دہلی دنگوں کو لےکریو اے پی اے کےتحت گرفتار جے این یو کےسابق اسٹوڈنٹ عمر خالد نے اپنا دفاع کرتے ہوئے عدالت میں کہا کہ پولیس کے دعووں میں تضادات ہیں۔ ان کے خلاف یو اے پی اے کا معاملہ بی جے پی رہنما اور آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کی جانب سے ٹوئٹ کیے گئے ان کی مختصر تقریر کے ترمیم شدہ ویڈیو کلپ پر مبنی ہے۔ چارج شیٹ پوری طرح سے فرضی ہے۔ ان کے خلاف منتخب گواہ لائے گئے اور انہوں نے مضحکہ خیز بیان دیے ہیں۔
نئی دہلی: شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں کے سلسلے میں یو اے پی اےکےتحت گرفتار کیے گئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالد نے سوموار کو دہلی کی ایک عدالت میں کہا کہ پولیس کے دعووں میں کئی تضادات ہیں۔ خالد نے اسے ایک سازش قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ نیوز چینلوں نے ان کی تقریر کے ویڈیو کا ترمیم شدہ حصہ چلاکر انہیں پھنسایا۔ یہ ویڈیو انہوں نے خود نہیں ریکارڈ کیا تھا، بلکہ بی جے پی رہنما اور پارٹی کے آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کے ٹوئٹ سے کاپی کیا گیا تھا۔
خالد اور کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف یو اے پی اے کےتحت معاملہ درج کیا گیا تھا۔ ان پر فروری2020 میں ہوئے دنگوں کی سازش کرنے کا الزام ہے۔ ان دنگوں میں53 لوگوں کی جان گئی تھی، جبکہ 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
خالد نے معاملے میں ضمانت مانگی ہے۔
خالد کے وکیل تردیپ پیس نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت سے کہا کہ ایف آئی آر فرضی اور غیرضروری ہے اور جس کا استعمال ان کے موکل کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔
وکیل نے دہلی پولیس کے دعووں میں تضادات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے عدالت کو مہاراشٹر میں خالد کی تقریر کا 21 منٹ کا ایک ویڈیو دکھایا، جسے پراسیکیوشن نے مبینہ طور پر بھڑکاؤ قرار دیا تھا۔
ویڈیو دکھانے کے مرحلےمیں وکیل نے عدالت میں کہا کہ ان کے موکل نے اپنی تقریر میں تشددکی کوئی اپیل نہیں کی اور حقیقت میں لوگوں کو یکجہتی کا پیغام دیا۔
پیس نے کہا، ‘اس دن عمر خالد نے گاندھی جی کے نظریات کے پیش نظریکجہتی کا پیغام دیا تھا۔ اسے دہشت قرار دیا گیا۔یہ ملک مخالف نہیں ہے۔ وہ جمہوری اقتدار کی بات کر رہے تھے اور انہوں نے گاندھی کا ذکر کیا۔’
انہوں نے دلیل دی کہ پولیس کے معاملے کے مطابق خالد نے آٹھ جنوری کو دوسرے ملزمین کے ساتھ مل کرسابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ کے دوران دنگا بھڑ کانے کی سازش کی۔ حالانکہ ٹرمپ کے دورہ سے متعلق خبر کا اعلان فروری میں کیا گیا تھا۔
پیس نے کہا، ‘یہ اس طرح کے جھوٹ ہیں، جو وہ پھیلا رہے ہیں۔ یہ ایک مذاق ہے۔ یہ ایف آئی آر فرضی ہے۔ کسی بھی شخص کے خلاف مقدمہ چلاناکیا اتنا آسان ہے؟ کیا پراسیکیوٹر کےطور پر آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟’
انڈین ایکسپریس کے مطابق، عمر خالد کے وکیل نے بتایا کہ ان کے خلاف یو اے پی اے کا معاملہ بی جے پی رہنما اور آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کی جانب سے ٹوئٹ کیے گئے ان کی مختصرتقریرکےترمیم شدہ ویڈیو کلپ پر مبنی ہے اور پریس کے ذریعے انہیں پھنسایا گیا ہے۔
پیس نے عدالت میں یہ کہہ کر اپنی دلیلیں شروع کیں کہ پولیس نےکل 715 ایف آئی آر درج کی ہیں اور کسی بھی ایف آئی آر میں عمر کا نام نہیں ہے۔انہوں نے عدالت سے کہا کہ یو اے پی اےایف آئی آرغیرضروری ہے اور سی اے اے کی مخالفت کی بنیاد پر چنندہ لوگوں کوٹارگیٹ کرنے کے لیے مسودہ تیار کیا گیا ہے۔
پیس نے عدالت کو بتایا کہ دنگوں کی ہر ایف آئی آر میں ایک قابل دست اندازی جرم کا انکشاف کیا گیا تھا، حالانکہ موجودہ ایف آئی آر میں ایسا کچھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں گواہوں نے پولیس اور مجسٹریٹ کو متضاد بیان دیے ہیں۔
پیس نے کہا، ‘چارج شیٹ پوری طرح سے فرضی ہے۔ میرے موکل کے خلاف منتخب گواہ لائے گئے اور انہوں نے مضحکہ خیز بیان دیے ہیں۔ اس سے پراسیکیوشن کو کیا حاصل ہوگا؟ یہ ایف آئی آر بھی ایک منافقت ہے۔ اس میں شامل لوگوں میں سے کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا جانا چاہیے۔’
اس کے بعد پیس نےمہاراشٹر کےامراوتی میں عمر خالد کی جانب سے دی گئی تقریرپربحث شروع کی، جسے‘ری پبلک ورلڈ’ نیوزچینل نے یوٹیوب پر دکھایا تھا۔ پیس نےدلیل دی کہ ان کے موکل کو پریس کے ذریعےپھنسایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘میرے موکل کو پریس نے پھنسایا ہے۔ انہوں نے تقریر کے دیگرحصوں کو کیوں چھوڑا؟ دی گئی ڈی وی ڈی چارج شیٹ کا حصہ نہیں ہے۔ 17فروری کو دیے گئے یوٹیوب اور ٹی وی چینل پر جاری فوٹیج دستیاب کرانے کے لیے23 جون کو نوٹس بھیجا گیا تھا۔’
جواب پڑھتے ہوئے پیس نے عدالت سے کہا، ‘براہ کرم دیکھیےیہ ایسے صحافی ہیں جو اسپیچ دیکھنے کے لیےکبھی زمین پر نہیں جاتے، لیکن اسے دکھانے میں بہت خوش ہوتے ہیں۔ وہ وہاں کبھی نہیں گئے۔’جواب میں کہا گیا ہے کہ ان کے پاس را فوٹیج نہیں ہے اور یہ ویڈیو بی جے پی کے ایک ممبرکی جانب سےکیے گئے ٹویٹ سے حاصل کیا گیا تھا۔
عدالت نے پوچھا، ‘کیا ویڈیو کو بنا تصدیق کیے نشرکیا گیا؟’
پیس نے ‘ہاں’میں جواب دیا اورعمر خالد کی تقریر کےفوٹیج کی گزارش کرنے والے نوٹس کے تناظر میں ری پبلک ٹی وی نیوز چینل کے جواب کو پڑھ کر سنایا،‘یہ فوٹیج ہمارے کیمرامین کے ذریعےریکارڈ نہیں کیا گیا تھا۔ یہ امت مالویہ(بی جے پی رہنما)نے ٹوئٹ کیا تھا۔’
پیس نے عدالت سے کہا، ‘آپ کا موادیوٹیوب ویڈیو ہے، جسے ایک ٹوئٹ سے کاپی کیا گیا ہے۔ صحافی کی وہاں جانے کی ذمہ داری نہیں تھی۔ یہ صحافت کی اخلاقیات نہیں ہے۔ یہ صحافت کی موت ہے۔’
اس کے بعد پیس نے کورٹ کے سامنے عمر کی تقریر کا پورا ویڈیو چلایا۔ تقریر ختم ہونے کے بعد پیس نے ‘نیوز 18’ چینل کے ذریعے چلائی گئی تقریرکے ویڈیو ٹرانسکرپٹ پر دلیل دی، جسے عمر کی تقریر کے رافوٹیج فراہم کرنے کے لیے نوٹس بھی دیا گیا تھا۔
پیس نے عدالت سے کہا، ‘اس سے فرق پڑتا ہے کہ نیوز 18 نے ایک جملے کو جان بوجھ کر نکال دیا تھا۔ میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ گاندھی جی کے نظریات پر مبنی یکجہتی کا پیغام اس دن دیا گیا تھا اور اسے ایک دہشت قرار دیا گیا تھا۔’
پیس نے عدالت کو بتایا کہ وہ ان تین طلبا کارکنوں کے ساتھ مساوات کی مانگ نہیں کر رہے ہیں، جنہیں دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملے میں ضمانت دی تھی، لیکن کہا کہ ان کا معاملہ ہر کسی سے بہتر ہے۔
پیس نے عدالت کو بتایا کہ عمر خالد کی تقریر ملک مخالف نہیں تھی اور اس پروگرام میں سبکدوش آئی پی ایس افسر بھی شامل ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘وہ جمہوری طاقت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کا حوالہ دیا تھا۔ انہوں نے تشددیا پرتشدد طریقوں کی اپیل نہیں کی تھی۔ جامعہ کی لائبریری میں ہوئےتشددکو لےکر لوگوں میں جو ڈر تھا، اس کے بارے میں وہ بات کر رہے تھے۔’
پیس نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پراسیکیوشن اس شاندار ‘کہانی’ کے ساتھ آیا ہے کہ یہ کہنے کے لیے گواہ ہیں کہ سازش کی گئی تھی، جب ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان آئے تھے۔
انہوں نے دلیل دی کہ پراسیکیوشن کی ‘کہانی’ کے مطابق، یہ سازش 8 جنوری کو رچی گئی تھی، جبکہ وزارت خارجہ کے ردعمل میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے دورہ کے بارے میں خبر 11 فروری، 2020 کومنظر عام پر آئی تھی۔
ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے معاملے کی شنوائی 3 ستمبر کے لیےملتوی کر دی ہے۔
اس سے پہلے دہلی پولیس نے کہا تھا کہ عمر خالد کی ضمانت عرضی میں کوئی دم نہیں ہے اور اور وہ معاملے میں دائر چارج شیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کے سامنے اس کے خلاف پہلی نظر کامعاملہ پیش کرےگی۔
اس سال اپریل میں جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ عمر کو دنگوں سے جڑے ایک دیگر معاملے میں ضمانت ملی تھی۔ عدالت نے ضمانت دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ واقعہ کے دن وہ راست طور پرجائے وقوع پر موجود نہیں تھا۔
یو اے پی اے کےتحت گزشتہ سال ایک اکتوبر کو عمر خالد کو گرفتار کیا تھا۔ یو اے پی اے کے ساتھ ہی اس معاملے میں ان کے خلاف دنگا کرنے اورمجرمانہ طو رپر سازش کرنے کے بھی الزام لگائے گئے ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ شہریت قانون (سی اےاے)اور این آرسی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شامل عمر خالد اوردیگر نے دہلی میں دنگوں کی سازش کی تاکہ دنیا میں مودی سرکار کی امیج کو خراب کیا جا سکے۔
دہلی پولیس کے مطابق، خالد نے مبینہ طور پر دو الگ الگ مقامات پر اشتعال انگیز تقریرکی تھی اور لوگوں سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کےہندوستان دورے کے دوران سڑکوں پر آنے اور سڑکوں کو بندکرنے کی اپیل کی تھی تاکہ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو پتہ چلے کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
خالد کے علاوہ جے این یو کی اسٹوڈنٹ نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی ممبرصفورہ زرگر،عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین اور دیگر کے خلاف بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔
ب بتادیں کہ گزشتہ15جون کو دہلی ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور اقبال آصف تنہا کو ضمانت دے دی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)