دہلی پولیس کے مطابق جعفرآبادتشدد کے ایک ملزم شاہ رخ نے اپنے بیان میں پنجرہ توڑ کارکن دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کا نام لیا تھا۔ شاہ رخ نے کہا کہ تشدد میں آنکھوں کی روشنی لگ بھگ کھو دینے کی وجہ سے اس کو نہیں پتہ کہ پولیس نے اس سے جس بیان پر دستخط کرائے اس میں کیا لکھا تھا۔
نئی دہلی: شمال مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئےتشدد کے دوران فساد اورقتل کے ایک معاملے 24 سالہ ملزم کار میکینک شاہ رخ خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پنجرہ توڑ کی کارکن دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کا نام بھی نہیں سنا ہے۔واضح ہو کہ دہلی تشدد معاملے میں مبینہ رول کے لیے دیوانگنا اور نتاشا پر بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔
شاہ رخ کا بیان اس لیے اہم ہے کیونکہ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ شاہ رخ نے اپنے اقبالیہ بیان میں کلیتا اور نروال کا نام لیا تھا۔پولیس کے مطابق، دہلی فسادات میں شاہ رخ بری طرح سے زخمی ہو گئے تھے اور ایک آنکھ کی روشنی پوری طرح سے چلی گئی تھی جبکہ دوسری آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت90 فیصدی تک ختم ہو گئی ہے۔
دہلی کے جعفرآباد تشدد معاملے میں شاہ رخ ملزم ہیں۔ جعفرآباد میں ہوئےتشدد میں 18 سال کے امان کاقتل ہو گیا تھا۔ اس معاملے میں دو جون کو درج پولیس کی چارج شیٹ میں شاہ رخ نامزد 12ملزموں میں سے ایک ہیں۔دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، شاہ رخ کا کہنا ہے کہ واقعہ کے دن اس کی چھٹی تھی اور دوپہر کے وقت وہ گھر سے باہر نکلا تھا۔
شاہ رخ نے کہا، ‘میں پیدل جا رہا تھا، میں نے ایک جنازہ جاتے دیکھا اور اس میں شامل ہو گیا۔ ہم جعفرآباد میں ایک اسکول کے پاس پہنچے ہی تھے کہ دوسری طرف سے پتھربازی شروع ہو گئی، پھر ہماری طرف سے بھی لوگوں نے جواب میں پتھر پھینکے۔ میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔’
شاہ رخ کا کہنا ہے کہ انہیں بلیٹ کے چھرے لگے اور وہ سڑک پر گر گئے، جس کے بعد پہلے پاس کے ایک اسپتال لے جایا گیا اور بعد میں لوک نایک اسپتال۔ وہاں سے گرونانک آئی سینٹر ریفر کیا گیا، جہاں چار سے پانچ دن ان کا علاج چلا۔شاہ رخ کی ایک آنکھ کی روشنی پوری طرح چلی گئی جبکہ دوسری آنکھ سے بےحد کم نظرآتا ہے۔ شاہ رخ اور ان کےاہل خانہ کاالزام ہے کہ پولیس نے اس کے ساتھ بربریت کی اور پوچھ تاچھ کے وقت نہ پیٹے جانے کا یقین دلاکر اس سے جبراً 10000 روپے وصول کیے۔
مبینہ طور پرخان سے حاصل ہوئے ایک بیان میں پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ شاہ رخ نے بتایا کہ محمدفیضان، نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا، سہاسنی، گل اور دیگر اس حملے میں شامل تھے۔ شاہ رخ اور اس کے اہل خانہ اس سے انکار کر رہے ہیں۔شاہ رخ کا کہنا ہے کہ پولیس نے جبراً اس سے ایک بیان پر دستخط کرائے، جس کو وہ پڑھ بھی نہیں سکا کیونکہ ان کی آنکھوں کی روشنی لگ بھگ چلی گئی ہے اور ان کی ماں، جو اس وقت ان کے ساتھ تھیں، پڑھنا لکھنا نہیں جانتی ہیں۔’
شاہ رخ کا کہنا ہے، ‘ہمیں نہیں پتہ کہ پولیس نے بیان میں کیا لکھا تھا۔’
یہ ایک واحد مثال نہیں ہے، جہاں دہلی فسادات سے جڑے معاملے کے بیانات کو لےکر کوئی تضاد سامنے آیا ہو۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایسے لگ بھگ 12 بیان ہیں، جن میں سے نو بیان لگ بھگ ایک جیسے ہیں۔ یہ بیان سی آر پی سی کی دفعہ161 کے تحت درج کئے گئے ہیں اور 20 سال کے ویٹر دلبر نیگی کے قتل سے جڑے ہیں۔
دہلی تشددمعاملے میں 26 فروری کو نیگی کا قتل کر دیاگیا تھا اور اس کی مسخ شدہ جلی ہوئی لاش شیو شو وہار کی ایک مٹھائی کی دکان سے ملی تھی، جہاں وہ کام کرتا تھا۔اخبار کے مطابق، ایسے کئی بیان ہیں، جو بالکل ایک جیسے ہیں۔مثال کے طور پر سیلم پورفسادات میں آزاد (24)،راشد مونو (20)، اشرف علی(29)اور محمدفیضل(20)کے بیان ایک جیسے ہیں۔
آزاد نے اپنے اقبالیہ بیان میں مبینہ طور پر کہا ہے، ‘گزشتہ کچھ دنوں میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف مظاہرےہو رہے تھے۔ میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ جن لوگوں کے پاس ملک کی شہریت کے ثبوت نہیں ہو ں گے، انہیں ملک بدرکیا جائےگا۔ اس کی بنیاد پر 24 فروری کو سیلم پور میں فسادات کی شروعات ہوئی اور دھیرے دھیرے یہ پورے جمنا پار میں پھیل گئی۔ 24 فروری کو دوپہر لگ بھگ دو یا تین بجے کئی لوگ شیو وہار تراہے پر جمع ہوناشروع ہوئے اور ہندوؤں کے گھروں پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا۔ ہندوؤں نے بھی ہم نے پر پتھراؤ کیا۔ یہ لمبے وقت تک چلتا رہا۔’
پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق، مونو کا بیان بھی کچھ یہی کہتا ہے۔جعفرآباد فسادات سے جڑے معاملوں میں دوسرےملزموں محمد شعیب (22) اور شاہ رخ (24) کے بیان بھی ایسے ہی ہیں۔