دہلی ہائی کورٹ نے ایک ہی معاملے میں الگ الگ عرضیاں دائر کرنے کے لیے دہلی پولیس پر ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالتی نظام کاغلط استعمال کر رہی ہےاور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو دہلی پولیس کی جانب سے دائر ایک نئی عرضی کو خارج کر دیا، جس میں فروری2020 میں دہلی فسادات کے سلسلے میں فیصل فاروق کو دی گئی ضمانت رد کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔کورٹ نے کہا کہ معاملے میں اس سے پہلے بھی اسی طرح کی عرضی زیر التوا ہے۔
ایک الگ عرضی دائر کرنے کے لیے دہلی پولیس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس سریش کمار کیت نے کہا کہ دہلی پولیس عدالتی نظام کاغلط استعمال کر رہی ہے اور سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔شیو وہار علاقے میں واقع راجدھانی پبلک اسکول کے مالک فاروق ان 18 لوگوں میں شامل تھے، جنہیں 24 فروری کو شمالی مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں علاقے کے ایک ڈی آرپی کانونٹ اسکول میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پچھلے مہینے تین جون کو دہلی پولیس نے ایک چارج شیٹ دائر کی، جس میں فاروق پر شمال مشرقی دہلی کے مصطفےٰ آبادعلاقے میں دنگوں کے لیے سازش کرنے اور دنگا بھڑ کانے کاالزام لگایا گیا تھا۔جسٹس کیت نے کہا کہ چونکہ نچلی عدالت کے 20 جون کے آرڈر کو پہلے ہی ایک دیگرعرضی میں چیلنج دیا جا چکا ہے، اس لیے موجودہ عرضی قابل غور نہیں ہے اور اس کو خارج کیا جاتا ہے۔
پچھلی عرضی ریاست کی جانب سے وکیل امت مہاجن کے ذریعے دائر کی گئی تھی، جو مرکزی حکومت کے مستقل وکیل بھی ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں معاملہ دائر کرنے کے لیے دہلی پولیس کی جانب سے اختیار دیا گیا ہے۔حالاں کہ ایڈووکیٹ امت مہاجن کے ذریعے ریاست کی جانب سے سے پہلے دائر کی گئی ایک عرضی عدالت کے سامنے التوا میں ہے جس کے لیے عدالت نے پہلے ہی ملزم کا ردعمل مانگا ہے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد کے توسط سے ایک نئی عرضی دائر کی گئی تھی، جنہوں نے کہا تھا کہ انہیں فسادات سے متعلق معاملوں میں ریاست کی نمائندگی کے لیے ایل جی نے مقررکیا ہے۔
پرساد نے کہا کہ فاروق کی ضمانت رد کرنے کی مانگ کرنے والی الگ عرضی اس بنیاد پر دائر کی گئی تھی کہ، موجودہ معاملے میں شکایت گزاریتیندر شرما کے بیٹے دھرمیش شرما کو چار جولائی کو ایک نامعلوم نمبر سے جان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی اور کہا گیا تھا کی فاروق کے خلاف معاملہ واپس لے لو۔ہائی کورٹ کے اس سوال پر کہ موبائل نمبر کس کا ہے، پرساد نے کہا کہ اس سلسلے میں جانچ چل رہی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق جسٹس کیت نے کہا، ‘چونکہ یہ ابھی ثابت نہیں ہو پایا ہے کہ وہ فون کال ملزم(فاروق)یا ان کی جانب سے کسی دیگر کے ذریعے کیا گیا تھا، اس سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی موجودہ عرضی ٹرائل کورٹ کے ذریعے پاس 20 جون کے آرڈر سے وابستہ ہے، جو اس عدالت کےسامنے زیر التوا ہے۔’
گزشتہ مہینے20 جون کو فاروق کو ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ پولیس کی چارج شیٹ میں پی ایف آئی، پنجرہ توڑ اور مسلم مولویوں کے ساتھ درخواست گزار کا تعلق دکھانے والا مواد موجود نہیں ہے۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ پہلی نظریہ قائم نہیں ہوتاہے کہ درخواست گزار واقعہ کے وقت جائے وقوع پر موجود تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے فیصل کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ گواہ کے بیانات میں تضادات ہیں اور کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزم موجود نہیں ہے۔ٹرائل کورٹ کے ذریعے فاروق کو دی گئی ضمانت پرپولیس کی اپیل پر دہلی ہائی کورٹ نے 22 جون کو روک لگا دی تھی، بعد میں دنگے میں پولیس کی نمائندگی کے سلسلے میں مرکز اور سرکار کے بیچ ان سلجھےدلائل کی وجہ سے روک ہٹا لی گئی تھی۔
گزشتہ 24 جون کو دہلی کی ایک عدالت نےپولیس کے ذریعے فاروق کی حراست کی مانگ کو ٹھکرا دیا تھا۔ کورٹ نے یہ دیکھتے ہوئے ایسا فیصلہ لیا کہ پولیس چار مہینے کی تاخیر کے بعد معاملے میں حراست کی مانگ کر رہی تھی۔