کشمیر کے سی پی آئی ایم رہنما اور سابق ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی پہلے ایسے کشمیری رہنما ہیں جو حراست میں رکھے جانے کے بعد دہلی آ سکے ہیں ۔ نئی دہلی واقع پارٹی صدر دفتر پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیری آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، گھٹن ہو رہی ہے وہاں۔
منگل کو نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اور محمد یوسف تاریگامی۔ (فوٹو : پی ٹی آئی
)
نئی دہلی: کشمیر کے سی پی آئی ایم رہنما اور سابق ایم ایل اے محمد یوسف تاریگامی نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں مرکز کی بی جے پی حکومت کے ان دعووں پر سوال اٹھائے جن میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد سے وہاں پر ایک بھی گولی نہیں چلی ہے۔
دی ہندو کے مطابق، سی پی آئی ایم رہنما تاریگامی نے کہا کہ پابندیوں کی وجہ سے کشمیر کے لوگ دھیرے دھیرے مر رہے ہیں۔ واضح ہو کہ، تاریگامی پہلے ایسے کشمیری رہنما ہیں جو حراست میں رکھے جانے کے بعد دہلی آ سکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے پارٹی صدر دفتر پر صحافیوں سے ملاقات کی۔انہوں نے کہا، ‘سچائی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مر رہے ہیں، گھٹن ہو رہی ہے وہاں۔ ‘
وہیں، ملک کے دوسرے حصوں سے جذباتی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم بھی جینا چاہتے ہیں، ایک کشمیری اور ایک ہندوستانی بول رہا ہے یہاں۔ یہ میری اپیل ہے، ہماری بھی سنیں، ہمیں بھی زندہ رہنے کا موقع دیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ریاست کے ساتھ کسی بھی مشورہ کے بغیر آرٹیکل 370 کو ختم کرنا اور ریاست کی تشکیل نو کرنا نریندر مودی حکومت کی ناامیدی کو دکھاتا ہے۔ ایک متوسط کشمیری جنت کی مانگ نہیں کرتا ہے، ہم صرف آپ کے ساتھ قدم ملاکر چلنے کا موقع مانگ رہے ہیں، ہمیں بھی ساتھ لے لیجئے۔
تاریگامی نے بتایا کہ انہوں نے کشمیر میں سب سے برا وقت دیکھا ہے لیکن آج جتنا پریشان محسوس کیا ہے اتنا کبھی نہیں کیا۔ 40 دنوں سے زیادہ وقت سے بند چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘وہ دہلی یا کسی دوسرے شہر میں ایک ہفتے تک ایسا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا کاروبار کیسے چلےگا، آپ کے اسکول جانے والے بچوں کے بارے میں اور ہاسپٹلوں کے بارے میں کیا ہوگا۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ کیا ذرائع ابلاغ کی سہولیات کو ٹھپ کرکے، روزانہ زندگی کو معذور کرکے، کشمیری کی پٹائی کرکے یا جیل میں ڈالکردہلی کشمیری کے ساتھ اعتماد بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج، کشمیری سیاستدان جیل میں ہیں، سرحد پار بیٹھے لوگ تالی بجا رہے ہیں کہ آپ نے وہ کر دیا جو ہم نہیں کر سکتے تھے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ کشمیری کو ہندوستان میں شامل ہونے کے لئے مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ کشمیر کے لوگوں نے دوسری طرف سے تاناشاہی کو منظور نہیں کرنے کا فیصلہ کیا اورہندوستان کی جمہوریت میں شامل ہوئے۔ ہمیں مجبور نہیں کیا گیا۔ کشمیر اور ملک کے باقی لوگوں نے بہت محنت سے جو رشتہ قائم کیا تھا آج ان پر حملہ کیا گیا ہے۔ ‘
تاریگامی نے کہا، ‘نہ تو میں غیر ملکی ہوں اور نہ ہی ڈاکٹر فاروق عبداللہ یا دوسرے کشمیری رہنما دہشت گرد ہیں۔ 4 اگست کوسرینگر میں کل جماعتی میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ڈاکٹر عبداللہ نے میڈیا کو جانکاری دی اور لوگوں سے دہشت نہ پھیلانے کی اپیل کی۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد آدھی رات کو میرے اور ڈاکٹر عبداللہ کے ساتھ تمام رہنماؤں کو نظربند کر دیا گیا۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی آرٹیکل 370 کی زیادہ تر دفعات کو ختم کرنے کو چیلنج دینے کے لئے الگ سے پی آئی ایل داخل کرےگی۔
وہیں اس دوران وہاں موجود سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہا، ‘اہم مدعا لوگوں کے ذریعہ معاش کا ہے۔ معمولات زندگی کو تباہ ہوئے 40 دن ہو چکے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب تک جاری رہےگا۔ لینڈلائن خدمات ابھی بھی مسدود تھیں۔ تاریگامی کے گھر اور پارٹی کے کئی دیگر کارکنان کے لینڈلائن کام نہیں کر رہے تھے۔ وہاں بہت سے سامانوں کی کمی ہے، خاص طورپر ہاسپٹل میں دواؤں کی بہت کمی تھی۔ ‘
غورطلب ہے کہ، 72 سالہ تاریگامی جموں و کشمیر اسمبلی کے چاربار کے ایم ایل اے ہیں۔ ان کو 5 اگست سے سرینگر واقع ان کی رہائش گاہ پر بنا کسی رسمی حکم کے گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ جب سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری یچوری کو سرینگر جانے کی دو کوششوں پر ان کو ہوائی اڈہ سے واپس لوٹنا پڑا تب یچوری نے ہائی کورٹ میں ایک ہیبئس کارپس عرضی دائر کی۔
29 اگست کو یچوری کو تاریگامی کے گھر جانے کی
اجازت دی گئی۔ اس کے بعد تاریگامی کی صحت کو لےکر یچوری کی رپورٹ پر سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ان کو دہلی لایا جائے اور ایمس میں ان کا علاج کرایا جائے۔ اس کے بعد 9 ستمبر کو ان کو ایمس میں داخل کرایا گیا۔
سوموار کو چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس اے نذیر کی عدالتی بنچ نے کہا کہ اگر ایمس میں ڈاکٹروں نے اجازت دی تو سابق ایم ایل اے کو گھر جانے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ، اس حکم میں واضح کیا گیا کہ اگر وہ سرینگر کے ایسے کسی بھی حصے میں جانے کی خواہش رکھتے ہیں جہاں پر پابندیاں نافذ ہیں تو وہ ضلع انتظامیہ کی اجازت لےکر ایسا کرنے کے لئے آزاد ہیں۔