دہلی: جہانگیرپوری تشدد کی تحقیقات کرائم برانچ کے حوالے، اب تک دو نابالغوں سمیت 22 گرفتار

پولیس نے دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں 16 اپریل کو ہوئے فرقہ وارانہ تشددکے معاملےمیں محمد اسلم کو کلیدی ملزم بنایا ہے۔ الزام ہے کہ ایک پولیس سب انسپکٹر اس کی گولی سے زخمی ہوا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کی عمر 22 سال ہے، لیکن اس کے گھروالوں کی جانب سے دی وائر کو دستیاب کرائے گئے دستاویز میں اس کی عمر 16 سال بتائی گئی ہے۔ اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ تشدد کے دوران وہ گھر پر تھا۔

پولیس نے دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں 16 اپریل کو ہوئے فرقہ وارانہ تشددکے معاملےمیں محمد اسلم کو کلیدی ملزم بنایا ہے۔ الزام ہے کہ ایک پولیس سب انسپکٹر اس کی گولی سے زخمی ہوا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس کی عمر 22 سال ہے، لیکن اس کے گھروالوں  کی جانب سے دی وائر کو دستیاب کرائے گئے دستاویز میں اس کی عمر 16 سال بتائی گئی ہے۔ اہل خانہ  کا دعویٰ ہے کہ تشدد کے دوران  وہ گھر پر  تھا۔

دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں سنیچر کو فرقہ وارانہ تشدد کے دوران گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

دہلی کے جہانگیر پوری علاقے میں سنیچر کو فرقہ وارانہ تشدد کے دوران گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: شمال-مغرقی دہلی کے جہانگیر پوری میں دنگا بھڑکانے کے الزام میں دو نابالغوں سمیت 22 لوگوں کو گرفتار کیے جانے کے ایک دن بعد تشدد کی تحقیقات کرائم برانچ کو سونپ دی گئی ہے، جس نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔ بتا دیں کہ گرفتار کیے گئےتمام ملزمین مسلمان ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی خبر میں حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کرائم برانچ سے کہا گیا ہے کہ وہ  ‘بنگلہ دیشی پہلو’ کی تحقیقات کرے اور مدد کے لیے فیشل ریکوگنیشن سسٹم (ایف آر ایس ) کا استعمال کرنے کو بھی کہا ہے۔

یہ فیصلہ اس وقت لیا گیا ہے  جب بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے الزام لگایا کہ جہانگیر پوری میں تشدد غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کی وجہ سے ہوا تھا۔

کرائم برانچ کی ایس آئی ٹی میں پانچ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس (اے سی پی) اور 10 انسپکٹر شامل ہیں۔ ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ دو اے سی پی کو کیس سے متعلق سائبر پہلوؤں کی چھان بین کے لیے کہا گیا ہے، جبکہ ایک اور اے سی پی کو گرفتار کیے گئے افراد کی کال ڈیٹیلز کے ریکارڈ کا تجزیہ کرنے کے لیے کہا گیا ہے اور ایک اے سی پی کو تفتیش میں مدد کے لیے ایف آر ایس  کے استعمال کے لیے کہا گیا ہے۔

اسپیشل کمشنر آف پولیس (کرائم) نے ایک انسپکٹر سے بنگلہ دیشی پہلو کی تصدیق کرنے کو کہا ہے اور دوسرے انسپکٹر کو سوشل میڈیا اور الکٹرانک میڈیا سے ویڈیوز جمع کرنے کو کہا ہے۔

ایک اہلکار نے کہا، انہیں پولیس کنٹرول روم (پی سی آر) کے کال لاگ کو چیک کرنے اور تمام کال کرنے والوں سے ملنے اور ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق، اب تک معاملے میں ملزم بنائے گئے کم از کم آٹھ کا مجرمانہ ریکارڈ ہے، جن میں سے کچھ کو پہلے بھی فسادات سے لے کر قتل کی کوشش تک کے الزامات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

وہیں، دہلی پولیس حکام نے اتوار کو ملزمین کی گرفتاری کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئےبتایا کہ ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس کے دوران ہوئےتشدد کے الزام میں جن 22 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں کلیدی سازش کار  اور ایک دیگر شخص بھی شامل ہے جس نے مبینہ طور پر فائرنگ کی تھی جس کی گولی ایک سب انسپکٹر کو لگی۔

حکام نے بتایا کہ واقعے کے سلسلے میں دو لڑکوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس نے بتایا کہ اس نے جہانگیر پوری کے سی ڈی پارک میں جھگی بستی کے رہائشی محمد اسلم  کے پاس سے ایک پستول بھی برآمد کی ہے، جسے اس نے مبینہ طور پر ہفتے کی شام کو جرم کے دوران استعمال کیا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ سنیچر (16 اپریل) کو دو کمیونٹی کے درمیان جھڑپ کے دوران پتھراؤ اور آتش زنی ہوئی، جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مقامی شہری زخمی ہوئے۔ پولیس نے بتایا کہ اس دوران کچھ گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ویسٹ) اوشا رنگنانی نے کہا کہ سنیچر کو آئی پی سی کی دفعہ 307، 120بی، 147 اور دیگر متعلقہ دفعات اور آرمز ایکٹ کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

رنگنانی نے کہا، کل 22 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور دو لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ملزمین کے قبضے سے تین پستول اور پانچ تلواریں ضبط کی گئی ہیں۔

رنگنانی نے کہا، ملزمین میں سےایک کی شناخت محمد اسلم کے طور پر ہوئی ہے، جس نے گولی چلائی تھی جو دہلی پولیس کے ایک سب انسپکٹر کو لگی تھی۔ ملزم کے قبضے سے واردات میں استعمال ہونے والا پستول برآمد کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلم 2020 میں جہانگیر پوری پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی کی دفعہ 324، 188، 506، 34 کے تحت درج ایک کیس میں بھی ملوث پایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرفتار کیے گئے 22 افراد میں جہانگیر پوری کا رہائشی انصار (35) بھی شامل ہے، جو تشدد کے پیچھے مبینہ اہم سازش کاروں میں سے ایک ہے۔

16 اپریل کو جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد تعینات پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

16 اپریل کو جہانگیر پوری میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد تعینات پولیس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

افسر نے کہا کہ وہ اس سے قبل حملہ کے دو مقدمات میں ملوث پایا گیا تھا اور اس کو پہلے بھی کئی بار گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے خلاف جوا ایکٹ اور آرمز ایکٹ کے تحت پانچ بار مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

جبکہ انصار کی اہلیہ نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کا شوہر بے قصور ہے اور کسی تشدد میں ملوث نہیں ہے۔

اس نے دعویٰ کیا،میرا شوہر بے قصور ہے۔ وہ کسی تشدد کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ صرف بیچ بچاؤ کرنے اور لڑائی کو روکنے کے لیے وہاں گئے تھے، لیکن پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔

ڈی سی پی رنگنانی نے بتایا کہ جہانگیر پوری کے رہنے والے سلیم (36) کی گرفتاری کے بعد گرفتار کیے گئے لوگوں کی تعداد بڑھ کر 22 ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ سلیم عرف چکنا اس سے پہلے بھی  ڈکیتی اور قتل کی کوشش کے معاملےمیں ملوث پایا گیا ہے جس کا مقدمہ تھانہ جہانگیر پوری میں درج ہے۔

گرفتار کیے گئے دیگر 18 افراد کی شناخت زاہد (20)، شہزاد (33)، مختار علی (28)، محمد علی (18)، عامر (19)، اکسر (26)، نور عالم (28)، ذاکر (22)،  اکرم (22)، امتیاز (29)، محمد علی (27)، اہیر (35)، شیخ سوربھ (42)، سورج (21)، نیرج (19)، سکین (45)، سریش (43)، سجیت سرکار (38) کے طور پر کی گئی ہے اور یہ سب جہانگیر پوری کے رہنے والے ہیں۔

دہلی کی ایک عدالت نے انصار اور اسلم کو ایک دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا ہے جبکہ باقی کو 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیجا گیا ہے۔

اس سے قبل اسپیشل کمشنر (لا اینڈ آرڈر-زون 1) دیپندر پاٹھک نے کہا تھا، اب تک چودہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ سی سی ٹی وی اور دیگر ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر  پہچان کی آگے کی کارروائی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات  اب پوری طرح سے قابو میں ہے۔ ہم نے یہاں اضافی فورس تعینات کر دی ہے۔ ہم نے امن کمیٹی کے اجلاس منعقد کیے ہیں اور علاقے کے ممتاز لوگوں سے بھی رابطے میں ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان برقرار رکھیں گے۔

رنگنانی نے یہ بھی کہا کہ جھڑپوں کے دوران آٹھ پولیس اہلکاروں اور ایک عام شہری سمیت کل نو افراد زخمی ہوئے اور بابو جگ جیون رام میموریل ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ گولی لگنے سے زخمی ہونے والا سب انسپکٹر اسپتال میں ہے اور اس کی حالت مستحکم بتائی جاتی ہے۔

ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم، جس میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی ایم) کے ارکان اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل تھے، نے دی وائر کو بتایا کہ جلوس سنیچر کو کے صبح سویرےمیں شروع ہوا اور نسبتاً پرامن رہا۔ تاہم شام کو افطار کے وقت جلوس نے مسجد سے آگے بڑھنے سے انکار کردیا اور مبینہ طور پر بھگوا جھنڈے لہرائے اور مسجد میں موجود لوگوں کے خلاف فرقہ وارانہ تبصرے کرنے لگے جس سے تنازعہ کھڑا ہوگیا۔

وہیں ایف آئی آر کے مطابق تشدد اس وقت شروع ہوا جب محمد اسلم نے ہنومان جینتی پر نکلے جلوس میں شامل لوگوں سے بحث شروع کر دی جس کے بعد پتھراؤ، لڑائی اور تشدد شروع ہو گیا۔

حالاں کہ میڈیا میں یہ رپورٹ کیا جا رہا ہے کہ اسلم کی عمر 22 سال ہے، لیکن ان کے خاندان کی جانب سے دی وائر کو فراہم کیے گئے برتھ سرٹیفکیٹ میں ان کی عمر صرف 16 سال بتائی گئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سب انسپکٹر مینا اسلم کی گولی سے زخمی ہوئے اور اس کے پاس سے ایک پستول بھی ضبط کی گئی ہے، تاہم اسلم کی بھابھی نے دی وائر کو بتایا کہ تشدد کے دوران اسلم گھر پر تھا اور پولیس کے دعووں کو جھوٹا قرار دیا۔ ساتھ ہی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب پولیس نے اسلم کو گرفتار کیا تو اسے کپڑے بھی پہننے نہیں دیے۔

وہیں، پولیس کی ایف آئی آر کے برعکس مقامی رہائشی سلمان خان کا کچھ اور کہنا ہے۔ سلمان خان بتاتے ہیں کہ ،بجرنگ دل کے ارکان کے ساتھ ہجوم مسجد کے باہر گئی  اور وہاں بھگوا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی، وہ اونچی آواز میں میوزک پر ڈانس بھی کر رہے تھے۔

خان نے مزید کہا، علاقے کے دکانداروں نے بھیڑ کو روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران کچھ خواتین نے آکر ہجوم کو وہاں سے جانے کو کہا۔ اس سے تشدد بھڑک گیا اور کچھ لوگ زخمی ہوگئے۔

انہوں نے مزید کہا، لیکن دہلی پولیس نے فوری طور پر معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ہجوم کو بھگا دیا۔ اب حالات پرامن ہیں۔

بتادیں کہ شمال-مغرقی دہلی کے جہانگیرپوری علاقے میں سنیچر کو ہنومان جینتی پر نکالے گئے جلوس میں پتھراؤ کے بعد تشدد بھڑک اٹھا۔ اس دوران پتھراؤ ہوا اور کچھ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)