دہلی انتخابات: 2020 کے فسادات میں تشدد کا نشانہ بنے مسلمانوں کے لیے عآپ متبادل محض

12:46 PM Feb 05, 2025 | مالویکا چودھری | شروتی شرما

دہلی کے اسمبلی حلقوں میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان عام آدمی پارٹی کو صرف اس لیے ووٹ کر رہے ہیں کہ وہ اسے بی جے پی کے مقابلے واحد متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں؟ یا پھراروند کیجریوال کے کام سے مطمئن ہیں؟ یا پھر یہ کہ شمال-مشرقی دہلی کے رائے دہندگان کے لیے 2020 کا دنگا اب بھی انتخابی ایشو ہے؟

شمال-مشرقی دہلی کے ووٹر اور حلقہ کی ایک گلی۔ (تصویر: دی وائر/بی جے پی/عآپ/فیس بک)

نئی دہلی: دہلی اسمبلی انتخابات میں دو بڑی پارٹیوں بی جے پی اور عام آدمی پارٹی (عآپ) کی  لڑائی کے درمیان اے آئی ایم آئی ایم نے دہلی فسادات کے دو ملزم کو ٹکٹ دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے مسلم اکثریتی اوکھلا سے شفاء الرحمان اور مصطفیٰ آباد سے طاہر حسین کو میدان میں اتارا ہے ۔

کیا اویسی کی پارٹی دونوں سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگی یا محض عام آدمی پارٹی کا ووٹ کاٹ  کر بی جے پی کو برتری دلائے گی؟

اسی طرح دہلی کے دیگر علاقوں میں بھی ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان عام آدمی پارٹی کو صرف اس لیے ووٹ کررہے ہیں کہ وہ اسے بی جے پی کے مقابلےواحد متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں؟ یا پھر اروند کیجریوال کے کام سے مطمئن ہیں؟

تیسرا سوال، کیا شمال- مشرقی دہلی کےرائے دہندگان  کے لیے2020 کے فسادات اب بھی انتخابی ایشو ہیں؟

عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم کی گاڑی (تصویر: مالویکا چودھری/ دی وائر)

ان سوالوں  کو ہم شمال-مشرقی دہلی کی اسمبلی سیٹ مصطفی آباد کے آئینے  سے دیکھ سکتے ہیں۔

سال 2020 میں  ہوئے فسادات میں تشدد کا نشانہ بننے  والے مصطفیٰ آبادسے بی جے پی نے کراول نگر کے موجودہ ایم ایل اے موہن سنگھ بشٹ کو میدان میں اتارا ہے،وہیں  عآپ  نے اپنے مقامی ایم ایل اے حاجی یونس ایم ایل اے کو ہٹا کر عادل احمد خان کو ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس نے علاقے کے سابق ایم ایل اے حسن مہدی کے بیٹے علی مہدی کو میدان میں اتارا ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے طاہر حسین نے اس پورے مقابلے کو ایک نیا زاویہ دے دیا ہے۔

مصطفیٰ آباد کا المیہ

آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی ملک کی راجدھانی دہلی میں واقع یہ علاقہ آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ اس حلقہ کے بیشتر علاقوں میں نالیاں  کھلی ہیں اور سڑکوں پر بہہ رہی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور چاروں طرف کچرے کےانبار ہیں۔

ایک خاتون کہتی ہیں، ‘کچرا کھلے میں پھیلا ہوا ہے، نالیاں کھلی ہوئی ہیں۔ ہر طرف بدبو پھیلی رہتی ہے۔ مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔ کیا اسے صاف کرنا حکومت کا کام نہیں ہے؟’

مصطفیٰ آباد کی خواتین ووٹرز۔ (تصویر: مالویکا چودھری/ دی وائر)

علاقے میں پانی کا شدید بحران ہے۔ مکینوں کا کہنا ہے کہ سپلائی والے پانی میں کیڑےہوتے ہیں۔ اس سے بدبو آ تی ہے۔ پانی کا کنکشن ابھی تک کئی گھروں میں نہیں پہنچا ہے۔ پانی ٹینکر سے آتا ہے جسے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک ہفتے بعد ٹینکر آتا ہے۔

عام آدمی پارٹی بی جے پی کا متبادل محض؟

مصطفیٰ آباد اور دہلی کے دیگر حصوں کے مسلمان عآپ کو محض  بی جے پی کے متبادل کے طور پرچن  رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر بی جے پی دہلی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ان کے لیے راہیں مشکل ہو جائے گی۔

شیو وہار فیز 10 کے رہنے والے شمس الدین کہتے ہیں،’اگر بی جے پی اس بار دہلی میں جیت جاتی ہے تو پھر کبھی نہیں ہارے گی۔ یہ مسلمانوں کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ ہو سکتا ہےجیسے ٹرمپ امریکہ سے سب کو باہر کر رہا ہے، بی جے پی بھی مسلمانوں کو دہلی سے باہر کر دے۔

یہ بھی طے ہے کہ دہلی کے مسلمان کانگریس سے بہت آگے بڑھ چکے  ہیں۔ ان کے مطابق کانگریس کا یہاں  کھاتہ بھی نہیں کھلے گا۔

جعفرآباد سے سہیل کہتے ہیں،’ہم کانگریس کے خاندانی ووٹر ہیں، میرا خاندان اندرا گاندھی کے زمانے سے کانگریس کو ووٹ دے رہا ہے۔ کانگریس سے ہماری اب بھی کوئی دشمنی نہیں ہے، لیکن کانگریس دہلی میں حکومت نہیں بنا سکتی، کانگریس اب دہلی میں ختم ہوچکی ہے۔ ان کو ووٹ دینااپنا  ووٹ برباد کرنا ہے۔’

کئی  لوگ عام آدمی پارٹی کے کام سے مطمئن ہیں۔ گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کے ایک تاجر رقیب نے کہا کہ کام صرف ’’ہماری جھاڑو‘‘ ہی کرتی ہے۔ پرانی دہلی کے ووٹر شکیل مالک نے کہا، ‘ہم اسے ووٹ دیں گے جو اچھا کام کرے گا۔ جھاڑو اچھا کام کر رہا ہے تو ہم اسے ہی ووٹ دیں گے۔’

گوکل پوری ٹائر مارکیٹ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

‘اویسی کی پارٹی صرف عام آدمی پارٹی کا ووٹ کاٹے گی’

اے آئی ایم آئی ایم کے بارے میں مصطفیٰ آباد کے لوگوں کی رائے ہے کہ وہ صرف  عام آدمی پارٹی کا کھیل خراب کرے گی  اور ان کے ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو فائدہ پہنچائے گی۔

شیو وہار فیز 6 کے محمد اشفاق کہتے ہیں،’یا تو بی جے پی کی حکومت بنے گی یا  پھر عام آدمی پارٹی کی۔ اویسی کی پارٹی صرف دو سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ دو سیٹوں پر الیکشن لڑ کر یہ کیا کرلیں گے؟ صرف عام آدمی پارٹی کے ووٹ کاٹیں گے۔’

شیو وہار فیز 7 کے رہنے والے چاند خان کہتے ہیں،’اویسی کی پارٹی مسلمانوں کے ووٹ کاٹنے آئی ہے۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کو متحد ہو کر کیجریوال کو جتانا چاہیے۔’

سال 2020 کے فسادات اور کیجریوال سے ناراضگی

کئی  لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی کو ووٹ دینا ان کی مجبوری ہے، کیونکہ ان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ صرف عام آدمی پارٹی ہی بی جے پی کو شکست دے سکتی ہے، اس لیے وہ متحد ہو کر عآپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔

مسلم علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ کو بہتر نہ کرنے پر لوگ کیجریوال سے بے  حد ناراض ہیں۔ وہ دہلی فسادات کے دوران کیجریوال حکومت کی بے عملی پر بھی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

شیو وہار میں کھلے میں پڑا کچرے کا ڈھیر، کھلی نالیاں(تصویر: دی وائر )

شمس  الدین کہتے ہیں،’دنگوں  میں ہزاروں فون کال کی گئیں تھیں سرکار کے لوگوں کو… لیکن کسی نے ایک کال تک نہیں اٹھائی۔ فسادات کو لے کر عوام کے دلوں میں کافی غصہ ہے۔’

محمد جاوید کہتے ہیں،’کیجریوال نے فسادات کے دوران ہمارے لیے کیا کیا؟ کوئی مدد نہیں کی۔لوگ مر رہے تھے… املاک جل رہی تھیں، لیکن کسی نے مدد نہیں کی۔ نہ ہی حکومت  نے اور نہ پولیس نے۔’

محمد جاوید، بائیں سے دوسرے (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

گوکل پوری ٹائر مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ کیجریوال نے فسادات کے دوران ان کی دکانیں جل جانے کے بعد انہیں 5 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کئی  متاثرین کو یہ رقم نہیں ملی۔ یہاں تک کہ جن کو یہ رقم ملی، انہیں بھی پوری رقم نہیں ملی، کچھ کو 70 ہزار اور کچھ کو ایک لاکھ روپے ۔

فسادات کے بارے میں پوچھے جانے پر شیو وہار کی کئی خواتین ایک ساتھ کہتی ہیں، ‘ پیروں میں چپل پہنے بغیر بھاگے تھے۔ گھر میں جو کچھ بھی تھا فسادیوں نے جلا دیا۔ پہننے کے لیے کپڑے نہیں بچے تھے۔ کبھی نہیں بھول سکتے وہ دن۔’

بیالیس سالہ رابعہ کہتی ہیں، ‘جس دن دنگے ہوئے،اس دن  رات 9 بجے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سارا سامان چھوڑ کر اپنے رشتہ دار کے گھر چلی گئی۔ اگلے دن فسادیوں نے پورا گھر جلا دیا… کچھ بھی نہیں بچا گھر میں۔ سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔’

اپنے گھر کے سامنے رابعہ۔ (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

لوگوں کے ذہنوں میں دنگوں کا ڈر بیٹھا ہواہے۔ ان دنوں کے مناظر آج بھی ان کی آنکھوں میں تیرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس الیکشن پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ٹائر مارکیٹ کے ایک تاجر کا کہنا ہے، ‘انہوں نے ہماری دکان کو جلا دیا۔ ہمیں بیس سال پیچھے دھکیل دیا … لیکن آج پانچ سال بعد ہم مضبوطی سے کھڑے ہیں اور اپنی جائیداد دوبارہ بنالی ۔ آج فساد ہمارے لیے انتخابی مسئلہ  نہیں ہے۔ دلوں میں جو کھائی پیدا  ہوئی  ہے، جو شاید پُر نہ ہو سکے،لیکن ہم ووٹ دینے سے پہلے اس بارے میں نہیں سوچیں گے۔’

دہلی دنگوں کے متاثرہ محمد وکیل (تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

فسادات کے دوران اپنی دونوں آنکھیں کھونے والے محمد وکیل کہتے ہیں، ‘بی جے پی والےکبھی ہمارے پاس آئے ہی نہیں۔ سب پارٹی والے آتے ہیں، لیکن بی جے پی کبھی ووٹ مانگنے نہیں آئی۔’