عام آدمی پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ دہلی پولیس کی جانب سے جہانگیر پوری تشدد کے کلیدی سازش کار بتائے گئے محمد انصار کی وابستگی بی جے پی سے ہے۔ انہوں نے کچھ پرانی تصویریں شیئر کی ہیں، جن میں انصار کو جہانگیر پوری میں بی جے پی کے ایم سی ڈی امیدوار کی انتخابی تشہیر کی مہم چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
سال 2017 کی تصویروں میں بی جے پی لیڈروں کے ساتھ جہانگیرپوری تشدد کے کلیدی ملزم محمد انصار۔ (فوٹوبہ شکریہ: سوشل میڈیا)
نئی دہلی: جہانگیرپوری جھڑپوں کےکلیدی ملزم کی سیاسی وابستگی کو لے کر عام آدمی پارٹی (عآپ ) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے درمیان منگل کو کھینچ تان تیز ہوگئی۔ دہلی کی مقتدرہ جماعت نے ملزم کو بی جے پی لیڈر بتایا ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں عآپ کے چیف ترجمان سوربھ بھاردواج نے الزام لگایا کہ 16 اپریل کی جھڑپوں کے ‘ماسٹر مائنڈ’ میں سے ایک محمد انصار ‘بی جے پی کا سرگرم لیڈر’ تھا۔
پارٹی نے سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں بھی شیئر کی ہیں، جن میں انصار بھگوا ٹوپی اور بی جے پی کا اسکارف پہنے نظر آرہا ہے اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں کے ساتھ ایک سیاسی پروگرام میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
دریں اثنا، کالکاجی سے عآپ ایم ایل اے آتشی نے بھی ٹوئٹ کیا کہ 35 سالہ محمد انصار، جسے دہلی پولیس نے جہانگیر پوری تشدد کے اہم سازش کاروں میں سے ایک قرار دیا ہے، وہ ‘بی جے پی لیڈر’ ہے۔
انہوں نے کئی تصویریں پوسٹ کی ہیں، جن میں انصار کو جہانگیر پوری میں بی جے پی امیدوار سنگیتا بجاج کے لیےانتخابی تشہیری مہم چلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
بجاج 2017 میں نارتھ جہانگیر پوری سے میونسپل کارپوریشن آف دہلی (ایم سی ڈی) کے انتخاب میں بی جے پی کے امیدوار تھے اور آتشی کی پوسٹ کردہ کئی تصویروں میں انہیں انصار کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
آتشی نے بی جے پی سے یہ دعویٰ کرنے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہےکہ ملزم اروند کیجریوال کی قیادت والی پارٹی عآپ کا رکن تھا۔
انہوں نے لکھا، جہانگیرپوری فسادات کا کلیدی ملزم – انصار – بی جے پی کا لیڈر ہے۔ اس نے بی جے پی کی امیدوار سنگیتا بجاج کو الیکشن لڑانے میں اہم رول ادا کیا اور بی جے پی میں فعال کردار ادا کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ فسادات بی جے پی نے کروائے تھے۔ بی جے پی کو دہلی کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ بی جے پی غنڈوں کی پارٹی ہے۔
دوسری جانب سوربھ بھاردواج نے پریس کانفرنس میں کہا، ان تصویروں نے ملک کے سامنے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا بیہودہ اور بدصورت چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ ان تصویروں سے واضح ہوتا ہے کہ جہانگیر پوری میں فسادات بی جے پی نے کروائے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں رام نومی اور ہنومان جینتی کی شوبھا یاترا کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے تمام واقعات کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے۔
عآپ پی لیڈر نے الزام لگایا، بی جے پی نے ووٹ کے لیے، الیکشن جیتنے کے لیے یہ سب کیا… بی جے پی واحد پارٹی ہے جسے ان فسادات سے فائدہ ہوا ہے۔ بی جے پی کے قومی صدر، مرکزی وزیر، ریاستی یونٹ کے سربراہ، پارٹی ایم پی اور اس کے لیڈروں سے لے کر ہر کوئی ان فسادات سے سیاسی فائدہ اٹھانے میں مشغول ہیں۔
غور طلب ہے کہ 17 اپریل کو محمد انصار کو دہلی پولیس نے
یہ دعویٰ کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا کہ وہ تشدد کا کلیدی سازش کار ہے۔
پولیس نے
بتایا تھا کہ انصار اپنے چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ علاقے میں نکالے گئے ہنومان جینتی جلوس میں پہنچا اور لوگوں سے مارپیٹ کرنے لگا۔ انصار اور اس کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر ہنگامہ آرائی شروع کر دی، جس نے دونوں برادریوں کے درمیان جھڑپوں کے لیے چنگاری کا کام کیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس نے انصار اور اس کے ساتھیوں کو لڑائی بندکرنے کے لیے کہا تھا لیکن کچھ ہی دیر میں بھیڑ پولیس اہلکاروں سے زیادہ ہو گئی۔
ایک ریمانڈ نوٹ میں دہلی پولیس نے کہا کہ ہنومان جینتی کی ‘پرامن’ شوبھا یاتراپرتشدد کا واقعہ پیش آیا، حالانکہ سامنے آئے متعدد ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ شوبھا یاترا میں شامل کچھ لوگ افطار سے پہلے مسجد میں عبادت کے لیے آئے مسلمانوں کو اکسانے کے ارادے سے آئے تھے۔
دہلی پولیس اپنے اس بیان پر قائم ہے کہ 16 اپریل کو ہوا تشدد ‘ منصوبہ بند سازش’ کا حصہ تھا۔
دریں اثنا، عآپ نے دہلی پولیس پر حملہ کرتے ہوئے اس پر الزام لگایا کہ وہ ‘بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے’ اور پارٹی کے تیار کردہ ‘اسکرین پلے’ کے مطابق کام کر رہی ہے۔
سوربھ بھاردواج نے دعویٰ کیا کہ تشدد شروع ہونے سے پہلے، ہنومان جینتی شوبھا یاترا نکالنے والوں سمیت دونوں کمیونٹی کی بھیڑ بندوقیں، تلواریں اور دیگر ہتھیار اٹھائے ہوئے جا رہی تھی، لیکن وہاں موجود پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔
انہوں نے کہا، بندوقیں لے جانا قابل سزا اور ناقابل ضمانت جرم ہے۔ جب انہوں نے (پولیس) انہیں بندوقیں اور دیگر ہتھیاروں کولے جاتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے (پولیس) ملزمین کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے (بی جے پی) ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے رائٹر کے اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پولیس فورس کی موجودگی میں مہلک ہتھیار لے جانے اور لہرانے پر نہ تو ‘ہندو اور نہ ہی کسی مسلمان’ کو گرفتار کیا گیا۔
عآپ پی لیڈر نے الزام لگایا، یہ اس لیے ہے کہ ایک اسکرپٹ تھا جس میں ایس ایچ او اور ڈی سی پی کا رول طے کیا گیا تھا۔ ان کا کردار فسادات کو دیکھنے اور ہونے دینے کا تھا جس کے بارے میں بعد میں کہا جائے گا کہ انصار ماسٹر مائنڈ ہے اور وہ عام آدمی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اور دوسری پارٹی اور بی جے پی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ موقع پر تعینات کانسٹبل صرف ‘قربانی کے بکرے’ تھے۔
دہلی پولیس کے مطابق، انصار علاقے کا ایک معروف ہسٹری شیٹر ہے، جس کی 2007 سے
مجرمانہ تاریخ رہی ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علاقے میں غیر قانونی شراب کا کاروبار اور جوئے کا ریکیٹ چلاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی انصار کو متعدد بار احتیاط کے طور پر حراست میں لیا جا چکا ہے۔
دوسری طرف، بی جے پی نے پہلے جہانگیرپوری تشدد کے ملزم کا عام آدمی پارٹی (عآپ ) کے ساتھ تعلق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
سوموارکو بی جے پی کی ترجمان ساریکا جین نے دعویٰ کیا کہ انصار عآپ کا ممبر تھا اور انہوں نے عآپ کی ٹوپی پہنے ہوئے ان کی ایک تصویر دکھائی۔ ان کے دعوے کے فوراً بعد کئی نیوز چینلوں نے شوبھا یاتراکے دوران انصار کی تلوار لہراتے ہوئے فوٹیج نشر کی تھی۔
شمال مشرقی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ منوج تیواری نے بھی کہا تھا، جہانگیر پوری حملے کا ماسٹر مائنڈ محمد انصار عآپ کا کارکن پایا گیا ہے۔ تصویروں کی صورت میں اس کے ثبوت ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)