ہندوستان اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے، نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔
یہ بھی پڑھیں: قصہ دہلی کی افطار پارٹیوں کا
صحافیوں اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر ہنسی مذاق کا دور چلتا تھا۔ کسی بھی پالیٹکل رپورٹر یا نئے منتخب شدہ ممبر پارلیامنٹ کے لیے دہلی کے سیاسی گلیاروں میں افطار پارٹیاں نیٹ ورکنگ کا نایاب موقع فراہم کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے ایک دہائی قبل پہلی بار مجھے کانگریس پارٹی کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی کو کور کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ان دنوں کانگریس حکومت میں تھی، اور اس کی صدر سونیا گاندھی سے ملنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ دہلی شہر میں بھی ان دنوں کانگریس پارٹی کی ہی حکومت تھی۔ دہلی کے ایک عالیشان ہوٹل میں اس پارٹی کی چکا چوند نے تو مجھے حیرت زدہ کردیا۔سونیا گاندھی اور ان کے فرزند راہل گاندھی اپنی پلیٹ لےکر ہر میز پر باری باری بیٹھ کر صحافیوں اور دیگر افراد کے ساتھ تبادلہ خیال کررہے تھے اور ہر کسی کے سوالات کے جوابات بھی دے رہے تھے اور ملک بھر سے آئے اپنے پارٹی لیڈروں کے مشوروں کو بھی نوٹ کرتے جاتے تھے۔ عام حالات میں ان تک رسائی ہی ممکن نہیں تھی۔ دہلی میں ان سیاسی افطار پارٹیوں کو شروع کرنے کا سہر ا 70 اور 80 کی دہائیوں کے قد آور لیڈر ہیم وتی نندن بہوگناکے سر جاتا ہے۔ بہوگنا مسلم سماج کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو مین اسٹریم کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کا یہ فارمولہ اس قدر کامیاب رہا کہ تمام سیاسی پارٹیوں بشمول بی جے پی نے ابھی اس کو اپنایا۔ بی جے پی نے تو 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد ہی اس سے کنارہ کشی کی۔ اندرا گاندھی سے لےکر من موہن سنگھ تک بشمول اٹل بہاری واجپائی سبھی وزرائےاعظم اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ہر سال افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اسی طرح پرنب مکھرجی کے عہدہ صدارت تک بھی راشٹر پتی بھون میں ہرسال افطار پارٹیاں ہوتی تھیں۔ جن میں مسلم ممالک کے سفراءبھی شامل ہوتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی امریکی، برطانوی، پاکستانی اور دیگر سفارت خانے بھی افطار پارٹیوں کا نظم کرتے تھے، جو سفارتی بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:مسلمانوں سے دور بھاگتی سیکولر جماعتیں اور آر ایس ایس کی افطار پارٹیاں
پورے ماہ گویا ہر شام ایک عید کی طرح ہوتی تھی۔ ہمارے ایک سینئرایڈیٹر پارسا وینکٹیشور راؤتو دن میں پرانی دہلی جاکر وہاں سے انواع قسم کے کھانے لاکر اپنی جیب سے افطاری کا انتظام کرواتے تھے۔ اکثرافطاری کی میزبانی کرنے کی ڈیوٹی لگتی تھی، جو باری باری ہنسی خوشی انجام دی جاتی تھی۔ کئی ساتھی، جو شام کو آفس آنے سے گریز کرتے تھے، رمضان کے دنوں میں وہ بھی بلا ناغہ حاضر ہوتے تھے۔ گو کہ دفتر کا افطار سیاسی افطاروں کی طرح شاہانہ نہیں ہوتا تھا، مگر اس میں شامل ہونا اور اپنے مسلمان ساتھیوں کے ساتھ روزہ کھولنے کی خوشی کی یادیں ہمیشہ ہی ذہن میں پیوست رہیں گی۔ میں چونکہ جھارکھنڈ کے شہر رانچی سے دہلی شفٹ ہوگئی تھی، مجھے افطار کے اس قدر اہتمام کا پتہ نہیں تھا۔ رانچی میں مسلمان چھوٹے تاجروں اور دکانداروں پر مشتمل تھے اور افطاری کے وقت وہ دکانوں کے شٹر گراتے تھے اور روزہ کھول کر پھر دوبارہ کاروبار شروع کرتے تھے۔ ہندوستان اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے، نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔ میر ی تو بس یہی استدعا ہے۔ انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری با (روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)