دہلی اسمبلی الیکشن کے مدنظر بی جے پی، عام آدمی پارٹی اور کانگریس پر حملہ کرنے کے لئے شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف قریب دو مہینے سے چل رہے مظاہرے کا استعمال کر رہی ہے۔ یہ مدعا نہ صرف بی جے پی کے مقامی رہنما اٹھا رہے ہیں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت ہر بی جے پی رہنما شاہین باغ کے مظاہرے کے نام پر دہلی کے رائےدہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے دکھے ہیں۔
نئی دہلی: ملک کی راجدھانی دہلی کے اسمبلی انتخابات کے لئے تشہیر ختم ہو چکی ہے۔ اس الیکشن میں جہاں حکمراں عام آدمی پارٹی (عآپ) نے مقامی مدعوں پر انتخاب لڑنے کی کوشش کی ہے، وہیں بی جے پی کا پورا زور قومی مدعوں پر رہا اور اس نے بہت جارحانہ رویہ اپنایا۔ حالانکہ، کانگریس نے اس انتخاب میں دیگر ریاستوں کی ہی طرح مقامی مدعوں کے ساتھ قومی مدعوں کو نمایاں طور پر جگہ دی ہے۔
بی جے پی نے عآپ اور کانگریس پر حملہ کرنے کے لئے شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف قریب دو مہینے سے چل رہے مظاہرےکا استعمال کیا۔ یہ مدعا نہ صرف بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے اٹھایا بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ تمام مرکزی وزیر نےاپنی ہر ریلی، جلسہ میں اس کا استعمال کیا۔
کرونولاجی سمجھنے کی کوشش کریں تو 22 جنوری کو راجیہ سبھا رکن پارلیامان وجئے گوئل نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہین باغ کو دہلی کی سکیورٹی کے لئے خطرہ بتایا۔ اگلے ہی دن پارٹی کے قومی ترجمان سنبت پاترا نے ایک ویڈیو کو بنیاد بناتے ہوئے شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی ہوئی عورتوں پر 500 روپے لےکر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگایا۔
سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نیرجا چودھری کہتی ہیں، ‘ کیجریوال کے مقامی مدعوں کے جواب میں بی جے پی کے ہاتھ میں کچھ پتے نہیں تھے تو اس نے مقامی بنام قومی کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے شاہین باغ کو مرکزی مدعا بنایا ہے۔ انہوں نے شاہین باغ کو غدار وطن، پاکستانی اور بریانی سے جوڑا۔ ایک طرح سے قومی سلامتی کو مدعا بنایا اور لوگوں کے سامنے قومی سلامتی یا بجلی، پانی جیسے مقامی مدعے کو چننے کا اختیار رکھا۔ پچھلے 10 دن میں انہوں نے جس طرح کے پولرائزیشن کی کوشش کی ہے وہ دیکھنے لائق ہوگی۔ ‘
24 جنوری کو شاہین باغ کے مظاہرے کا ذکر کرتے ہوئے مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے کہا کہ لوگوں کو ‘ جناح والی آزادی ‘ اور ‘ بھارت ماتا کی جئے ‘ میں سے کسی ایک نعرے کو چننا ہوگا۔سینئر صحافی ارملیش کہتے ہیں، ‘ تمام مقامی مدعوں کو درکنار کر بی جے پی شاہین باغ کو مدعا بنا رہی ہے۔ اس نے اس کو مرکزی انتخابی مدعا بنا دیا ہے۔ شاہین باغ بنیادی طور پر خواتین کا احتجاجی مظاہرہ ہے جس میں ہر مذہب، ذات، فرقے کی خواتین ہیں۔ ہاں، یہ ہے کہ وہاں زیادہ تر خواتین مسلم ہیں۔ وہاں وہ پر امن مظاہرہ کر رہی ہیں، نعرے لگا رہی ہیں، بھارت ماتا کی جئے کر رہی ہیں اور ترنگا لہرا رہی ہیں۔ ‘
25 جنوری کو سنبت پاترا نے پریس کانفرنس میں جے این یو طالب علم شرجیل امام کی تقریر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کس طرح کا جہادی نظریہ ہے جس میں ہندوؤں، سکھوں، بدھ، جین اور عیسائیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے؟سنبت پاترا نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا، ‘ دوستوں، شاہین باغ کی اصلیت دیکھیں۔ ویڈیو میں کہا جا رہا ہے کہ آسام کو انڈیا سے کاٹکر الگ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ‘ اس ویڈیو کو شیئر کرنے کے فوراً بعد سنبت پاترا نے پریس کانفرنس کی تھی۔
اس دوران سنبت پاترا نے کہا تھا ‘ شاہین باغ میں جس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں، اس کو دِشاہین باغ کہنا چاہیے۔ دِشاہین باغ کیا، توہین باغ کہنا چاہیے۔ ‘ حالانکہ، بعد میں خبر یہ آئی کہ شرجیل کا جو ویڈیو سنبت پاترا نے شاہین باغ سے جوڑکر شیئر کیا تھا، وہ دراصل علی گڑھ کا تھا۔
رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعے کے دوران لگنے والے فرقہ وارانہ نعروں کا ذکر کرتے ہوئے ارملیش کہتے ہیں، ‘ خواتین بدامنی پیدا کرنے والی یا ایسی کوئی بھی ناپسند بات نہیں کر رہی ہیں جیسا ہم نے رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعے کے وقت ہندو مہاسبھا، وشو ہندو پریشد یا بجرنگ دل کے ذریعےنکالے جانے والے جلوسوں میں ہم نے سنی تھیں۔ اس وقت خواتین نکلتی تھیں، درگا واہنی جیسی تنظیم بنتی تھی لیکن اس میں جس طرح کی باتیں کی جاتی تھیں ویسے نعرے لگاتے تو ہم نے آج تک شاہین باغ کی کسی خاتون کو نہیں دیکھا تھا۔ جب ہندو واہنی اور ہندو تنظیموں کی خواتین کوچکر رہی تھیں تب وہ کیسی آگ اگلتی تھیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین قومی سیاست میں اہم عہدوں پر رہ چکی ہیں یا ہیں۔ ‘
25 جنوری کو ہی پارٹی کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا تھا کہ بی جے پی ایک ایسی قومی راجدھانی متعین کرےگی جس میں کبھی کوئی شاہین باغ نہیں ہوگا۔ 27 جنوری کو مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کیجریوال اور ان کے وزیر شاہین باغ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن مظاہرہ سے متاثر لوگوں کے لئے اپنے کان بند کر لئے ہیں۔
شاہین باغ میں احتجاج کرتی خواتین کے خلاف لگائے جا رہے الزامات کو میڈیا میں پیش کئے جانے کے رویے پر سوال اٹھاتے ہوئے ارملیش کہتے ہیں، ‘ ان خواتین کو دہشت گرد یا دہشت گردی سے متاثر بتانا بہت ہی بے وقوفی بھرا ہے۔ یہ صرف اور صرف ملک میں ذات، برادری اور فرقے کو باٹنے کی سیاست ہے۔ ہندوستان کا میڈیا ایک خاص ڈھنگ کا میڈیا ہے جو اس کو سنجیدگی سے لے رہا ہے لیکن یہ مدعا تو کوڑے میں پھینکنے لائق ہے، جس میں خواتین کو دہشت گرد یا ملک کو توڑنے والا بتایا جا رہا ہے۔ ‘
28 جنوری کو مغربی دہلی سے بی جے پی رکن پارلیامان پرویش ورما نے کہا کہ اگر شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں مظاہرہ جاری رہنے دیا گیا تو دہلی میں کشمیر جیسے حالات پیدا ہو جائیںگے، جہاں پر مظاہرین گھروں میں گھسکر بہن-بیٹیوں کا ریپ کریںگے۔ارملیش کہتے ہیں، ‘ تین طلاق کا قانون لانے کے بعد یہ کہہ رہے تھے کہ اے مسلم خواتین ہم تمہارے ساتھ انصاف کر رہے ہیں، ہمارے ساتھ آؤ لیکن اب جب وہی مسلم خواتین اس قانون کی مخالفت کر رہی ہیں تب ان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ یہ ضرور ہے کہ اگر اکثریت کمیونٹی کی خواتین بھی بڑی تعداد میں ان کے ساتھ آ جاتیں تو ان کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملتا لیکن ہر ذات، کمیونٹی میں ابھی اتنی بیداری نہیں آئی ہے۔ حالانکہ، اس کے باوجود ملک کی ہر ریاست میں لوگ سڑکوں پر آئے ہیں اور سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ آسام میں ہو رہا ہے۔ ‘
29 جنوری کو مظاہرہ کی وجہ سے ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے کہا، ‘ اگر سریتا وہار کے لوگوں کو کسی کو ہاسپٹل لے جانا ہے تو دو گھنٹے کے جام کی وجہ سے مریض مر سکتا ہے لیکن وزیراعلیٰ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ‘ وہیں مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے دعویٰ کیا کہ وہاں پر پارلیامنٹ حملے کے مجرم افضل گرو کی حمایت میں نعرے لگائے گئے۔ 2 فروری کو دہلی کے روہتاس نگر میں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا تھا کہ اگر دہلی کو سجانا ہے، سنوارنا ہے تو پھر تو بی جے پی کو ووٹ دیں اور اگر ایسا ہوگا تو شاہین باغ پر صاف صاف اثر پڑےگا۔
امت شاہ نے کانگریس اور عام آدمی پارٹی پر دہلی میں فساد کرنے، تشدد پھیلانے اور لوگوں کو اُکسانے کا بھی الزام لگایا۔ انہوں نے واضح لفظوں میں لوگوں سے اپیل کی ہے کہ دہلی میں امن اور شاہین باغ کے خاتمے کے لئے بی جے پی کو ووٹ دیں۔رٹھالا میں 3 فروری کو ایک عوامی جلوس کو خطاب کرتے ہوئے امت شاہ نے کہا، ‘ فسادات کروائیں کیجریوال، شاہین باغ کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرے کیجریوال، تو وہاں بیٹھے لوگ ہم سے زیادہ اروند کیجریوال کی ہی بات مانیںگے۔ محترم کیجریوال جی آپ میں ہمت ہے تو جاکر شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھیں، پھر دہلی کی عوام آپ کو اپنا فیصلہ سنائےگی۔ ‘
بی جے پی نے سوموار 3 فروری کو ہی ‘ شاہین باغ میں کون کدھر کیمپین ‘ شروع کیا ہے۔ اس مہم کے تحت بی جے پی کے رہنما عام آدمی پارٹی اور لوگوں سے یہ پوچھیںگے کہ وہ شاہین باغ کی حمایت میں ہیں یا پھر مخالفت میں۔4 فروری کو دہلی کے اتم نگر میں انتخابی جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے بی جے پی کے اسٹار کیمپینر اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے شاہین باغ کا ذکر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس نے پوری دہلی میں ٹریفک بلاک کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ کیجریوال دہلی کے لوگوں کو کوئی سہولت نہیں مہیا کرا رہے ہیں لیکن شاہین باغ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بریانی کھلانے کا کام اروند کیجریوال کر رہے ہیں۔ یہ آدمی ہر وہ کام کرےگا جو ملک کے خلاف ہو۔ ‘ اسمبلی انتخاب کی تشہیر ختم ہونے تک وزیر داخلہ امت شاہ سمیت انوراگ ٹھاکر، اسمرتی ایرانی، پرکاش جاویڈکر، ہردیپ پری، ہرشوردھن اور یوگی آدتیہ ناتھ اور کئی بی جے پی رہنما عآپ اور کانگریس پر شاہین باغ میں مظاہرہ منعقد کرانے اور اس کی فنڈنگ کرنے کا الزام لگا چکے ہیں۔
کانگریس نے کھلے طور پر احتجاج کرنے والی خواتین کی حمایت کی ہے۔ حالانکہ، سیاسی تجزیہ کار اس سے کانگریس کے ووٹ فیصد میں کوئی خاص فرق پڑتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں۔شاہین باغ کے مدعے سے کانگریس کو کوئی خاص فائدہ ہونے کی بات سے انکار کرتے ہوئے ارملیش کہتے ہیں، ‘ لوک سبھا کا انتخاب ہوتا تو کانگریس کو مسلم ووٹ کا فائدہ ہو سکتا تھا لیکن دہلی انتخاب میں عآپ زیادہ مضبوط حالت میں ہے تو وہ اسی کے ساتھ جائیںگے۔ کانگریس سی اے اے اور این آر سی کو لےکر کیجریوال کے مقابلے ملک بھر میں زیادہ بولڈ ہے۔ ‘
وہیں نیرجا چودھری کہتی ہیں، ‘ مسلم کمیونٹی کو صاف دکھ رہا ہے کہ عآپ، بی جے پی کو سیدھے ٹکردیتی دکھ رہی ہے تو مجھے نہیں لگتا ہے کہ وہ آج کے حالات میں اپنا ووٹ برباد کریںگے۔ ‘ عام آدمی پارٹی شاہین باغ میں چل رہے مظاہرے کی تو حمایت میں ہے لیکن اس کے چھوٹے سے لےکر بڑے تمام رہنماؤں نے اب تک مظاہرے کی جگہ سے دوری بنائے رکھی ہے۔ انتخابی تشہیر کی شروعات میں نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ایک نیوز چینل سے کہا تھا کہ وہ مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پارٹی کا کوئی بڑا رہنما احتجاجی مقام پر نہیں گیا۔ صرف علاقے کے ایم ایل اے امانت اللہ خان باقاعدہ طور پر وہاں دکھتے رہے ہیں۔
اس الیکشن میں شاہین باغ کے مدعے کا کتنا اثر پڑےگا، اس بارے میں ارملیش کہتے ہیں، ‘ یہ تو نہیں بتا سکتے ہیں کہ بی جے پی کو اس سے سیٹوں کی سطح پر کتنا فائدہ ملےگا لیکن ووٹ فیصد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ دہلی سیاسی طور پر اتنی بیدار نہیں ہے اور یہاں طرح-طرح کے لوگ آکر بسے ہیں۔ اس کے باوجود ورکنگ کمیونٹی پرعآپ کی کافی مضبوط پکڑ ہے۔ بی جے پی متوسط طبقہ کو ساتھ جوڑنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا ہے وہ ایسی حالت میں ہے کہ پورے حالات کو پلٹ سکے۔ ‘
نیرجا چودھری کہتی ہیں، ‘ابھی تک اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کی حکومت نے جو کیا ہے وہ دہلی کے لوگوں کو اچھا لگا ہے اور لوگ بول رہے تھے کہ ہم ووٹ دیںگے کیونکہ بجلی، پانی، اسکول، محلہ کلینک ان کو پسند آیا۔ عوام ان کو ایک اور موقع دینا چاہتی ہے۔سینئر صحافی ابھے دوبے کہتے ہیں، ‘ عام آدمی پارٹی نے کبھی نہیں کہا کہ وہ شاہین باغ مظاہرہ کے خلاف ہے، اس نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ شاہین باغ کے مظاہرہ کے ساتھ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کتنی سرگرمی دکھانا چاہتی ہے۔ اروند کیجریوال اور منیش سسودیا سبھی کہہ رہے ہیں کہ وہ دھرنے کی حمایت میں ہیں۔ میڈیا چاہتا ہے کہ وہ دکھائیں کہ دھرنے کا انعقاد وہ کر رہے ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ انتخاب میں اپنے حساب سے سارے کام کئے جاتے ہیں۔ ‘
شاہین باغ کے بہانے قومی سلامتی کو مدعا بناکر ووٹ کا پولرائزیشن کرنے سے انتخاب میں پڑنے والے اثر کو لےکر نیرجا چودھری کہتی ہیں، ‘ ان مدعوں کا کچھ حد تک فرق پڑتا ہوا دکھ رہا ہے۔ ایسا دکھ رہا ہے کیونکہ کیجریوال بہت آگے چل رہے تھے۔ جو فرق پڑ رہا ہے وہ غیرمتعینہ ووٹروں پر زیادہ پڑ رہا ہے، جو کہ بی جے پی کی طرف جا سکتے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ 10 دن پہلے 52 فیصدی ووٹ فیصد کے ساتھ آگے چل رہی عآپ کیا لڑھکےگی اور 20 فیصدی کے آس پاس چل رہی بی جے پی 30 فیصدی تک ووٹ فیصد حاصل کر لےگی۔ ‘
2015 کے دہلی انتخاب کے اعداد و شمار کو بتاتے ہوئے دوبے کہتے ہیں، ‘ بی جے پی کو پچھلی بار 32 فیصدی ووٹ ملے تھے تو ہو سکتا ہے ایک-دو فیصدی ووٹ بڑھ جائیں لیکن سیٹوں کے جیتنے پر ان کا اثر تب سمجھ میں آئےگا جب یہ پتہ چلےگا کہ کانگریس کا مظاہرہ کیسا رہےگا۔ پچھلی بار کانگریس کو 9.7 فیصدی ووٹ ملا تھا تو 9 یا اس سے بھی کم چلا گیا کانگریس کا ووٹ فیصد تو اس سے بھی سیٹیں نہیں بڑھیںگی۔ اگر کانگریس کا ووٹ فیصد 10-11 فیصدی سے اوپر چلا گیا اور کچھ مسلم ووٹ اس کو مل جاتے ہیں تو بی جے پی کی سیٹیں بڑھ جائیںگی۔ ‘