اس سال دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا یا ہلاکتیں ہوئیں: رپورٹ

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق، ایک دسمبر 2021 تک دنیا بھر میں 293صحافی اپنے کاموں کے لیےمختلف ممالک کی جیلوں میں بند تھے۔ یہ لگاتار چھٹا سال رہا، جب ڈھائی سو سے زیادہ صحافی جیل میں بند رہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق، ایک دسمبر 2021 تک دنیا بھر میں 293صحافی اپنے کاموں کے لیےمختلف ممالک کی جیلوں میں بند تھے۔ یہ لگاتار چھٹا سال رہا، جب ڈھائی سو سے زیادہ صحافی جیل میں بند رہے۔

علامتی تصویر، وکی میڈیا کامنس

علامتی تصویر، وکی میڈیا کامنس

نئی دہلی: کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے)کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک دسمبر 2021 تک دنیا بھر میں293صحافی  اپنے کاموں کے لیےمختلف ممالک کی جیلوں میں بند تھے۔ یہ لگاتار چھٹا سال ہے جب 250 سے زیادہ صحافی جیلوں میں بند رہے ہیں۔

کمیٹی کی رپورٹ، جسے اس کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹرارلین گیٹز نے لکھا ہے، میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس دوران کم از کم 24صحافی  ان کی رپورٹ کے سلسلے میں مارے گئے، جبکہ 18دوسرے ہلاک  ہوئے ہیں۔

حالانکہ ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے کہ کیا انہیں خصوصی طور پران کے کام کے لیے ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔

ان مہلوکین میں ہندوستان سے تین افراد ہیں، جس میں این این  نیوز کے اویناش جھا، جن کو حال ہی میں بہار میں میڈیکل مافیاؤں کو لےکر رپورٹ کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا، سدرشن ٹی وی کے منیش کمار سنگھ اور رائٹرس کے صحافی دانش صدیقی شامل ہیں، جنہیں طالبان نے قتل کر دیا تھا۔

سب سے زیادہ صحافیوں کو جیل میں رکھنے کے معاملے میں چین لگاتار تیسرے سال پہلے نمبر پر رہا ہے، جہاں رپورٹ کے مطابق 50صحافی جیل میں بند ہیں۔

اس کے بعد دوسرے نمبر پر میانمار میں26صحافی جیل میں بند ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس سے پہلے سال 2020 میں یہاں ایک بھی صحافی جیل میں نہیں تھا، لیکن اس سال فروری میں فوجی بغاوت  کے بعد آنگ سانگ سو کی حکومت  کو بےدخل کرنے کے بعد صحافیوں کی صورتحال مزید ابترہوئی ہے۔

اس کے بعد مصر، ویتنام اور بیلاروس کا نمبر آتا ہے۔

دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ سی پی جے کی رپورٹ میں صرف اس سال ایک دسمبر تک جیل میں بند صحافیوں کا ہی اعدادوشمار ہے، اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس پورے سال میں مجموعی طورپر کتنے لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا اور کتنے رہا ہوئے ۔

رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں اس وقت سات صحافی  جیل میں ہیں، جس میں کشمیر نیریٹر کے آصف سلطان، پربھات سنکیت کے تنویر وارثی اور پانچ فری لانسر؛ آنند تیلتمبڑے، گوتم نولکھا، منن ڈار، راجیو شرما اور صدیق کپن شامل ہیں۔

اسی طرح کئی معروف صحافیوں جیسے کہ 37 سالہ چینی صحافی ژانگ ژان، جنہوں نے کورونا وائرس کے آغاز پر چینی حکومت کے دعووں کے برعکس ووہان کے ہسپتالوں میں مریضوں کا ہجوم دکھایا، بیلاروسی صحافی رامن پراتسویچ اور کھیلوں کے صحافی اولیکسینڈر آئیولن جیلوں میں بند ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، کم از کم 17 صحافیوں کو سائبر کرائم کےالزام میں جیل میں ڈالا گیا ہے۔مغربی افریقی ملک بینن میں دو صحافیوں پر ملک کے ڈیجیٹل کوڈ کے تحت الزام لگائے گئے ہیں، جو میڈیا کی آزادی  پر ایک بڑے خطرے کےطور پر دیکھا جاتا ہے۔

ایک دسمبر تک جیل میں بند 293 میں سے 40 خواتین ہیں۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے دوران شمالی امریکہ میں کسی صحافی کو جیل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ ہندوستان میں صحافیوں کو نئے ڈیجیٹل میڈیا ضابطوں، پیگاسس اسپائی ویئر وغیرہ  کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورشیم،جس میں دی وائر بھی شامل تھا، نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعےسیاست دانوں،صحافیوں، کارکنوں اور سپریم کورٹ کے اہلکاروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کرکے ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔

اس کے تحت دی وائر نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ کس طرح 40 سے زیادہ صحافیوں کی پیگاسس کے ذریعے نگرانی کیے جانے کاامکان ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)