بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ سے ہندوستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کی بھرپائی کے لیے معاوضہ مانگنے والے گجرات کے ایک این جی او کی عرضی پر شنوائی کر رہے دہلی ہائی کورٹ کے جج نے خود کو معاملے سے الگ کرنے کی وجہ نہیں بتائی ہے۔
(اسکرین شاٹ بہ شکریہ: بی بی سی یوکے)
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج نے خود کو برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) سے ہرجانہ مانگنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کی عرضی پر شنوائی سے جمعہ کو الگ کر لیا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ ملک کی ساکھ کو داغدار کرتی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستانی عدلیہ کے خلاف جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات عائد کرتی ہے۔
جسٹس انوپ جئے رام بھنبھانی نے کہا کہ وہ اس کیس سے خود کو الگ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے اس کے لیے کوئی وجہ نہیں بتائی۔
عدالت نے کہا کہ عرضی کو ایکٹنگ چیف جسٹس کے حکم کے تحت 22 مئی کو سماعت کے لیے دوسری بنچ کے سامنے لسٹ کیا جائے۔ ہائی کورٹ نے اس سے قبل گجرات واقع این جی او جسٹس آن ٹرائل کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پر
بی بی سی کو نوٹس جاری کیا تھا۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ بی بی سی برطانیہ کا قومی نشریاتی ادارہ ہے اور اس نے نیوز ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ جاری کی ہے، جس کے دو ایپی سوڈ ہیں، جو جنوری 2023 میں نشر کیے گئے تھے۔
عرضی گزار نے این جی او کے حق میں اور جواب دہندگان کے خلاف 10000 کروڑ روپے کے معاوضے کی مانگ کی ہے اور اس کی وجہ بتائی تھی کہ ڈاکیومنٹری سے ہندوستان کے وزیر اعظم، حکومت ہند، حکومت گجرات اور ہندوستان کے لوگوں کے وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
یہ ڈاکیومنٹری 2002 کے گجرات فسادات سے متعلق ہے جب مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ حکومت نے ڈاکیومنٹری کے ریلیز ہوتے ہی اس پر پابندی لگا دی تھی۔
این جی او نے ایک غریب شخص کی حیثیت سے بھی درخواست دائر کیا ہے۔ دراصل کوڈ آف سول پروسیجر (سی پی سی) کے آرڈر 33 رول 1 اور 2 کے تحت دائر اس درخواست میں ایک غریب شخص کی حیثیت سے مقدمہ کرنے کی اجازت طلب کی گئی ہے کیونکہ اس کے پاس قانون کے ذریعے مقرر کردہ فیس کی ادائیگی کے لیے وسائل نہیں ہیں۔
عام طور پر سی پی سی کے تحت درخواست گزار کو کورٹ فیس کے طور پر ایک مخصوص رقم جمع کرنی ہوتی ہے۔
معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘
انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں
بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
اس کے بعد حکومت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس
بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے
مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔