دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے پہلے سے ہی حراست میں لی گئی پنجرہ توڑ تنظیم کی کارکن اور جے این یو کی ریسرچ اسکالر نتاشا نروال کو دہلی تشدد معاملے میں گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فسادات کی سازش میں نتاشا کے رول کو لےکر ان کے پاس پختہ ثبوت ہیں۔
نتاشا نروال(فوٹوبہ شکریہ : سوشل میڈیا)
نئی دہلی: دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے شمال مشرقی دہلی میں فروری مہینے میں ہوئے فسادات کی مبینہ سازش کے الزام میں جمعہ کو یو اے پی اےکے تحت پنجرہ توڑتنظیم کی کارکن نتاشا نروال کو گرفتار کر لیا ہے۔وہ پہلے سے ہی حراست میں تھیں۔ نروال کو پہلی بارسنیچر23 مئی کو، 22 فروری 2020 کو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے باہر شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف ہوئے ایک مظاہرہ میں حصہ لینے پر ان کی
ایک ساتھی دیوانگنا کلیتا کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔
گزشتہ 24 فروری کو درج ہوئی ایک ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ یہاں سے ہٹنے کے آرڈرکے باوجود مظاہرین نعرے لگارہے تھے۔ حالانکہ ایک پولیس اہلکارکے ذریعےدرج کروائی گئی اس ایف آئی آر میں (48/2020) میں اس بات کا ذکر نہیں تھا کہ کسی بھی خاتون یا دوسرے شخص کے ذریعے کوئی تشددکیا گیا۔لیکن ان دونوں کے اوپر لگائی گئی دفعات میں پولیس اہلکار پر حملہ کرنے کی دفعہ لگائی گئی ہے۔
گزشتہ 23 مئی کو گرفتاری کے ایک دن بعد اس معاملے میں دونوں کو عدالت نے ضمانت دے دی تھی، لیکن اس کے کچھ ہی وقت بعد دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے ایک عرضی دائر کرکے ان سے پوچھ تاچھ کی گزارش کی اور تشددسے جڑے ایک دوسرے معاملے میں انہیں رسمی طور پر گرفتار کر لیا۔
دو دن کی پولیس حراست کے بعد انہیں 11 جون تک کی عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔ پولیس نے بتایا کہ دیوانگنا کلیتا بھی فسادات میں رول کے مد نظر کرائم برانچ کی جانچ کے دائرے میں ہیں۔جمعہ شام کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے عدالت کو بتایا کہ اب وہ نروال کو دہلی تشدد کی ‘سازش’ میں ان کے رول کی وجہ سے یو اے پی اے کے تحت گرفتار کر رہے ہیں۔ نروال اور کلیتا دونوں ہی اس وقت منڈولی جیل میں بند ہیں۔
ایک سینئرپولیس افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا، ‘ہمارے پاس شمال مشرقی دہلی فسادات معاملے میں سازش کو لےکر نتاشا نروال کے خلاف پختہ ثبوت ہیں، جس کی جانچ اسپیشل سیل کر رہی ہے۔ ایسے میں ہم نے عدالت کی اجازت کے بعد اسے رسمی طور پر گرفتار کیا ہے۔’
گزشتہ 24 مئی کو ان کی ضمانت کی شنوائی کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ ان کے خلاف لگائی گئی دفعہ 353 کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ کیس کےحقائق سے پتہ چلتا ہے کہ ملزم صرف این آرسی اور سی اے اےکے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے، کسی تشدد میں شامل نہیں تھے۔’
عدالت نے آگے کہا تھا کہ ملزمین کی سماج میں کافی اچھی پہنچ ہے اور وہ کافی پڑھے لکھے ہیں۔ملزم جانچ میں پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں۔’حالانکہ عدالت سے ملی یہ راحت زیادہ دیر تک ٹک نہیں پائی کیونکہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے ان دونوں کارکنوں کوقتل، قتل کی کوشش، فساد اور مجرمانہ سازش کے الزام میں پھر گرفتار کر لیا اور کورٹ سے 14 دن پولیس حراست مانگی۔ حالانکہ کورٹ نے انہیں دو دن کی پولیس کسٹڈی دی۔
یہ دونوں ہی پنجرہ توڑ کی بانی ممبر ہیں، جو دہلی بھر کے کالج کی طالبات اور نارتھ ایسٹ کی طالبات کا ایک گرو پ ہے۔ دونوں اس وقت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ کلیتا جے این یو کے سینٹر فار وومین اسٹڈیزکی ایم فل کی اسٹوڈنٹ ہیں، جبکہ نروال سینٹر فار ہسٹوریکل اسٹڈیزسے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔
دہلی میں تشدد بھڑ کانے کے الزام میں اس سے پہلے بھی کئی گرفتاریاں ہوئی ہیں، جہاں یو اے پی اے کے تحت معاملے درج کئے گئے ہیں۔ جامعہ کے ریسرچ اسکالر میران حیدر،صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا، گلشفا خاتون اور شفیع الرحمن ان میں سے کچھ نام ہیں۔ تنہا کو اسی ہفتے ضمانت ملی ہے۔
ان سبھی پر سیڈیشن،قتل ، قتل کی کوشش، مذہب کی بنیاد پرمختلف گروپ کے بیچ نفرت کو بڑھاوا دینے اور دنگا کرنے کے جرم کے بھی معاملے درج کئے گئے ہیں۔معلوم ہو کہ اس سے پہلے مرکزی وزارت داخلہ نے دہلی پولیس سے یہ یقینی بنانے کو کہا تھا کہ کو رونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دہلی تشدد معاملے کی جانچ دھیمی نہیں پڑنی چاہیے، جس کے بعد دہلی تشددمعاملے میں پولیس 13 اپریل تک 800 سےزیادہ لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)