a one-track mind! pic.twitter.com/1hu8JEl6Vb
— Partha Chatterjee (@itspcofficial) April 22, 2022
اسی طرح سیاحت، اطلاعات اور ثقافتی امور کے وزیر اندرنیل سین نے بھی انصار کے ساتھ بی جے پی لیڈروں کی تصویر شیئر کی۔
بی جے پی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے ترنمول کے ریاستی ترجمان کنال گھوش نے نامہ نگاروں سے کہا، بی جے پی کو ہلدیہ کے رہنے والے انصار کے ساتھ ہمارے ایک مقامی لیڈر کی پرانی تصویر وائرل کرنے کے بجائے یہ بتانا چاہیے کہ وہ ان کے سیاسی پروگراموں میں کیا کر رہا تھا۔
ترنمول کے الزامات کا جواب دیتے ہوئےبی جے پی کے ریاستی ترجمان شمک بھٹاچاریہ نے کہا کہ ان کی پارٹی اخلاقیات اور وفاداری میں یقین رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا،انصار کو ہمارے لیڈر شبھیندو ادھیکاری کی گاڑی پر اس دن پتھراؤ کرتے دیکھا گیا تھا، جب 2021 اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہواتھا، وہ بی جے پی کے ساتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہماری پارٹی ایسے عناصر کو کبھی پناہ نہیں دیتی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)