دمن: سرکاری زمین سے بے دخل کیے جانے پر مظاہرہ کر رہے 70 لوگ حراست میں لیے گئے

دمن کے ضلع مجسٹریٹ راکیش منہاس کی ہدایت کے بعد پورے دمن میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے اور دو سرکاری اسکولوں کو عارضی جیلوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

دمن کے ضلع مجسٹریٹ راکیش منہاس کی ہدایت کے بعد پورے دمن میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے اور دو سرکاری اسکولوں کو عارضی جیلوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

فوٹو: ٹوئٹر

فوٹو: ٹوئٹر

نئی دہلی : سرکاری زمین سے بے دخل کیے جانے کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہے تقریباً 70 لوگوں کو یونین ٹریٹری دمن میں اتوار کو پولیس نے حراست میں لے لیا ۔ٹائمس آف انڈیا کے مطابق، دمن لائٹ ہاؤس اور جیمپورسمندری ساحل کے بیچ 700 میٹر کے حلقے پر بسے 120 غیر قانونی تعمیرات کو انتظامیہ نے ضلع مجسٹریٹ راکیش منہاس کی ہدایت پر گرا دیا ۔ اس قدم کی مخالفت میں وہاں کے لوگ گزشتہ دودنوں سے مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

کشمیر میں جاری پابندی کی مخالفت میں گزشتہ 21 اگست استعفیٰ دینے والے آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھ نے 3 نومبر 2019 کی ہدایت کی ایک کاپی ٹوئٹ کی ہے ۔ اس ہدایت میں دمن کے ضلع مجسٹریٹ راکیش منہاس نے نانی دمن کے بھیمپور میں واقع سرکاری ہائی اسکول  اور موتی دمن کے سرکاری ہائی اسکول کو فوری اثر سے جیل میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔گوپی ناتھ نے دمن کے ضلع مجسٹریٹ کے 3 نومبر 2019 کی ہدایت کی ایک اور کاپی ٹوئٹ کی ہے جس میں پورے دمن ضلع میں آئی پی سی کی دفعہ 144 لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔

بتا دیں کہ سابق آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن اس سے پہلے یونین ٹریٹری دادرا اور نگر حویلی اور دمن و دیومیں تعینات تھے۔

ڈی ایم آفس سے جاری حکم کے مطابق، دھرنے سے عوام کو پریشانی ہوئی اور گاڑیوں کی آمد و رفت اور دفتروں اور عوام کے روز مرہ کے کاموں پر الٹا اثر پڑا۔ 3 نومبر سے 7 دنوں کے لیے نافذ اس حکم کے مطابق،’کسی بھی پرائیویٹ ادارے یا سیاسی پارٹی کے ذریعے 5 سے زیادہ لوگوں کے دھرنے یا میٹنگ پر سخت مناہی ہے تاکہ کسی بھی نا پسندیدہ واقعہ یا لاء اینڈ آرڈر کے مسئلہ سے بچا جا سکے۔’

ٹائمس آف انڈیا کے مطابق،مظاہرے کے دونوں دن پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج اور پانی کے بوچھاریں کرنے کے بعد یہ حکم جاری کیا گیا۔دمن کلکٹریٹ کے ایک ذرائع نے بتایا،’ہم اصل میں شرپسند عناصر کی پہچان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بار شناخت ہو جانے کے بعد ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ حالات قابو میں ہیں۔’