
شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے پانچ سال بعد بھی سماجی تقسیم اور دوری ختم ہوئی ہے اور نہ ہی اس تشدد کے متاثرین کو مناسب معاوضہ ملا ہے۔ انصاف تو آج بھی دور کی کوڑی ہے۔

دہلی فسادات کے دوران کھجوری خاص ایکسٹینشن میں جلایا گیا ایک گھر اور متاثرین۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
‘میرے بھائی کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کو پانچ سال گزر چکے ہیں۔ پہلے انہوں نے اسے گولیوں سے بھون دیا۔ پھر انہوں نے اسے لاٹھیوں سے پیٹا۔ اور آخر کار، انہوں نے اسے آگ کے حوالے کر دیا۔’
دہلی میں کاروانِ محبت کے زیر اہتمام 26 فروری کومنعقد یکجہتی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سلیم نے کہا۔
شمال-مشرقی دہلی کے مزدور طبقے کے علاقے میں ہوئے فرقہ وارانہ قتل عام کی پانچویں برسی کے موقع پر اس اجلاس کا انعقاد کیا گیا تھا، اس تشدد کی شروعات 23 فروری 2020 کو ہوئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا،’میں یہ سب کچھ پڑوس کی ایک عمارت کی تیسری منزل پر بیٹھ کر دیکھ رہا تھا۔’ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’میں بے بس تھا‘۔میں اپنے بھائی کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔’
‘میرا گھر، میرا کارخانہ، سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ ہجوم نے ان عمارتوں پر پٹرول پھینک کر انہیں آگ کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے ہماری گاڑیاں بھی جلا دیں۔ ہمارا سارا سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ ہم اپنی جان بچانے کے لیے پولیس کو فون کرتے رہے لیکن کوئی نہیں آیا۔’
‘ہم صرف اپنے ہندو پڑوسی ابھیشیک کی وجہ سے زندہ ہیں۔ میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے میرے ماتھے پر تلک لگایا تاکہ میں ہندوجیسا نظر آؤں۔ وہ ہمارے خاندان کے تمام نو افراد کو اپنے گھر لے گئے۔’
‘کچھ دنوں بعد، جب تشدد کم ہوا تو میں پڑوسیوں کے ساتھ پولیس اسٹیشن گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے ہجوم کو میرے بھائی کو زندہ جلاتے ہوئے دیکھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا، اور اگر وہ مر گیا ہے تومجھے اس کی لاش چاہیے۔ پولیس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ تحقیقات کریں گے۔ انہوں نے مجھے اس جگہ سے فون کیا جہاں میں نے اپنے بھائی کو جلتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس کی لاش نہیں ملی۔ انہیں صرف ایک پیر ملا۔’
انہوں نے مجھ سے پوچھا، ‘کیا تم اس کے پیر کو پہچان سکتے ہو؟’ میں نے ان سے کہا کہ ‘ہم بچپن سے ساتھ رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ میں اس کے پیر کو پہچان لوں گا’۔ اس رات میں جی ٹی بی ہسپتال کے مردہ خانے میں گیا، جہاں انہوں نے مجھے پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ٹانگ دکھائی۔ میں نے ان سے کہا، ‘یہ میرا بھائی ہے’۔ مجھے یقین تھا۔ میں اپنے بھائی کی باقیات واپس لینےہر دوسرے دن ہسپتال جاتا تھا۔ بالآخر ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد تصدیق ہوئی کہ ٹانگ واقعی میرے بھائی کی تھی۔ ایک سال بعد مجھے اس کی ٹانگ ملی۔
جب سلیم نے اپنے درد اور مایوسی کی داستان سنائی تو ہال میں بہت کم آنکھیں ایسی تھیں جو نم نہیں ہوئی تھیں۔
§
کاروانِ محبت کے اس اجلاس میں دوسرے متاثرین نے بھی اپنے درد کا اظہار کیا۔ ان میں سے ایک ممتاز بیگم تھیں، جو سسک رہی تھیں اور ٹھیک سے بول نہیں پا رہی تھیں۔ ان کے شوہر نےاپنے چھوٹے سے گھر کی کھڑکی سے باہر جھانکا ہی تھا کہ انہیں بھیڑ کی خوفناک دہاڑ سنائی پڑی۔ اسی وقت کسی نے ان کے چہرے پر کوئی مائع پھینک دیا۔ جو تیزاب نکلا۔ ڈاکٹروں نے دو سال تک ان کا علاج کیا، لیکن ان کی بینائی واپس نہیں آئی۔ تیزاب کی وجہ سے وہ مکمل طور پر اندھے ہو گئے ۔ حملے سے پہلے وہ کریانے کی چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔ اب یہ خاندان بالکل بے سہارا ہوگیا ہے۔
ریحانہ بیگم نے ان تلخ سماجی فاصلوں کے بارے میں بات کی، جس کے باعث ان کا علاقہ الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘پانچ سال پہلے ہونے والا تشدد اب تک ختم نہیں ہوا ۔ تشدد جاری ہے۔ میں جس علاقے میں رہتی ہوں، وہاں لوگ اب بھی ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے ہم نے کسی کو قتل کیا ہو یا کسی کو لوٹ لیا ہو۔ فسادات کے بعد جب ہم گھر لوٹے، تو لوگ ہماری طرف ایسے دیکھتے تھے جیسے ہم نے ان کے گھروں کو لوٹ لیا ہو۔ جب ایودھیا میں مندر کا افتتاح ہوا تو حالات اور بھی بدتر ہو گئے۔ پھر انہوں نے سڑکوں پر نعرے لگانے شروع کر دیے جس سے ہم بہت زیادہ خوفزدہ ہو گئے۔ ہم آج بھی اس ڈرکا سامنا کر رہے ہیں۔’

سال 2020 کے تشدد کے دوران شیو وہار میں جلی ہوئی فیکٹری۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
لیکن سلیم جیسے کئی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جان ان کے ہندو پڑوسیوں نے بچائی۔ شہزاد اصغر زیدی کی بجلی کی دکان تھی۔ ان کی پانچ بیٹیاں ہیں اور کوئی بیٹا نہیں ہے،دکان سے انہیں اچھی کمائی ہوجاتی تھی۔ فسادات کے دن ایک ہندو پڑوسی نے انہیں بتایا کہ ہجوم نے ان کی دکان کو آگ لگا دی ہے۔ وہ دور سے بے بسی سے دیکھتے رہے۔ ایک دن بعدوہ ملبے میں کچھ اہم دستاویزوں کی تلاش میں دکان پر گئے۔ وہاں ایک شخص نے ان پر چاقو سے حملہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک ہندو دوڑ کر ان کے درمیان کھڑا ہو گیا اور کہا کہ وہ شہزاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔ ‘جس آدمی نےمجھے مارنے کی کوشش کی وہ ہندو تھا۔ جس نے مجھے بچایا وہ بھی ہندو تھا۔ میں کیا کہوں؟’
اس کے بعدجو سلسلہ شروع ہوا، زیدی اسے انصاف اور معاوضے کے لیے اپنی ‘دوسری جنگ’ کی طرح دیکھتے ہیں۔ کسی کو ان کی دکان لوٹنے اور جلانے کی سزا نہیں دی گئی۔ حالانکہ ان کا نقصان پانچ یا چھ لاکھ روپے تھا ،لیکن مسلسل حکومت کے دروازے کھٹکھٹانے کے بعد انہیں صرف پانچ ہزار روپے بطور معاوضہ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی فسادات کے پانچ سال؛ معاوضے اور انصاف کا انتظار
موج پور چوک پر سیکنڈ ہینڈ کپڑوں کی دو منزلہ دکان چلانے والے رفیق کا ہاتھ پانچ سال بعد بھی خالی ہے۔ انہوں نےبتایا کہ 23فروری کو بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی نفرت انگیز تقریر کے فوراً بعد لوٹ مار، آتش زنی اور پتھراؤ شروع ہو گیا تھا۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگے۔ کسی طرح وہ تنگ گلیوں سے دوڑتے ہوئے گھر پہنچے۔ چار دن بعد ان کے پڑوسیوں نے انہیں اطلاع دی کہ گیس سلنڈرپھوڑ کر ان کی دکان جلا دی گئی۔ پھر بھی انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔
محمد شہزاد کے پاس ایک ‘دھرم کانٹا’ تھا، جس میں ٹرک جیسی بھاری گاڑیوں کاوزن کیا جاتاہے۔ انہوں نے 15 سے 20 ملازم کو کام پر رکھا ہواتھا، جن میں اکثر ہندو تھے۔ ایک ہندو ملازم نے گھبراہٹ میں انہیں فون کیا اور بتایا کہ ایک مشتعل، نعرہ بازی کرنے والا ہجوم جمع ہو گیا ہے اور ترازو کو آگ لگا رہا ہے۔ شہزاد نے پولیس کو فون کیا۔ دوسری طرف موجود شخص نے انہیں یقین دلایا کہ وہ جلد اپنی فورس بھیج دیں گے۔ پھر اس نے شہزادے کا نام پوچھا۔
صاف تھاکہ فون کرنے والا مسلمان تھا۔ ہجوم کو منتشر کرنے یا آگ بجھانے کے لیے کوئی پولیس فورس وقت پر نہیں پہنچی۔ ان کے ملازم نے بعد میں انہیں بتایا کہ جب پولیس پہنچی تو بہت زیادہ تباہی ہو چکی تھی، لیکن انہوں نے ہجوم کو توڑ پھوڑ اور آتش زنی جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ ہجوم نے ترازو کے قریب کھڑی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی، اور ایک ملازم کو تقریباً مار ڈالا۔
جب یہ ہو رہا تھا تب شہزاد اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر میں چھپا ہوا تھا۔ وہاں بھی ایک بڑا ہجوم جمع ہو گیا تھا، اور اتنے پتھر اور اینٹیں پھینکیں کہ جلد ہی فرش نظر نہیں آ رہا تھا،اس کے بعد انہوں نے کئی ہفتوں تک پولیس کا پیچھا کیا، لیکن انہوں نے مجرموں کو گرفتار نہیں کیا۔ بلکہ پولیس انہیں دھمکیاں دیتی رہی۔
شہزاد نے بتایا کہ ان کے والد ایک غریب مزدور تھے اور کم عمری میں ہی انتقال کر گئے۔ انہوں نے اپنا کاروبارکھڑا کرنے کے لیے بہت جدوجہد کی۔ اب سب کچھ برباد ہو چکا ہے۔ انہیں کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ انہیں جو معاوضہ ملا ہے، وہ صرف 12500 روپے ہے۔
فیضان کی عمر صرف 14 سال تھی، جب فرقہ وارانہ تشدد کے دوران اچانک گولی لگنے سے اس کی زندگی بدل گئی۔ ان کی والدہ کا انتقال بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ ان کے والد نے انہیں اور ان کے بھائی کو چھوڑ دیا تھا۔ ان کی دادی نے ان کی پرورش کی۔ تشدد کے دوسرے دن، ان کی دادی نے انہیں اپنی گلی میں گروسری اسٹور سے کچھ کھانا خریدنے کے لیے بھیجا۔ اسی وقت ایک پرتشدد ہجوم محلے میں داخل ہوا فیضان خوفزدہ ہو کر بھاگا لیکن ایک گولی اسے لگ گئی اور وہ نیچے گر پڑا۔ پڑوسی ان کی دادی کو اطلاع دینے بھاگے۔ یہ خبر سن کر ان کی دادی بے ہوش ہو گئیں۔ پڑوسی انہیں کلینک لے گئے۔ ان کی کمر پر گولی کے گہرے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ کلینک کے ڈاکٹر نے زخم پر پٹی تو باندھ دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر اس کی جان بچانی ہے تو اسے فوراً ہسپتال لے جانا پڑے گا۔ لیکن یہ ناممکن لگ رہا تھا۔ ہر طرف ہجوم تھا، پتھر برسائے جا رہے تھے، عمارتوں کو آگ لگائی جا رہی تھی۔ کسی گاڑی، ایمبولینس کو آگے جانے کی اجازت نہیں تھی۔
ایک رحم دل صحافی نکیتا جین نے ان کی جان بچائی۔ ان کے پڑوسیوں کی مدد سے، انہوں نے انہیں لکڑی کی ایک گاڑی پر لٹایا اور چادر سے ڈھانپ دیا۔ بھیڑ کے درمیان سے ہوتے ہوئے وہ اس گاڑی کو پولیس جیپ تک لے گئے۔ وہاں صحافی نے پولیس والوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ہسپتال لے جائیں۔ پولیس شروع میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی تھی لیکن آخر کار مان گئی، لیکن جب وہ انہیں ہسپتال لے جا رہے تھے، فیضان کو یاد ہے کہ وہ ان کا مذاق اڑا رہے تھ۔ انہوں نے کہا،’ باہر جا کر دوبارہ احتجاج کرو۔ تمہارے ساتھ یہی ہوگا۔ تمہیں وہی ملا ہے جس کے تم مستحق ہو۔’
§
سال 1961 میں جبل پور میں آزادی کے بعد ہوئے پہلے بڑے فسادات کے بعد سے ہی بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو انصاف اور معاوضہ دلانے میں ، ایک آدھ معاملے کو چھوڑ کر، ہندوستانی حکومتوں کا ریکارڈ بری طرح سے داغدار ہے۔ لیکن ان شرمناک مثالوں سے قطع نظرشمال-مشرقی دہلی کا فرقہ وارانہ قتل عام بالکل الگ ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ یہ تشدد قومی راجدھانی میں ہوا، جہاں سے ملک اور دہلی کی حکومتیں چلتی ہیں۔ دہلی تمام مسلح افواج اور بیشتر نیم فوجی دستوں کا قومی ہیڈ کوارٹر ہے۔ اگر نیت ہوتی تو شہر کے مزدور طبقے کے علاقے میں شروع ہونے والی معمولی جھڑپوں پر چند گھنٹوں میں قابو پایا جا سکتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ چھ دن تک بلا تعطل جاری رہا، یہ نہ صرف ریاست کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے ۔ بلکہ یہ مجرموں اور ریاست کی ملی بھگت کا ثبوت بھی ہے۔ تشدد لمبے وقت تک صرف اس لیے جاری رہا کہ ریاست اس کو جاری رکھنا چاہتی تھی۔
بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں کی نفرت انگیز تقاریر کے باوجود، اور دہلی ہائی کورٹ میں ہماری مداخلت اور قائم مقام چیف جسٹس مرلی دھر کی سخت سرزنش کے باوجود، پولیس نے ان میں سے کسی کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔’دیش کے غداروں کو’ گولی مارنے کی اپیل کرنے والوں میں سے ایک کو مرکزی کابینہ کا وزیر بنایا گیا۔ پانچ سال بعد دہلی حکومت میں دوسرے کو وزیر بنایا گیا، وہ بھی وزیر قانون و انصاف۔
یہ بھی پڑھیں: دہلی فسادات:پانچ سال بعد بھی متاثرین معاوضے سے محروم، رپورٹ میں حکومت کی ناکامی اجاگر
تشدد کو روکنے یا اس پر قابو پانے میں ناکام ہونے کے بعد، ریاست کا اگلا فرض ان لوگوں کی حفاظت کرنا تھا جن کی جانوں، املاک اور گھروں کو فسادی ہجوم نے نشانہ بنایا تھا۔ لیکن پولیس نے ان 13000 فون کال کو نظر انداز کر دیا، جو اسے کی گئی ۔ ہم نے شہریوں کے لیے ایک کنٹرول روم قائم کرنے کے لیے رضاکاروں سے اپیل کی۔ چند گھنٹوں میں 40 سے زائد نوجوان میرے دفتر میں جمع ہوگئے اور پانچ دن تک وہاں سے نہیں نکلے۔ میں نے ششی کانت سینتھل سے درخواست کی، جنہوں نے حال ہی میں آئی اے ایس سے استعفیٰ دیا تھا اور اب لوک سبھا کے رکن ہیں، کہ وہ شہری کنٹرول روم کی سربراہی کریں۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
ریاستی حکومت نے 2002 میں گجرات حکومت کے شرمناک اقدام کی پیروی کرتے ہوئے ریلیف کیمپ قائم کرنے کے لیے شروع میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ جب اس کی بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی تو دہلی حکومت نے نو بے گھر پناہ گاہوں کو ریلیف کیمپ کے طور پر نامزد کیا۔ یہ تشدد سے بے گھر ہونے والے ہزاروں لوگوں کی توہین کے سوا کچھ نہیں تھا۔ بے گھر پناہ گاہیں خالی ٹین شیڈ ہیں جن میں بے گھر افراد کو غیر صحت مند اور غیر صحت بخش حالات میں خاص طور پر سردیوں کے مہینوں میں پیک کر دیا جاتا ہے۔
یہ فرقہ وارانہ تشدد سے بے گھر ہونے والے ہزاروں لوگوں کے لیے حفاظت اور علاج و معالجے کی جگہیں کیسے ہو سکتی ہیں؟ قومی راجدھانی دہلی کے پاس اتنے وسائل تھے، جنہیں آسانی سے مثالی ریلیف کیمپوں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا، جیسے کہ؛ اسٹیڈیم اور کالج کی عمارتیں۔ لیکن حکومت نے فرقہ وارانہ تشدد کے شکار لوگوں کو مؤثر ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوئی آپشن نہیں چنا۔
کاروانِ محبت کی رپورٹ میں بیان کی گئی معاوضے کی کہانی- جس کا عنوان ہے ‘غیر حاضر ریاست: 2020 کے دہلی فسادات کے متاثرین کو معاوضہ اور نقصان کی بھرپائی سے انکار’- اس سے بھی زیادہ مایوس کن ہے۔ مرکزی حکومت نے معاوضے کی اسکیم کا اعلان نہیں کیا اور تشدد کے متاثرین کو پانچ سالوں میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔
ریاستی حکومت نے ایک اچھی شروعات کی، لیکن یہ صرف چند ہفتے ہی چل سکی۔ اس نے کم از کم معاوضے کی اسکیم کا اعلان کیا، حالانکہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے مقابلے بہت محدود پیمانے پر۔ ریاستی حکومت کے اہلکاروں نے موت کے معاوضے اور ایکس گریشیا کو مؤثر طریقے سے تقسیم کیا۔
لیکن جلد ہی، مارچ میں ہی، دہلی کی ریاستی حکومت نے معاوضے کا اندازہ لگانے اور تقسیم کرنے کے لیے ایک علیحدہ ایجنسی قائم کرنے کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ یہ ناقابل فہم اور ناقابل معافی تھا، کیونکہ فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد سے متاثرہ افراد کا بچاؤ، امداد، معاوضہ اور بحالی ریاست کا ایک بنیادی فرض ہے، جو درحقیقت تشدد کے متاثرین کے جینے کے آئینی بنیادی حق سے ماخوذ ہے۔ یہ ذمہ داری کسی بیرونی ادارے کے سپرد کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔
اس کام کے لیے ہائی کورٹ کی طرف سے ایک کمیشن مقرر کیا گیا، جو درحقیقت بالکل مختلف، بلکہ مخالف مقصد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانا تھا، جسے فسادیوں سے وصول کیا جانا تھا۔ فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو مناسب معاوضہ فراہم کرنے کی اس بڑی ذمہ داری کے ساتھ، کمیشن کو اپنا کام شروع کرنے میں سات مہینے لگے۔ اس کے بعد اس نے متاثرین کو ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے بے ترتیب ڈھنگ سے پرائیویٹ ایویلیویٹرکو مقرر کیا۔
ان پرائیویٹ ایویلیویٹروں کےعمل اور طریقہ کار کو عام نہیں کیا گیا۔ نہ تو جائزہ لینے والوں نے اور نہ ہی کمیشن نے ان کی بات سنی، جن کا نقصان ہوا تھا۔ انہوں نے عام طور پر اپنی تشخیص کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ اور تشخیص کے خلاف اپیل کی ایک بھی شق نہیں تھی۔ یہ سب فطری انصاف کے تمام اصولوں کے خلاف ہے۔
تشدد کا نشانہ بننے والوں کے بنیادی حقوق پر حملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ کمیشن کی طرف سے جن درخواستوں کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان میں معاوضے کی سطحیں طے کی گئی ہیں جو کہ اصل نقصانات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ لیکن کمیشن نے کہا کہ اس کے پاس معاوضے کی معمولی رقم بھی تقسیم کرنے کے لیے فنڈ نہیں ہیں۔ 2020 اور اس کے بعد کے تمام سالوں کے لیے ریاستی حکومت کے بجٹ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ بجٹ میں معاوضے کی ادائیگی کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی علیحدہ بجٹ رکھا گیا تھا۔
دہلی حکومت کے تقریباً 75000 کروڑ روپے کے کل بجٹ میں، یہاں تک کہ فراخدلانہ معاوضے کے انتظامات بھی اس کی کل رقم کے 1-2 فیصد سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ظاہر ہے، 2020 کے دہلی کے فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو معاوضہ دینے سے انکار فنڈز کی کمی کی وجہ سے ہونے والی غلطی نہیں تھی۔
سال 2020 کے دہلی فرقہ وارانہ تشدد کے بعد پولیس نے 758 ایف آئی آر درج کی، جن میں سے ایک میں دعویٰ کیا گیا کہ شہریت ترمیمی قانون 2019 کے خلاف احتجاج کرنے والے اور امدادی کاموں میں سرگرم افراد دراصل سازشی تھے جنہوں نے فرقہ وارانہ قتل عام کا منصوبہ بنایا تھا۔
گزشتہ اپریل میں ہائی کورٹ کو دیے گئے ایک بیان میں پولیس نے کہا تھا کہ 289 مقدمات میں تحقیقات ابھی بھی جاری ہیں۔ عدالت میں 296 مقدمات زیر التوا ہیں اور 173 مقدمات کو عدالت نے خارج کر دیا ہے ۔
§
محمد شہزاد کا کروڑوں روپے کا دھرم کانٹا جل گیا، تاہم انہیں صرف 12500 روپے معاوضہ دیا گیا۔ شہزاد نے کہا، ‘کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میں یہاں کیوں پیدا ہوا؟ یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے آپ انصاف کہہ سکیں۔ میرا کیا قصور ہے کہ مجھے اتنابرداشت کرنا پڑا؟’
یا سلیم ، جس نے ایک ہجوم کو اپنے بھائی کوگولی مارتے ہوئےاور پھر جلاتے ہوئے دیکھا۔ اس کا کارخانہ اور گھر جلا دیاگیا، اور وہ اپنے بچوں کو کھلانے اور پڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا ،’زندگی بہت مشکل ہے۔ لیکن مجھے پیسے نہیں چاہیے۔ مجھے اپنے بھائی کے لیے انصاف چاہیے، مجھے اس سفاکی کی سزا چاہیے جس کے ساتھ اسے مارا گیا۔’
اس نےآہستہ سے کہا، ‘اگر مجھے انصاف نہیں ملا تو میں اپنی جان لے لوں گا۔’
لیکن کیا کسی نے انہیں سنا؟
کیا کسی کو ان کی پرواہ ہے؟