گزشتہ سال دہلی فسادات کے دوران سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں کچھ پولیس والے پانچ مسلم نوجوانوں کو پیٹتے ہوئے انہیں قومی ترانہ گانے کو مجبور کررہے تھے۔ بعد میں ان میں سے ایک 23 سالہ فیضان کی موت ہو گئی تھی۔ فیضان کی ماں نے پولیس اہلکاروں پر حراست میں قتل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انصاف کی فریاد کی ہے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس نے گزشتہ سوموار کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ شمال -مشرقی دہلی دنگے کے دوران پولیس اہلکاروں کے ذریعے ایک مسلم شخص کو پیٹنے کے بعد انہیں جس پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا تھا اس کا سی سی ٹی وی کیمرہ‘تکنیکی وجوہات’سے کام نہیں کر رہا تھا۔
گزشتہ سال فروری میں ہوئے اس دنگے کے بیچ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں پولیس والے پانچ مسلم نوجوانوں کو پیٹتے ہوئے ان سے قومی ترانہ (راشٹرگان) گوا رہے تھے۔ بعد میں ان میں سے ایک 23سالہ فیضان کی موت ہو گئی تھی۔
اس واقعہ کے بعد
فیضان کی والدہ نے د ی وائر کو بتایا تھا کہ پولیس کی جانب سے طبی سہولیات نہیں دینےکی وجہ سے ان کے بیٹے کی موت ہوئی ہے۔ اس معاملے کی ایس آئی ٹی جانچ اور ملزمین کو سزا دلانے کے لیےانہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں
عرضی دائر کی ہے۔
ہندوستان ٹائمس کے مطابق، جسٹس یوگیش کھنہ کے سامنے دائر کیے حلف نامے میں دہلی پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ ‘تکنیکی وجوہات’سے جیوتی نگر تھانے کا سی سی ٹی وی کیمرہ کام نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تھی۔
فیضان کی والدہ نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ان کے بیٹے کو ‘غیرقانونی طور پرحراست’ میں رکھا گیا تھا اور علاج کی سہولت نہیں دینے کی وجہ سے ان کی موت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موت کے بعد محض ایک بیان جاری کرنا پولیس کو حراست میں قتل کرنے کے الزام سے بری نہیں کرتا ہے، اس لیے عرضی گزار عدلیہ سے انصاف کی فریاد کر رہی ہیں۔
اس معاملے کی پچھلی شنوائی کے دوران کورٹ نے پولیس سے کہا تھا کہ وہ حلف نامہ دائر کرکے سی سی ٹی وی کیمرے پر اپنی پوزیشن صاف کرے اور تمام متعلقہ دستاویز یہاں پیش کرے۔ اس کو لےکر پولیس نے کہا ہے کہ اس وقت سی سی ٹی وی کیمرہ خراب تھا اور اسے چار مارچ 2020 کو ٹھیک کرایا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی پولیس نے دہلی ہائی کورٹ کو یہ بھی بتایا کہ ویڈیو میں دکھ رہے پولیس اہلکاروں کی پہچان نہیں ہو پائی ہے، کیونکہ وہ ہیلمیٹ پہنے ہوئے تھے اور ان کے یونیفارم پر نام والا ٹیگ بھی نہیں تھا۔بھجن پورہ پولیس اسٹیشن نے 28 فروری کو اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر دائرکی تھی، جسے بعد میں کرائم برانچ کے پاس بھیج دیا گیا۔ فیضان کی والدہ کی عرضی میں کرائم برانچ کی جانچ کو ‘کھوکھلا’بتایا گیا ہے۔
بتا دیں کہ فروری مہینے میں فیضان کی مبینہ گرفتاری سے پہلے
ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، اس ویڈیو میں زخمی حالت میں فیضان سمیت پانچ نوجوان زمین پر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ویڈیو میں انہیں گھیر کر کم سے کم سات پولیس اہلکار کھڑے نظر آ رہے ہوتے ہیں، جو ان زخمی نوجوانوں کو قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کرنے کے علاوہ انہیں لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے اندر اسپتال میں فیضان کی موت ہو گئی تھی۔