سال 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے متعلق کیس میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکالر شرجیل امام اور دیگر کی درخواست ضمانت پر شنوائی کر رہی دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا سنگھ اور جسٹس امت شرما کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ معاملے کو ایسی بنچ کے سامنے درج کیا جائے جس کے ممبرجسٹس شرما نہ ہوں۔
شرجیل امام، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس امت شرما نے جمعرات (4 جولائی) کو 2020 کے دہلی فسادات کے مبینہ سازشی کیس سے متعلق ضمانت کی درخواستوں کی شنوائی سے خود کو الگ کر لیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ضمانت کی درخواستوں میں آئی آئی ٹی گریجویٹ اور پی ایچ ڈی اسکالر شرجیل امام اور دیگر افراد بھی شامل ہیں، جن کے خلاف یو اے پی اے (غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس معاملے کو دیکھنے والے ججوں کی فہرست میں تبدیلی کے بعد یہ کیس جسٹس پرتبھا سنگھ اور جسٹس امت شرما کی ڈویژن بنچ کے سامنے درج کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، بنچ نے کہا کہ ‘معاملات کسی اور بنچ کے سامنے درج کیے جائیں، جس میں جسٹس امت شرما ممبرنہ ہوں۔ یہ قائم مقام چیف جسٹس کے احکامات سے مشروط ہو گا۔’
کیس کی اگلی سماعت 24 جولائی کو ہوگی۔ اس معاملے میں کئی کارکنان اور طالبعلم ملزم ہیں۔ ان سبھی کو دہلی پولیس کی ایف آئی آر 59/2020 کے تحت سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ یہ معاملہ فروری 2023 میں ہوئے فسادات سے متعلق ہے، جس کے بارے میں دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ نریندر مودی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔
بتا دیں کہ مئی کے آخری ہفتے میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے اسکالر شرجیل امام کو دہلی ہائی کورٹ نے
ضمانت دی تھی ۔ امام پر دہلی کے جامعہ نگر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ملک کے خلاف بیان دینے کا الزام تھا۔
جنوری 2020 میں گرفتار کیے گئے امام چار سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ ان کے خلاف درج کسی بھی معاملے میں انہیں قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ شرجیل امام کو جو ضمانت ملی تھی وہ ایک گرفتار شخص کو اس وقت ملتی ہے، جب پولیس اپنی جانچ مکمل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ تاہم اس کے بعد بھی وہ جیل سے باہر نہیں آپائے تھے کیونکہ ان پر دہلی فسادات کی مبینہ سازش والے کیس میں یو اے پی اے کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔
دہلی پولیس نے الزام لگایا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے علاقوں میں امام کی تقریریں اشتعال انگیز تھیں۔
تقریر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے امام کے خلاف کارروائی کی۔ چند دنوں کے اندر ان کے خلاف اتر پردیش، دہلی، آسام، اروناچل پردیش اور منی پور میں پانچ ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جب انہوں نے سریندر کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔