مرکز نے سپریم کورٹ کو کہا ہے کہ اسےصحیح ویکسین پالیسی نافذ کرنے کو لےکرایگزیکٹوکی دانشمندی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی واضح طور پر اعلانیہ قومی ٹیکہ کاری پالیسی ہے ہی نہیں۔
نریندر مودی حکومت ویکسین پالیسی کے معاملے میں ابھی گھبراہٹ میں فیصلہ لینے کی طاقت گنوا بیٹھےشخص کی طرح برتاؤ کر رہی ہے۔ اصل میں اس کے پاس ابھی تک کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔صرف یہ کہہ دینا کہ 18-44عمرکے لوگوں کو ویکسین لگانے کے لیے50 فیصدی ٹیکوں کی خریداری براہ راست صوبوں اور پرائیویٹ سیکٹرکے ذریعےکی جائےگی، ایک خودمختار ملک کا اپنی جوابدہی سے
پلہ جھاڑ لینا ہے۔
ویکسین کا اسٹاک دستیاب نہیں ہے اور یہ بات ہر کسی کے ذہن صاف ہے کہ کووڈ کی تیسری اور چوتھی لہر کے حقیقی خطرے کے مد نظر ٹیکہ کاری پروگرام میں وقت کی پابندی کتنی اہم ہے۔فروری کی شروعات میں ہی عظیم پریم جی نےوزیر خزانہ کی موجودگی میں ایک بجٹ کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ مرکز کے پاس دو مہینے میں50 کروڑ لوگوں کی ٹیکہ کاری کا منصوبہ ہو۔
اس لیے کسی بھی اچھی ویکسین پالیسی کے لیے ایک متعینہ وقت کی پابندی کا ہونا پہلی شرط ہے۔ لیکن مرکز نے اگلے تین، چھ یا نو مہینے کے لیے کوئی ٹیکہ کاری ہدف سامنے نہیں رکھا ہے۔دوسری شرط یا دوسرا عنصر ہے گھریلو صلاحیت اورامپورٹ کی بنیاد پر ٹیکوں کی خریداری ۔ ہمیں اس بات کو لےکر کوئی واضح جانکاری نہیں ہے کہ یہ کام کیسے ہونے جا رہا ہے۔
مرکز نے
کہا ہے کہ ریاستی حکومتیں دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنے کےلیےآزاد ہیں۔ مہاراشٹر کچھ کروڑ ویکسین خریدنے کے لیے ماڈرنا سے بات کر رہا ہے۔اگر آدھے درجن دوسرے صوبےبھی ویکسین کا آرڈر دینے کےلیے ماڈرنا سے الگ الگ بات کرتے ہیں تو یہ یقینی طور پر بیچنے والے کے لیےکافی فائدے کا سوداہوگا۔
یہ ناکارہ اورمنقسم خریداری کی پالیسی ہندوستانی ٹیکس دہندگان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ مختصراًیہ ہے کہ یہاں بھی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
کمزور زمین پر کھڑے ہوکر ہو رہا ہے مول بھاؤ
مرکز نے سپریم کورٹ کو
کہا ہے کہ اس کوصحیح ویکسین پالیسی کونافذ کرنے کو لےکرایگزیکٹو کی دانشمندی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں واضح طور پر کوئی بھی اعلانیہ قومی ٹیکہ کاری پالیسی ہے ہی نہیں۔
صوبوں کو 18 سے 44 سال کے عمر کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے ٹیکے کی قیمتوں اور کل ٹیکوں کو لےکر مول بھاؤ کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے اور اس بات کو لےکر کوئی واضح نظریہ نہیں ہے کہ اگلے تین مہینے میں، جس کے بعد کووی شیلڈ اور کو ویکسین کی تیاری میں اضافے کی امید کی جا رہی ہے، کتنے ٹیکےدستیاب کرائے جائیں گے۔
جولائی کے اواخر تک ملک کو
فی مہینے7 کروڑ ویکسین کی تیاری کی گھریلو صلاحیت سے ہی کام چلانا پڑےگا۔ گھریلوصلاحیت کی بنیاد پر دیکھیں تو جولائی میں زیادہ صلاحیت حاصل ہونے سے پہلے ہر دن 20 لاکھ سے تھوڑے زیادہ ویکسین کی خوراک لگائی جا سکتی ہے۔
جولائی سے درآمد کی جانے والی سپتنک ویکسین بھی مئی کے تیسرے مہینے سے ٹیکہ کاری کے لیےدستیاب ہونے کاامکان ہے۔ لیکن اس کی تعداد کا کوئی اندازہ کمپنی کی طرف سے نہیں دیا گیا ہے۔ یہ شاید سرکار کی جانب سے طے کی گئی قیمت پر منحصر کرےگا۔
یہ صاف ہے کہ سرکار کمزور زمین پر کھڑی ہوکر مول بھاؤکر رہی ہے، کیونکہ اس نے جنوری سے اب تک چار مہینے گنوا دیے ہیں، جب یہ گھریلو کمپنیوں کو بہتر قیمت پر ٹیکے کا بڑا آرڈر دے سکتی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ مرکز اور سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کووی شیلڈ کی شروعاتی کھیپ کے لیے فی ڈوز 150 روپے کی قیمت طے کر سکے تو اس کی ایک وجہ یہی تھی کہ اس وقت مہاماری اتنی خطرناک نہیں لگ رہی تھی اور سرکار ریگولیٹری منظوری کی رفتار تیز کرتے ہوئے جوکھم شیئر کر رہی تھی۔
آج حالات کافی بدل گئے ہیں اور مرکز نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دےکریہ قبول کیا ہے کہ ‘ناگزیز’ اور‘غیرمعمولی حالات’کی وجہ سے اس نے ایک ایسی پالیسی بنائی ہے جس کے تحت صوبوں کو ہندوستان اوردوسرے ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ ویکسین کی قیمتیں طے کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
جو بات حلف نامے میں صاف طورپرنہیں لکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آج دوسری لہر سے پیدا ہوئی حالت کی وجہ سے ویکسین بنانے والوں کے پاس اپنی شرطیں منوانے کی زیادہ طاقت ہے۔کورونا وائرس کی دو لہروں کے بیچ نسبتاً پرسکون دور میں مرکز کے پاس آج کے مقابلے مول بھاؤ کرنے کے بہتر اختیارات تھے۔
مرکز نے اپنے حلف نامے میں یہ قبول کیا ہے کہ وہ قیمتوں کویقینی بنانےوالا قانون نہیں نافذ کر سکتی ہےکیونکہ ملک میں پروڈکشن کی ایک تسلی بخش سطح کو بنائے رکھنے کے لیے قیمتوں میں فرق اور آپسی مقابلہ کی ضرورت ہے۔ اس طرح مرکز نے ایک بار پھر قبول کیا ہے کہ دوسری لہر کے مد نظر کمپنیوں کے پاس مول بھاؤ کی زیادہ قوت ہے۔
کم قیمتوں کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت
مرکزی حکومت اس آفت سے کیسے نمٹےگی؟ اس کا ایک راستہ یہ ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومت ساتھ مل کر کام کریں اور اگلے نو مہینوں میں ایک ارب سے زیادہ خوراکوں کی فراہمی کے لیے قیمتوں میں چھوٹ حاصل کریں۔
ہرصوبے کے ذریعےالگ الگ ویکسین سودا کرنے سے سرکار کی مول بھاؤ کی اجتماعی قوت کم ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ مرکز اور ریاستی سرکاریں سنگل ونڈو سے ویکسین کی خریداری کریں اور صوبےمرکز سے اپنا حصہ لے لیں۔
اگر دوسری لہر کچھ ہفتوں میں اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو مرکز اور ریاستی حکومتیں ممکنہ تیسری لہر کے آنے سے پہلے مول بھاؤ کی اپنی تھوڑی سی قوت پھر سے حاصل کر سکتی ہیں۔ اس کے کارگر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مرکز اپنی پالیسی کو لے کر واضح اعلان کرے۔
ابھی تک واحد پالیسی یہ نظرآرہی ہے کہ 18 سے 44 سال کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کروانے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کی ہے۔
نومبر،2020 سے اپریل،2020 کے بیچ ہندوستان کی ویکسین پالیسی کے گڑبڑجھالے کے ذمہ دار اکیلےوزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔ وہ اس ذمہ داری سے بھاگ نہیں سکتے۔وہ اب ریاستی حکومتوں کو ساتھ لےکر80-90 کروڑ ہندوستانیوں کے لیےپبلک ہیلتھ سینٹروں کے ذریعے مفت ٹیکہ کاری کا باقاعدہ اعلان کرکے اس بگڑے ہوئے حالات کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔
ایک قومی ٹیکہ کاری پروگرام کے ریگولیشن کے معاملے میں مرکز اور صوبے الگ الگ بکھری ہوئی اکائیوں کے طور پر کام نہیں کر سکتے ہیں۔سرکار(مرکز اور ریاستی حکومتیں)کو ویکسین کی سب سے اچھی قیمت کے لیے ایک اکائی کے طور پر کام کرنا چاہیے، حالانکہ ٹیکہ کاری پروگرام کو ڈی سینٹرلائز کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکہ کاری پالیسی کو سیاسی فٹ بال میں تبدیل کرنے کی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اور یہ یقینی بنانابنیادی طور پر مرکز کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر لوگوں کی زندگی اور ان کے روزگار کی حفاظت کرنی ہے تو یہ بالکل ضروری ہے۔
بڑھایا جائے کو ویکسین کاپروڈکشن
ضروری ہے کہ وزیر اعظم اب بغیر کوئی وقت گنوائے چیزوں کی ترجیحی فہرست تیار کریں۔ ان کا بچاؤ کرنے والے انہیں پیٹنٹ چھوٹ اور ہندوستان میں ویکسین کی بڑے پیمانے پرتیاری کے پیروکار کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔
لیکن اس میں وقت لگےگا کیونکہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے مذاکرے بے حدپیچیدہ ہوتے ہیں اور دانشورانہ املاک کی چھوٹ سے تیاری کے مرحلے تک جانا آسان نہیں ہےجب تک کہ
ٹکنالوجی اور مینوفیکچرنگ کے عمل کو بھی شیئر نہ کیا جائے۔
فی الحال جس چیز کی فوراًضرورت ہے وہ ہے اگلے چھ مہینے میں ہندوستان کی ایک بڑی اور اہم آبادی کے لیےخاطر خواہ ٹیکہ دستیاب کرانا۔
اگر ہمیں اس سال کے اواخر تک ملک کے 80-90 کروڑ لوگوں کو ویکسین کا ڈبل ڈوز لگوانا ہے تو ہمیں ہر دن تقریباً80 لاکھ سے ایک کروڑ ٹیکہ کاری کرنی پڑےگی۔ یہ ناممکن نہیں ہے بشرطیکہ ہر کوئی مل کر کام کرے۔
کچھ
وزرائے اعلیٰ نے وزیر اعظم مودی سے درخواست کی ہے کہ کچھ پبلک سیکٹر کی اکائیوں سمیت کئی پرائیویٹ ہندوستانی کمپنیوں کو جن کے پاس استعمال میں نہیں آ رہی صلاحیت ہے لائسنس دےکر کو ویکسین کا پروڈکشن تیزی سے بڑھایا جائے۔
کو ویکسین کو بڑھانا آسان ہے کیونکہ کو ویکسین میں استعمال ٹکنالوجی کا فروغ انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ اور بھارت بایوٹیک نے مل کر کیا ہے۔
غورطلب ہے کہ امریکہ کے
ڈاکٹرفاؤچی نے کو ویکسین کو ڈبل میوٹنٹ وائرس کے خلاف بھی مؤثر بتایا ہے۔ حقیقت میں بھارت بایوٹیک نے پہلے ہی پروڈکشن بڑھانے کے لیے نجی اور پبلک سیکٹرکی کئی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری شروع کر دی ہے۔
اگلے تین مہینوں کے اندر ایک اسپیشل ٹکنالوجی ٹرانسفر لائسنس کے تحت کئی ویکسین بنانے والوں کومتحرک کرکے اس قواعد کو کئی گنا بڑھانے اورجنگی پیمانے پرتیز کرنے کی ضرورت ہے۔اگست تک کو ویکسین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھاکر فی ماہ ڈیڑھ کروڑ تک کرنے کے لیےمرکز اور ریاستی سرکاروں کو ساتھ مل کر کام کرنے سے کوئی نہیں روک رہا ہے۔
مرکز کو ایک متعینہ وقت کی پابندی کے ساتھ ایک واضح ویکسین پالیسی کا خاکہ پیش کرکے اس سمت میں شروعات کرنی چاہیے۔ سب سے زیادہ اہمیت ہے وقت کی، کیونکہ وقت زندگی اورروزگاربچانے کے ساتھ لازمی طور پروابستہ ہے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)