عصمت کورک اولو نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ ایک آزاد ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فلسطین ابھی بھی اس سے کافی دور ہے۔ ہماری عمر تو بس چالیس سال ہے۔ ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ ترکیہ ہماری ضامن ریاست اور ہمارے پڑوس میں ہے۔ فلسطین کے لیے اگر کوئی بد قسمتی ہے، تو یہ ہے اس کی سرحد پر ترکیہ جیسا ملک نہیں ہے، جوان کی حفاظت کرسکتا تھا۔ ہماری بقا ہی ترکیہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بہت سے طاقتیں ہمارے وجود کے درپے تھی۔
فلسطین کے تنازعہ نے جہاں امت مسلمہ سمیت پوری دنیا کو لہو لہان کر کے رکھ دیا ہے، وہیں غزہ کے ساحل سے تین سو کلومیٹر دور قبرص کا تنازعہ بھی امن عالم کے لیے پچھلے ساٹھ سالوں سے خطرہ بنا ہوا ہے۔ دونوں متنازعہ خطے بحیرہ روم کے مشرق میں ہیں اور ایک وقت اس سمندر میں، جو بحر اوقیانوس یا بحر ظلمات کی شاخ ہے، مسلم حکمرانوں نے اپنے سنہری ادوار میں گھوڑے اور جہاز دوڑا دیے ہیں۔
ترک عثمانیہ سلطنت کے امیر البحر خیر الدین باربروسہ اور اس کے جانشینوں نے 16 ویں صدی میں اس سمندر میں ایسی دھاک بٹھائی تھی کہ جس کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔
اس سمندر میں تقریباً تمام جزائر ان کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنے تھے۔ جزیرہ قبرص کے تنازعہ کی وجہ سے 1987 سے لےکر اب تک ترکیہ اور یونان چار بار جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔ دونوں امریکہ فوجی اتحاد ناٹو کے رکن ممالک ہیں اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ہیں۔
گزشتہ 20 جولائی کو جب ترک اکثریتی آبادی پر مشتمل شمالی قبرص آزادی کی 50 ویں سالگرہ اور دوسری طرف یونانی مسیحی آبادی پر مشتمل جنوبی قبرص سوگ منا رہا تھا، تو میں نے ترکی میں شمالی قبرص کے سفیرعصمت کورک اولو سے اس مسئلہ کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے رابطہ کیا۔
ترکیہ کے ایک معروف صحافی مہمت اوز ترک کی معیت میں اگلے روز انقرہ شہر کے چنکایا ضلع میں واقع ان کے سفارت خانے پہنچ گئے۔ چونکہ آزادی کی سالگرہ کی تقریبات کے سلسلے میں وہ خاصے مصروف تھے، اس لیے انہوں نے صبح سویرے کا وقت دیا تھا۔
جب ہم سفارت خانے پہنچے، تو وہ خود ہی گیٹ پر موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں ویٹنگ روم میں بٹھایا اور ان کے پریس آفیسر بولینت ہوکسان کی آمد کے بعد اپنے کمرے میں بلایا۔ دراز قد اور تیز آنکھوں والی اس شخصیت سے میں اس سے قبل ایک سفارتی پارٹی میں ملا تھا۔
مگر ان کے وسیع المطالعہ ہونے اور ان کی ذہانت اور وسیع سفارتی تجربہ سے پہلی بار استفادہ ہونے کا موقع مل رہا تھا۔
عصمت کورک اولو کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ترکی میں اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد قبرص کی وزارت خارجہ جوائن کرنے کے بعد وہ پاکستان اور پھر بعد میں اسرائیل میں اپنے ملک کے نمائندے رہے ہیں۔ میری یاد داشت میں دوسرا ایسا کوئی سفارت کار نہیں ہے، جس نے پاکستان اور اسرائیل یعنی دو متضاد اور پھر مذہبی شناخت پر قائم ہونے والی ان منفرد مملکتوں میں پوسٹنگ کی ہو۔ وہ اگر ان ممالک میں اپنے تجربات پر مبنی یاداشت ترتیب دیتے ہیں، تو وہ بڑی دلچسپ ہوگی۔
گو کہ سبھی تنازعوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، قبرص تنازعہ کے خاکے کسی حد تک مسئلہ کشمیر سے ملتے جلتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کی طرح بحیرہ ر وم میں یہ خطہ یونان اور ترکی کے درمیان باعث نزاع بنا ہوا ہے۔
دنیا کے قدیم ترین پانی کے کنووں کے لیے مشہور قبرص کے جزیرہ پر1887 میں سلطنت عثمانیہ کی عملداری ختم ہوئی، اور برطانیہ نے قبضہ کرلیا۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں ہی جزیرہ کی مسیحی آبادی یونان کے ساتھ الحاق کرکے اس کو ضم کرنے کی کوشاں تھی۔
برطانوی مسیحی آبادی پرو ٹسٹنٹ فرقہ سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ قبرص کی آبادی یونان کی طرح آرتھوڈاکس چرچ ماننے والے عیسائیوں کی ہے۔ دوسری طرف ترک آبادی اس کو ایک آزاد مملکت کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی۔
میں نے سوالات کا آغاز کرتے ہوئے عصمت کورک اولو سے پوچھا کہ قبرص تقریباً 50 سالوں سے عالمی سطح پر ایک موضوع بنا ہوا ہے۔آخر کون اس مسئلہ کو حل ہونے سے روک رہا ہے؟
جواب شروع کرنے سے قبل انہوں نے اپنے لیے بغیر دودھ والی تلخ ترک کافی اور ہمارے لیے روایتی ترک چائے منگائی تھی، جو ان کے اسٹاف نے میز پر رکھ دی تھی۔
کافی کا کپ ہاتھ میں لےکر انہوں نے پہلے تصحیح کی کہ یہ پچاس سال پرانا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کی بنیاد 1963 میں ڈالی گئی۔ اس کی طوالت یورپی ممالک کے تعصب کی واضح نشاندہی کرتی ہے۔ قبرص نے 16 اگست 1960 کو انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ چونکہ اس کی آبادی دو بڑی مذہبی اور لسانی برادریوں یونانیوں اور ترکوں پر مشتمل تھی، اس لیے دونوں کو حکومت میں حصہ داری دینے کے لیے آئینی انتظامات کیے گئے۔ یعنی یونانی مسیحی صدر ہوگا، تو نائب صدر قبرصی مسلم ترک ہوگا۔ وزراء کی کونسل میں سات یونانی اور تین ترک ہوں گے۔ قبرص کی آزادی اور خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے برطانیہ، یونان اور ترکی کو ضامن ممالک قرار دیا گیا۔مگر تین سال بعد ہی صدر آرچ بشپ ماکاریوس نے ترک شہریوں کے اختیارات کو ختم کرنے کے لیے تحویز پیش کی، جس سے خونی فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔کئی لاکھ ترک قبرصی بے گھر ہوگئے۔
جولائی 1974 میں، قبرصی نیشنل گارڈ نے بغاوت کرکے نیکوس سمپسن کو صدر کے عہدے پر فائز کیا، جس نے یونان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کردیا اور یونانی فوج قبرص میں داخل ہوگئی۔ ترکی میں اس وقت وزیر اعظم بولنت ایجاوت، نجم الدین اربکان کی پارٹی کی حمایت سے برسر اقتدار تھے۔ انہوں نے پہلے تو اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، پھر دوسرے ضامن ملک برطانیہ سے فریاد کی۔ مگر جب کسی طرف سے جواب نہیں آیا تو 20 جولائی کو، ترک فضائیہ اور چھاتہ بردار فوج قبرص میں داخل ہوگئیں۔اگلے چار روز تک یونانی فوج نے شمال کا علاقہ خالی کرکے جنوب کی طرف پسپائی اختیار کی۔ اربکان نے پورے قبرص پر قبضہ کرنے کی وکالت کی تھی، کیونکہ یونانی فوج شکست سے دوچار ہو رہی تھی۔ مگر تب تک امریکہ نے ایجاوت کو قائل کروایا کہ فوجی کاروائی ختم کرکے اس کو گفت شنید سے حل کیا جائےگا اور اس کے لیے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرےگا۔
”اس آپریشن کے نتیجے میں جزیرہ تقسیم ہوگیا۔ تقریباً 170000 یونانی شمال سے فرار ہو کر جنوب کی طرف منتقل ہوگئے اور ان کی جگہ تقریباً 40000 ترک قبرصی جنوب سے شمال کی طرف آگئے۔مگر امریکہ کی یقین دہانی کے بعد شروع ہوئی گفت و شنید کا کوئی سرا نظر نہیں آرہا تھا۔ یونانی قبرصی تو یونان کے ساتھ ضم ہونے پربضد تھے۔ ایک مشترکہ و فاق کے اندر دو الگ الگ مملکتوں کی تشکیل پر بات چیت چل رہی تھی اور اس پر رضامندی طے پائی گئی تھی، مگر یونانی قبرص کی حکو ت عملی اقدامات اٹھانے سے گریزا ں تھے۔ جس کی وجہ سے 1983میں باضابطہ ترکش ری پبلک آف نارتھ سائپرس یعنی ٹی آر این سی کا قیام عمل میں لایا گیا“۔ اب تک ترکی فی الحال واحد ملک ہے جس نے اس کی سرکاری حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔یعنی یہ تنازعہ یونانی قوم پرست ارتھوڈاکس مسیحی نظریہ اور یونان کے ساتھ ضم ہونے بنام قبرص کے ترک نسل عوام کی آزاد رہنے کی خواہش کی وجہ سے پیدا ہوگیا۔
عصمت کورک اولو بتا رہے تھے کہ 1963میں یعنی آزادی کے تین سال بعد ہی ترک قبرصیوں کو جزیرے کے تین فیصد علاقے تک محدود کیا گیا۔ ”ہمارے شہری حقوق چھین لیے گئے۔ یہی قبرص مسئلہ کی ابتدا تھی، نہ کہ 1974کو جب ضامن ملک ترکیہ نے ہماری استدعا پر مداخلت کرکے ہمیں اپنے حقوق واپس دلوادئے۔فوجی بغاوت کے نتیجے میں ظہور پذیر ایک غیر منتخبہ حکومت کے یونان کے ساتھ الحاق کرنے کے چار روز بعد اگر ترکیہ کی افواج نے پیش قدمی نہ کی ہوتی، تو ہمارا حال آج کے غازہ سے بھی بدتر ہوتا۔“
کورک اولو، جو قبرص کے صدر کے نمائندے کی حیثیت سے 2020 میں مذاکراتی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں، سے میں نے پوچھا کہ آخر اس اس مسئلہ کے لیے کیا قابل قبول حل ہوسکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عالمی برادری اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے اور متعصبانہ بھی ہے۔ وہ جنوبی قبرص کی حکومت کو پورے قبرص کی نمائندہ حکومت تسلیم کرتے ہیں۔ یہ جنوبی قبرص کے ضد کی جڑ ہے اور وہ کسی بھی حل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، کیونکہ اسٹیٹس کوسے ان کو فائدہ ہے۔ وہ ہمارے ساتھ اقتدار میں اشتراک نہیں کرنا چاہتے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ہم نے ایک وفاق قائم کرنے کے لیے آدھی صدی تک بات چیت کی۔ مگر جیسا کہ آئنسٹائن کا قول ہے کہ ”ایک ہی کام ایک ہی طرح کرکے مختلف نتائج کی توقع رکھنا پاگل پن ہے۔“ ہم نے پچھلے 50سال تک ان کے ساتھ رہنے کے لیےیہی کیا۔ مگر اب اس کا وقت نکل چکا ہے۔ ”2004 میں یونانی قبرصی فریق نے وفاق کے سلسلے میں ساڑھے چار سال کی بات چیت کے بعد ریفرنڈم کا منصوبہ پیش کیا جس کی بین الاقوامی برادری نے توثیق کی۔ ہماری طرف کی آبادی نے 65فیصدسے اس کو منظور کیا، جبکہ78فیصد یونانی قبرصی فریق نے اس کو رد کردیا۔ مگر اس انکار کے باوجود یورپی یونین نے ان کو رکنیت دی۔ ہونا چاہیے تھا یہ رکنیت مسئلہ کو حل کرنے سے مشروط کی جاتی۔ ریفرنڈم کے نتائج کے ایک ہفتے بعد یونانی قبرصی فریق کو رکنیت دی گئی۔“
میں نے پوچھا کہ یورپی یونین کی جب تشکیل ہو رہی تھی، تو ان ممالک نے اپنے باہمی تنازعات یعنی شمالی آئر لینڈ، اٹلی اور سلواکیہ کے درمیاں ٹریسٹی تنازعہ، فن لینڈ اور سویڈن کے درمیان آلینڈ تنازعہ، فرانس اور اسپین کے درمیان انڈورا تنازعہ وغیرہ پہلے حل کیے، اور پھر اقتصادی یونین کی طرف گامزن ہوگئے، تو انہوں نے قبرص تنازعہ پر ایسا رویہ کیوں اختیار نہیں کیا؟
تو سفیر نے ایک لمبی سانس لےکر کہا کہ اسی کو ناانصافی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے اپنے چارٹر کے مطابق کوئی ملک اسی صورت میں اس کا رکن بن سکتا ہے ،جب پہلے وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سرحدی حدود کے معاملات طے کرے۔ ”انہیں یونانی قبرص سے کہنا چاہیے تھا کہ جب تک کوئی معاہدہ یا تصفیہ نہیں ہو جاتا، تب تک رکنیت کا انتظار کریں۔ یونانی قبرصی فریق کو بس اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یورپی یونین کی رکنیت سے نوازا گیا، اور ترک قبرصی فریق ابھی بھی بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہے۔“
اب کچھ عرصے سے ترک قبرص دودیاستی حل کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ترک پارلیامنٹ نے بھی ابھی حال ہی میں اس کی حمایت میں قرار دار بھی منظور کی۔ میں نے پوچھا کہ عالمی سفارت کاری میں تو اب زمینی حل کے بجائے عوامی حل کی اصطلاح چل پڑی ہے۔ کیا قبرص کے معاملے میں اس کی کوئی گنجائش ہے؟
اس سوال پر عصمت کورک اولو ابل پڑے اور کہا کہ”پچاس سال تک ہم نے ان سے اپنے شہری حقوق کی باز یابی اور پھر ایک وفاق کی تجویز پر بات چیت کی۔ وفاق پر تو سبھی نے تائید بھی کی۔ مگر انہوں نے ہی اس کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے ہی ہمیں دو ریاستی حل کو میز پر لانے پر مجبور کر دیا۔ وہ اپنے علاقے میں رہیں اور ہمیں بھی ایک اچھے پڑوسی کی طرح زندگی گزارنے دیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ جزیرے پر دو ریاستیں موجود ہیں۔اس کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس جمہوری طور پر منتخب حکومت، صدر، پارلیامنٹ، عدالتیں، علاقہ، سب کچھ ہے۔ یعنی ریاست کے جو معیار مقرر کئے گئے ہیں، وہ سبھی ہم پورا کرتے ہیں۔ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کا مطالبہ کرنا اور قبرص میں اسے مسترد کرنا یورپی یونین کی منافقت کے سوا اور کیا ہے۔قبرص کا اب دوبارہ اتحاد ممکن نہیں ہے۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر دوسرے فریق کی ضد کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ لہذا ہمیں بھی اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔“
خیر میں نے پوچھا کہ بحیرہ روم کے مشرقی خطے میں گیس کے بے شمار ذخائر دریافت ہو رہے ہیں، جن کی وجہ سے یہ خطہ تزویراتی لحاظ سے اہم بن گیا ہے۔ گزشتہ سال، نئی دہلی میں جی20 سربراہی اجلاس میں ہندوستان، اسرائیل اور یونان نے ہندوستان-مشرق وسطی اور یورپ کو ملانے والے کوریڈور بنانے کا فیصلہ کیا، جو اسرائیل کی بندرگاہ حیفہ کو قبرص کے پانیوں کے ذریعے یونانی بندرگاہوں سے جوڑتا ہے۔
اس راہداری پر آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس سے آپ کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے؟
کورک اولو نے نہایت ہی متانت کے ساتھ جواب دیا کہ ہاں ہماری خود مختاری تو متاثر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یونانی قبرصی پوری دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ وہ پورے جزیرے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 2003 میں، یونانی قبرصی فریق نے مصر، لبنان اور اسرائیل کے ساتھ یکطرفہ معاہدہ کیا، جس پر ہم نے اعتراض کیا۔اس کے جواب میں ہم نے ترکی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور گیس کی دریافت اور ڈرلنگ کے لیے ترک پٹرولیم تنظیم کے لیے شمال سے جنوب تک بلاکس مختص کر دیے۔ یہ وسائل قبرص کے دونوں خطوں کے ہیں۔ ”ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ ہمارے اور یونانی قبرصی فریق کے درمیان بحران میں تبدیل جائے۔ اسی لیے ہم نے یونانی قبرصی فریق کو قدرتی وسائل کے انتظام کے بارے میں تجاویز پیش کی ہیں، تاکہ ان کا کنٹرول مشترکہ ہو۔ لیکن یونانی قبرص نے ان کو مسترد کر دیا۔اس لیے ہم نے ترکی کی مدد سے اپنی طرف سے پھر گیس کی تلاش شروع کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے تو توانائی کمپنیوں سمیت تمام فریقین کی کانفرنس کی تجویز دی تھی، اس کو بھی مسترد کر دیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں کہ مشرقی بحیرہ روم کو امن کے سمندر میں تبدیل کیا جائے۔ہمیں امید ہے کہ ہندوستان ہماری سمندری سرحدوں اور شیلف کا احترام کرے گا۔“
انٹرویو کرتے ہوئے تقریبا ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ میں بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے سوال کیا کہ اگر آپ فلسطین کے برعکس ایک مکمل ریاست ہیں، تو پھر آپ کس چیز کی پیروی کر رہے ہیں؟
تو انہوں نے کہا کہ”ہاں ہم ایک مکمل اور جمہوری ریاست ہیں۔مگر بین الاقوامی تنہائی ہمار ا مسئلہ ہے۔ ابھی فی الحال شمالی قبرص کو ترک کونسل تنظیم اور عالمی اسلامی تنظیم میں بطور مبصر رکنیت دی گئی ہے۔ ہم تجارت اور تعلیم کے شعبوں میں دیگر ممالک کے ساتھ اشتراک کرنا چاہتے ہیں۔ شمالی قبرص کے لیے تمام پروازوں کو بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ترکی میں کم از کم ایک سٹاپ اوور کرنا پڑتا ہے، جو بڑے پیمانے پر سیاحت کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ہمارے ہاں براہ راست پرواز نہیں آسکتی ہے۔“
کورک اولو کاا سٹاف ان کو اشارے کر رہا تھا کہ وقت ختم ہو گیا ہے، مگر جاتے جاتے میں نے پوچھا کہ جب سے آپ کو ایک ریاست ملی ہے، تو کیا پایا ہے اور کیا کرنا باقی ہے؟
تو عصمت کورک اولو نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ ایک آزاد ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فلسطین ابھی بھی اس سے کافی دور ہے۔
”مگر جو چیز ہماری ترقی کو روکتی ہے وہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے مسلط کردہ تنہائی ہے۔ عالمی انسانی حقوق یکساں ترقی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عالمی برادری اس اصول کی خو د ہی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ وہ ہمیں برابری کا میدان نہیں دے رہی ہے، جو جنوبی قبرص کو حاصل ہے۔ مگر ہم جدو جہد کررہے ہیں۔ ہماری عمر تو بس چالیس سال ہے۔ ہندوستان اور ترکیہ تو صدیوں سے موجود ہیں۔ ملکوں کی تاریخ میں چالیس سال تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ ترکیہ ہماری ضامن ریاست اور ہمارے پڑوس میں ہے۔ فلسطین کے لیے اگر کوئی بد قسمتی ہے، تو یہ ہے اس کی سرحد پر ترکیہ جیسا ملک نہیں ہے، جوان کی حفاظت کرسکتا تھا۔ ہماری بقا ہی ترکیہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بہت سے طاقتیں ہمارے وجود کے درپے تھی۔“
سفارت خانے کے گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ قبرص کے حوالے سے واقعی میں کتنا بے خبر تھا اور یورپ کب اور کس وقت معروضی انداز میں معاملات کو دیکھنے کا روادار ہوگا۔مغربی ممالک تو خود تو اپنے شہریوں کو حقوق دینے میں خاصے سرگرم ہوتے ہیں، مگر باہر اتنی ہی شدت کے ساتھ خلاف ورزیاں بھی کرتے ہیں۔ اس صدی میں اب اس استعماری مائنڈ سیٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جولائی کی تپتی دھوپ سے انقرہ کی صبح جگمگا رہی تھی۔ یہی تو بس چند ماہ ہیں جب دھوپ نصیب ہوتی ہے،ورنہ، پھر وہی بادلوں سے ڈھکا ہوا طویل موسم اور منجمد کرتی سردی۔ کاش قبرص، فلسطین، کشمیر جیسے منجمد مسائل پر بھی دھوپ کی تمازت پڑتی، جس سے ان کا کوئی حل نکل جاتا، اور وہاں بسنے والے انسانوں کی قسمت بھی جگمگا اٹھتی۔