آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی جانب سے آن لائن بحث کے دوران ایک نابالغ بچی کی بلر کی ہوئی تصویر پوسٹ کرنے پر نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی شکایت پر ان کے خلاف آئی ٹی ایکٹ اور پاکسو ایکٹ کی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے ٹوئٹر پر نابالغ لڑکی کو مبینہ طور پر دھمکانے اور ہراساں کرنے کے معاملے میں‘آلٹ نیوز’کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف تعزیری کارروائی نہ کرنے کی پولیس کو بدھ کوہدایت دی۔جسٹس یوگیش کھنہ نے صحافی زبیر کی طرف سے اپنے
خلاف درج ایف آئی آر کو خارج کرنے کی عرضی پر دہلی پولیس اور نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس(این سی پی سی آر) سے جواب بھی مانگا۔
دہلی پولیس اور نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی شکایت پر ہی یہ معاملہ درج کیا گیا تھا۔دہلی پولیس نے ٹوئٹر پر نابالغ لڑکی کو مبینہ طور پر دھمکانے اور ہراساں کرنے کے معاملے میں این سی پی سی آر کی شکایت کے بعد نو اگست کو زبیر کے خلاف آئی ٹی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔
این سی پی سی آر نے نابالغ کے والد کے ساتھ ٹوئٹر پر ہوئی بحث کے دوران زبیر کے ذریعےنابالغ اور اس کے والدکی شیئر کی گئی تصویر کے سلسلے میں شکایت کی تھی۔ہائی کورٹ نے ‘ٹوئٹر انڈیا’ کو بھی معاملے کی جانچ میں پولیس کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت دی ہے۔
زبیر نے ایف آئی آر رد کرنے کی مانگ کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایف آئی آر کی ایک کاپی کی مانگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سائبر سیل نے انہیں دستاویز دینے سے انکار کر دیا ہے۔دہلی سرکار کے وکیل(کرائم)راہل مہرا نے کہا کہ انہیں محکمہ کی جانب سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی ہے لیکن انہیں ملزم کو ایف آئی آر کی کاپی دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ انہیں یہ جاننے کا حق ہے کہ اس کے خلاف الزام کیا لگے ہیں۔
مہرایہاں سرکار اور ڈی ایس پی کی طرف سے دلیل دے رہے تھے۔ عدالت نے پولیس کو انہیں ایف آئی آر کی کاپی دینے کی ہدایت بھی دی تاکہ وہ خود پر لگے الزامات کا جواب دے پائیں۔زبیر نے ایف آئی آر میں ان پر لگے الزامات کو خارج کرتے ہوئے اسے ایک‘بالکل بے معنی شکایت’ قرار دیا۔
ہائی کورٹ نے دہلی پولیس اور سائبر سیل کے ڈی ایس پی انییش رائے سے آٹھ ہفتے کے اندر معاملے کی اسٹیٹس رپورٹ دائر کرنے کی ہدایت دی اور معاملے کی آگے کی شنوائی کے لیے آٹھ دسمبر کی تاریخ طے کی۔جسٹس نے کہا،‘تب تک عرضی گزارزبیرکے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی جائے۔’
شنوائی کے دوران زبیر کی جانب سے پیش سینئروکیل کالن گونجالوس نے بتایا تھا کہ ان کے موکل ایک فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی ہیں اور بنا کسی تعصب کے سیاسی پارٹیوں اور لوگوں کے ذریعے پھیلائی جا رہی غلط جانکاریوں کی اصلیت کوسامنے لاتے ہیں۔ ان کے اسی کام کی وجہ سے انہیں اکثر لوگوں کی طرف سےگالیاں، دھمکیاں دی جاتی ہیں، ان کی توہین کی جاتی ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ اس بارے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں ایک دہلی میں اور ایک رائے پور میں۔ انہوں نے کہا کہ زبیر کو ٹوئٹر پر ان کی پوسٹس کے لیے ایک شخص کے ذریعے ٹرول کیا گیا، ان کی بے عزتی کی گئی ساتھ ہی فرقہ وارانہ تبصرے بھی کیے گئے۔
اس کے بعد زبیر نے اس شخص کی ڈسپلے پکچر (پروفائل میں لگی تصویر)، جس میں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑا تھا، بچی کے چہرے کو بلر کرکے پوسٹ کرتے ہوئے ٹوئٹ لکھا۔ اس کے بعد این سی پی سی آر میں ان کے خلاف شکایت کی گئی اور معاملہ درج کر لیا گیا۔
وہیں مہرا نے کہا کہ زبیر‘عادتاً مجرم’ ہیں اور جب تک پولیس کو تیسرے ٹوئٹر ہینڈل کے بارے میں جانکاری نہیں مل جاتی، انہیں عبوری راحت دی جا سکتی ہے۔زبیر کے علاوہ دو دیگر ٹوئٹر ہینڈل @de_real_mask اور @syedsarwar20 کے خلاف بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔ اس میں سے ایک اکاؤنٹ کو ڈی لٹ کر دیا گیا ہے اور ایک نامعلوم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور ایف آئی آر صرف شکایت گزاریعنی این سی پی سی آر کے صدرپریانک قانون گو کے بیان پر مبنی ہے۔وہیں قانون گو کی جانب سے پیش ہوئی وکیل انندتا پجاری نے کہا کہ ان کے موکل کا نام مقدمہ کرنے والوں کی فہرست سے ہٹا دیا جانا چاہیے کیونکہ وہ صرف جانکاری دینے والے شخص تھے اور اپنی آئینی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔
اس پر زبیر کے وکیل کا کہنا تھا کہ کمیشن کے صدر کو پارٹی اس لیے بنایا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اس بارے میں جو ٹوئٹ کیا تھا وہ اپنے نجی اکاؤنٹ سے کیا تھا نہ کہ کمیشن کے ہینڈل سے۔اس سے پہلے آلٹ نیوز کے شریک بانی پرتیک سنہا نے کہا تھا کہ قانونی طریقوں کے غلط استعمال سے زبیر کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کا ادارہ زبیر کے ساتھ ہے۔
اس کے بعد دی وائر سے ہوئی بات چیت میں انہوں نے کہا تھا کہ آلٹ نیوز کے کام کی وجہ سے زبیر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)