شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران مصطفیٰ آباد علاقے میں متاثرین کی مدد کے لئے پہنچے سماجی کارکن بھی ڈر سے اچھوتے نہیں تھے۔ ایک ایسے ہی کارکن کی آپ بیتی۔
دہلی فسادات میں 45 سے زیادہ لوگوں کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے،سینکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر(این ایس اے)اجیت ڈوبھال کا دعویٰ ہےکہ دہلی کی حالت معمول پر آ گئی ہے۔ فسادات ختم ہو گئے ہیں۔ ایک مسلم بستی کےلوگوں کی شکایت پر انہوں نے کہا کہ ‘ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ ‘ہو سکتا ہے کہ این ایس اے ڈوبھال کے لئے یہ معمولی سی بات ہو، لیکن دہلی کے ان فسادات نے مسلمانوں کو عدم تحفظ اور ڈر کا جو زخم دیا ہے، شاید ہی اس پر کبھی مرہم لگ سکے۔ ایسی ہی ایک چوٹ نوجوان ہیومن رائٹس کے کارکن عادل امان کے دل کو بھی لگی ہے۔
بدھ 26 فروری کی صبح عادل امان فساد متاثرہ مصطفیٰ آباد علاقے میں متاثرین کی مدد کے لئے گئے تھے۔ عادل بتاتے ہیں،26 فروری کی صبح ہمارے پاس کال آئی تھی کہ مصطفیٰ آباد علاقے میں کچھ لوگ زخمی ہیں، جن کو ہاسپٹل پہنچانا ہے اس لیے میں ایمبولینس کے ڈرائیور اور کمپاؤنڈر کے ساتھ میں اس جگہ پر گیا۔ اس علاقےمیں بڑی تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی تھی۔ ہم نے پولیس کو بتایا کہ جیوتی وہار کے گلی نمبر 5 میں 75 سالہ ایک بزرگ پھنسے ہوئے ہیں، ہمیں ان کو نکالنا ہے۔
وہ آگے بتاتے ہیں،یہاں سے دہلی پولیس کے دو جوان ہمارے ساتھ گئے۔ جیوتی وہار جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ اس وقت بھی فسادات ہو رہے تھے۔ گھروں میں آگ لگائی جا رہی تھی، شرپسند جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے اور گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ اس دوران ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے مجھے اندر سے جھنجھوڑدیا ہے۔ بھیڑمیرے سامنے قرآن شریف کو جلا رہی تھی اور میں بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ بات مجھےابھی تک چبھ رہی ہے۔
عادل نے آگے بتایا، میں نے دیکھا کہ فسادی کئی گھروں کی ائیرکنڈیشن تک کو کھولکر لے جا رہے تھے۔ جن بزرگ کو لے جانا تھا، ان کو ایک ہندوفیملی نے اپنے یہاں پناہ دے رکھی تھی۔ ہم ان کو وہاں سے لےکر واپس ایمبولینس کےپاس لوٹے تو ڈرائیور نے بتایا کہ ایک بھیڑ اس کے پاس آئی تھی اور اس سے اس کا نام پوچھا۔ ہندو ہونے کی وجہ سے ڈرائیور اور کمپاؤنڈر کو بھیڑ نے کچھ نہیں کہا۔ پھربھی وہ کافی ڈرے ہوئے تھے۔ ان بزرگ کو ہم نے جیوتی وہار کے گلی نمبر 20 کے پاس ان کےایک رشتہ دار کے یہاں چھوڑا۔
اس دوران پولیس کا رویہ کیسا تھا؟ عادل بتاتے ہیں،پولیس کےجوان دنگائیوں کے ساتھ بہت نرم لہجے میں بات کر رہے تھے۔ شاید ان کو بھی جئے شری رام کے نعرے لگاتی اس بھیڑ سے ڈر لگ رہا ہو! لیکن ایک بات دیکھکر حیرانی ہوئی کہ پولیس کے سامنے آگ زنی اور لوٹ مچی ہوئی تھی، لیکن پولیس نے ایک بار بھی کسی کوروکنے کی کوشش تک نہیں کی۔عادل کہتے ہیں، ڈرائیور اور کمپاؤنڈر کو بھیڑ نے نام پوچھکرچھوڑ دیا، لیکن اگر انہوں نے میرا نام پوچھا ہوتا تو میرے ساتھ کیا ہوتا میں نہیں جانتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ لاٹھی تھامے پولیس کے دو جوان مجھے اس بھیڑ سے بچا پاتے۔
عادل بتاتے ہیں، 26 فروری کے دن بھی دہلی میں فسادات ہو رہے تھے۔میں نے دیکھا کہ مسلم بستیوں میں جان-مال کا شدید نقصان ہوا ہے۔ مسلم علاقوں میں پولیس تو تعینات ہے، لیکن اس کی تعیناتی کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ سارے لوٹ پاٹ اور فسادات پولیس کے سامنے ہی ہو رہے ہیں۔عادل بتاتے ہیں کہ 25 فروری کو جعفرآباد علاقے میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ عادل کا کہنا ہے،ہم لوگ صبح 9 بجے کے قریب جعفرآباد علاقے میں پہنچے تھے۔ جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے پاس مسلم کمیونٹی کے لوگ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور اس کے قریب ایک کلومیٹر دور دوسرے حزب کے لوگ زور زور سےنعرے لگا رہے تھے۔ درمیان کے راستے پر شدید توڑپھوڑ مچی ہوئی تھی۔
انہوں نے آگے بتایا،اس بیچ سی اے اے کی حمایت والے حزب سے ایک بھیڑ ہمارے پاس آئی اور ہمارے نام پوچھنے لگی۔ میرے ساتھ تین اور لوگ تھے اور یہ تینوں ہندو تھے۔ ہمارے معاون اور ساکیت کورٹ کے وکیل سمیت کمار گپتا نے اپنا تعارف ان کودیا۔ ان سے کہا کہ ہم لوگ آپ ہی کی مدد کے لئے یہاں آئے ہیں۔ ان لوگوں نےہمارے معاونین سے آئی ڈی کارڈ دکھانے کے لئے بھی کہا۔ اس کے بعد ہماری ٹیم نے وہاں سے لوٹنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں مسلمان تھا اور کسی نے میرا نام پوچھا تو مصیبت آ سکتی تھی۔
عادل بتاتے ہیں، جب 20-25 لوگوں کی بھیڑ ہمیں گھیرکر ہمارے بارےمیں تحقیقات کر رہی تھی تو مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ میری ٹیم کا کوئی آدمی غلطی سے بھی میرا نام نہ لے لے۔ مجھے پہلی بار اپنے نام کی وجہ سے ڈر لگا ہے۔ میرا نام جاننے کے بعد وہ لوگ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ مجھے اب بھی گھبراہٹ ہے۔پچھلے 6 سال سے ملک کے مختلف حصوں میں جاری ماب لنچنگ کے واقعات کے بعد دہلی کے فسادات نے عادل جیسے ہزاروں نوجوانوں کے ڈر کو گہرا کیا ہے۔شرپسندوں کی بھیڑ لگاتار ان کو یہ احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہندوستان اپنےمسلمانوں کی حفاظت کو لےکی اب سنجیدہ نہیں ہے۔
بہت سے لوگوں کے تجربات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ہماری حکومت،پولیس اور کچھ میڈیا ادارے بھی ہندتواوادی تنظیموں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئےہیں۔تشویش کی بات ہے کہ کوئی حزب مخالف جماعت بھی سامنے آکر یہ بتانے کی ہمت نہیں کر رہی ہے کہ یہ ملک گاندھی کا ہے اور اس کی مٹی میں تمام مذاہب، تمام عقائد کےلوگوں کا خون شامل ہے۔