گزشتہ 16جولائی کو افغانستان کےقندھار شہر کےاسپن بولڈک میں افغانی فوج اور طالبان کے بیچ جھڑپ کوکورکرنے کے دوران پیولٹزرانعام یافتہ فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کی موت ہو گئی تھی۔ اب انٹرنیشنل نیوز ایجنسی رائٹرس نے ان کی موت کو لےکر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔
دانش صدیقی۔ (فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: افغانستان میں فوج اور طالبان کے بیچ جنگ کوریج کے دوران پیولٹزرانعام یافتہ ہندوستانی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کی موت کو لےکر رائٹرس نے
ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں واقعات کی سلسلہ وارتفصیلات، ادارتی فیصلے،تجزیےکی کمیاں اور تشدد کو لےکر جانکاری دی گئی ہے۔
جن حالات کے باعث ہندوستانی فوٹوگرافر کی موت ہوئی، اس کو لےکر اب بھی غیریقینی صورتحال برقرار ہے، حالانکہ رائٹرس نے تمام تصویروں(جس میں سے اکثر دانش صدیقی کے ذریعے لی گئی تھی)اور سیٹیلائٹ کمیونی کیشن کے ذریعے صدیقی کے آخری لمحے کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس رپورٹ کو انہوں نے ‘فائنل اسائنمنٹ’ کانام دیا ہے۔
گزشتہ مہینے16جولائی کو پیولٹزرانعام یافتہ صحافی کی قندھار شہر کے اسپن بولڈک ضلع میں افغانی فوج اور طالبان کے بیچ جھڑپ کو کور کرکے دوران
موت ہوئی تھی۔ دانش صدیقی افغانی فوج کے ہمراہ رپورٹنگ کر رہے تھے۔
رپورٹ میں سب سے اہم انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ افغانی فوج دو کمانڈو کے ساتھ صدیقی کو پیچھے چھوڑکر آگے نکل گئی تھی۔ ایک کمانڈر اور چار گواہوں نے بتایا ہے کہ ‘افغانی فوج کو غلطی سے یہ لگا تھا کہ وہ پیچھے ہٹنے والی ٹیم میں شامل تھے۔’
رائٹرس نے اس کے لیے جلدبازی میں پیچھے ہٹنے کے فیصلے کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ صدیقی اس وقت راکیٹ کے چھرے لگنے کی وجہ سے زخمی ہو گئے تھے اور علاج کے لیےانہوں نے ایک مسجد میں پناہ لی تھی۔ ایک سینئر افغان افسر نے بتایا کہ پیچھے چھوٹ جانے کے بعد صدیقی کاقتل ہوا تھا۔
میجر جنرل ہیبت اللہ علی زئی نے نیوز ایجنسی کو بتایا،‘انہیں وہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔’
معلوم ہو کہ پہلے
ایک رپورٹ آئی تھی کہ طالبان کے ذریعے دانش صدیقی کی لاش کو نقصان پہنچایا گیا تھا، ان پر کئی گولیوں کے زخم اور ٹائر کے نشان تھے۔ رائٹرس نے کہا ہے کہ افغان سیکیورٹی اہلکاروں اور حکومت ہند کے حکام کی جانب سےنیوز ایجنسی کو بھی یہی بتایا گیا ہے، لیکن طالبان نے اس کی تردید کی ہے۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کےجنگجوؤں کو تمام چوٹوں کے ساتھ ہی صدیقی کی لاش ملی تھی۔
اس بیچ ایک برٹش بیلسٹک ماہر نے رائٹرس کو بتایا کہ تجزیے سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ ‘ان کی موت کے بعد بھی انہیں کئی بار گولی ماری گئی تھی۔’
رپورٹ میں صدیقی کے ذریعے اپنےاسائنمنٹ کو پورا کرنے میں شامل خطرات، کمپنی کے اندرصدیقی کے معاونین اور دیگر ملازمین کے بیچ کاردعمل، ان کی تقرری کرنے والےکارول اور ان کے لیے سیکیورٹی کی گارنٹی دینے میں آئی کمی کو لےکر بھی رائٹرس نے لکھا ہے۔
اسٹیفن گرے، شارلوٹ گرین فیلڈ، دیوجیوت گھوشال، الاسڈیر پال اور ریڈے لیونسن کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے کسی بھی رائٹرکافیصلہ لینے کےعمل میں کوئی رول نہیں تھا، جس کی وجہ سے صدیقی اسپن بولڈک میں افغان فوج کےہمراہ رپورٹنگ پر گئے تھے۔
رپورٹ میں اس طرح کے خطرناک مقامات پر صحافیوں کو بھیجنے کو لےکرادارتی انتظامیہ پر سوال اٹھایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح کے کاموں کی نگرانی کے لیےتسلیم شدہ عہدہ خالی پڑا ہوا ہے کیونکہ ایجنسی کےکل وقتی عالمی سلامتی مشیر سال 2020 میں سبکدوش ہوئے تھے۔
انہوں نےتشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ‘صدیقی کو افغان کمانڈو کے ساتھ بھیجنے کے فیصلے میں جنوب ایشیائی مدیران کو شامل نہیں کیا گیا تھا اور اسپن بولڈک مشن کو لےکر کوئی نوٹس نہیں ملا تھا۔’رپورٹ میں افغانستان سے صدیقی کی جانب سےاہل خانہ کو بھیجے گئے پیغامات کا بھی ذکر کیا گیا تھا، جہاں وہ یہ کہتے ہوئے دکھ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں اور کسی خطرناک کام میں شامل نہیں ہوں گے۔
اس سے پہلے
نیویارک ٹائمس نے کئی ہندوستانی اور افغان حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ فوٹوجرنلسٹ دانش صدیقی کی لاش جب ملی تھی تب وہ پہچانے جانے لائق نہیں رہ گئی تھی۔وہیں‘
واشنگٹن اگزامنر’نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ حملے کے دوران صدیقی کو چھرے لگے تھے اور اس لیے وہ اور ان کی ٹیم ایک مقامی مسجد میں گئے، جہاں انہیں فرسٹ ایڈ ملا۔
حالانکہ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ ایک جرنلسٹ مسجد میں ہے، طالبان نے حملہ کر دیا۔مقامی جانچ سے پتہ چلا ہے کہ طالبان نے صدیقی کی موجودگی کی وجہ سےہی مسجد پر حملہ کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا،‘صدیقی اس وقت زندہ تھے جب طالبان نے انہیں پکڑا۔ طالبان نے صدیقی کی پہچان کی تصدیق کی اور پھر انہیں اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو بھی مار ڈالا۔ کمانڈر اور ان کی ٹیم کے باقی ممبروں کی موت ہو گئی کیونکہ انہوں نے دانش کو بچانے کی کوشش کی تھی۔’
بتا دیں کہ صدیقی کی لاش 18 جولائی کی شام دہلی لائی گئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں انہیں سپرد خاک کیا گیا تھا۔
صدیقی ممبئی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اقتصادیات میں گریجویشن کیا تھا اور 2007 میں جامعہ کے اےجےکے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر سے ماس کمیونی کیشن کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ 2010 میں رائٹرس سے جڑے تھے۔
صدیقی نے اپنی ٹیم کے دوسرے لوگوں کے ساتھ روہنگیاپناہ گزینوں کے بحران پر اپنے کام کے لیے 2018 میں پیولٹرزایوارڈ جیتا تھا۔ صدیقی نے تب
اسکرال ڈاٹ ان سے بات چیت میں کہا تھا، ایک تصویر کو لوگوں کو متوجہ کرنا چاہیے اور انہیں بنا زور کے پوری کہانی بتانا چاہیے۔ آپ خاتون کی بے بسی اور تھکاوٹ کو دیکھ سکتے ہیں، جو بادلوں کے ساتھ پس منظر میں ہو رہے واقعات کے ساتھ جوڑی گئی ہیں۔ یہی وہ فریم تھا، جسے میں دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔
رائٹرس سے پہلے صدیقی کے کام کو دی گارڈین، نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ ا اورمتعدد ہندوستانی اور بین الاقوامی اشاعتوں میں شائع کیا گیا تھا۔
سال2010کے بعد سےرائٹرس فوٹو جرنلسٹ کےطورپرصدیقی نےافغانستان اوعراق میں جنگ،روہنگیاپناہ گزینوں کےبحران ، ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامی مظاہروں اور نیپال کے زلزلےکو کور کیا تھا۔