کووڈ 19: امریکہ نے اپنے شہریوں کو ہندوستان سفر نہیں کرنے کی صلاح دی

ہندوستان میں کورونا وائرس کے معاملوں میں بے تحاشہ اضافہ کے مدنظر برٹن نے بھی ہندوستان کو ان ممالک کی‘سرخ فہرست’ میں ڈال دیا،جس کے تحت برٹش اور آئرش شہریوں کے علاوہ وہاں آنے والے دیگر لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی ہندوستان کا اپنامجوزہ دورہ رد کر دیا ہے۔ ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ بھی ہندوستان کےسفر پر پابندی لگا چکے ہیں۔

ہندوستان میں کورونا وائرس کے معاملوں میں بے تحاشہ اضافہ  کے مدنظر برٹن نے بھی ہندوستان کو ان ممالک کی‘سرخ فہرست’ میں ڈال دیا،جس کے تحت برٹش اور آئرش شہریوں کے علاوہ وہاں آنے والے دیگر لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔وزیر اعظم  بورس جانسن نے بھی ہندوستان کا اپنامجوزہ دورہ  رد کر دیا ہے۔ ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ بھی ہندوستان کےسفر پر پابندی  لگا چکے ہیں۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: امریکہ نے اپنے شہریوں کو صلاح دی ہے کہ وہ  ہندوستان میں کورونا وائرس کا انفیکشن  بہت زیادہ  پھیلنےکی وجہ سے وہاں کا سفر کرنے سے بچیں۔

سینٹر فار ڈیزیزکنٹرول اینڈ پریونشن(سی ڈی سی)نے گزشتہ سوموار کو اس سلسلے میں ایڈووائزری جاری کی۔ امریکہ،سائنس پر مبنی ٹریول ہیلتھ نوٹس جاری کرکے اپنے شہریوں کو دنیابھر میں صحت سے متعلق  خطروں کی جانکاری دیتا ہے اور انہیں خود کومحفوظ  رکھنے کے لیے صلاح دیتا ہے۔

امریکہ نے کووڈ 19سے متعلق سفری مشاورت کے لیے چاردرجےکا نظام  اپنایا ہے اور حالیہ ایڈوائزری میں ہندوستان کو ‘لیول فور: کووڈ 19 کے اعلیٰ ترین سطح ’میں رکھا گیا ہے۔محکمہ  نے سوموار کو کہا، ‘کووڈ 19 مسافروں  کے لیے غیرمتوقع  خطرہ  بنا ہوا ہے۔’سی ڈی سی نے امریکی عوام سے ہندوستان کاسفر نہیں کرنے کی اپیل کی ہے۔

اس نے ایک بیان میں کہا، ‘مسافروں  کو ہندوستان میں ہر طرح  کےسفر سے بچنا چاہیے۔ ہندوستان میں موجودہ حالات کی وجہ سے ٹیکہ کاری کرا چکے مسافروں  کے بھی کووڈ 19 کی مختلف صورتوں  سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔’

سی ڈی سی نے کہا، ‘اگر آپ کے لیے ہندوستان جانا ضروری  ہے، تو سفر سے پہلے ٹیکہ کاری  ضرور کرائیں۔ تمام مسافروں کو ماسک پہننا چاہیے،دوسرے لوگوں سے چھہ فٹ کی دوری رکھنی چاہیے، بھیڑ سے بچنا چاہیے اور اپنے ہاتھ دھونے چاہیے۔’

سی ڈی ایس نے یہ بھی کہا، ‘اگر مکمل طور پرآپ کی  ٹیکہ کاری ہو چکی ہے، تب آپ کو امریکہ چھوڑنے پر پہلے ٹیسٹ کرانے کی تب تک ضرورت نہیں جب تک کہ جہاں آپ جا رہے ہیں، وہاں ایسی کوئی ضرورت نہ ہو۔ اس کے علاوہ امریکہ واپس آنے کے بعد آپ کو سیلف کورنٹائن ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔’

اس سے پہلے برٹن نے ہندوستان کو سوموار کو ان ممالک کی‘سرخ فہرست’ میں ڈال دیا، جس کے تحت برٹش اور آئرش شہریوں کے علاوہ وہاں آنے والے دیگر لوگوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ساتھ ہی دوسرے ملکوں سے لوٹے برٹش لوگوں کے لیے ہوٹل میں 10 دن تک کورنٹائن میں رہنالازمی کر دیا ہے۔

اس سے کچھ گھنٹے پہلے برٹن کے پی ایم او ڈاؤننگ اسٹریٹ نے ہندوستان میں کورونا وائرس کے معاملوں میں بے تحاشہ اضافے کے مد نظر اگلے ہفتےہونے والی وزیر اعظم  بورس جانسن کے دورےکو رد کرنے کا اعلان  کیا تھا۔

اس سے پہلے بورس جانسن نے جنوری میں مجوزہ ہندوستان کا دورہ رد کر دیا ہے۔ جانسن کو 26 جنوری کو یوم جمہوریہ پریڈ کے لیے مہمان خصوصی  کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

دراصل اس وقت برٹن میں نئی طرح کاکورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا، جس کے مد نظر وزیر اعظم  جانسن نے کہا تھا کہ ان کا برٹن میں رہنا زیادہ اہم  ہے تاکہ وہ وائرس کے روک تھام کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر سکیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ18 اپریل کو وائرس کے نئے اقسام ملنے کے بعد ہانگ کانگ نے بھی ہندوستان سے آنے والی اڑانوں پر پابندی  لگا دی ہے۔ نیوزی لینڈ بھی انفیکشن کی وجہ سےہندوستان کے سفر پر پابندی  لگا چکا ہے۔

ہندوستان میں ایک دن میں کورونا وائرس انفیکشن  کے 259170 نئے معاملے سامنے آنے کے بعد ملک میں اب تک انفیکشن کے کل معاملوں کی تعداد بڑھ کر 15321089 ہو گئی، جن میں سے 20 لاکھ سے زیادہ  لوگ زیر علاج ہیں۔ وزارت صحت  کے مطابق، گزشتہ ایک دن میں ریکارڈ 1761 اور لوگوں کی موت ہونے کے بعدکل مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 180530 ہو گئی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

مہاتما گاندھی کا مودی کو خط: تم غزہ پر چُپ کیوں رہے؟

اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے، تو فلسطین جیسی مظلوم قوم کے تئیں ہندوستان کی خاموشی پر کیا کہتے؟ یہاں راجیہ سبھاممبرمنوج کمار جھا گویا  گاندھی کی روح کو لفظوں کا پیرہن عطا کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔تصویر بہ شکری:پی آئی بی/السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر

مہاتما گاندھی کو رخصت ہوئےعرصہ بیت چکا ہے، لیکن ہندوستان کی سیاست میں ان کی اہمیت روز افزوں ہے۔ ان کی تعلیمات عالمی سیاست کے تناظر میں آج بھی صدگونہ اہمیت کی حامل ہیں۔ راجیہ سبھا ممبر منوج کمار جھا نے مہاتما گاندھی کےنظریے سے یہ خط وزیر اعظم نریندر مودی کے نام لکھتے ہوئے پوچھا ہے کہ ‘اجتماعی درد اور اذیت  کے سامنے کیا خاموشی کبھی غیر جانبدار ہو سکتی ہے؟’

عزت مآب جناب نریندر مودی جی،

میں آپ کو کسی تاریخی شخصیت کے طور پر نہیں اور نہ ہی مہاتما کے طور پر یہ خط لکھ رہا ہوں ۔ امید ہے کہ آپ میرے الفاظ کو اخلاقی ضمیر کی آواز کے طور پر پڑھیں گے، جس نے جدوجہد، قربانی اور خود شناسی کے دور میں  طویل عرصے تک ہمارے ملک کی رہنمائی کی۔ سچائی، عدم تشدد، رحمدلی اور انصاف کے ساتھ ہندوستان کا رشتہ تاریخ کی یادگار محض نہیں ہے۔ یہ اقدار ہماری تہذیب و ثقافت کے  لازمی اور زندہ اخلاقی کردار (ایتھوس) ہیں۔ یہ دنیا کے ساتھ ہمارے معاملات میں تہذیبی رہنما ہیں۔

میرا اور آپ کا ملک، جس نے عدم تشدد اور اخلاقی مزاحمت کے دم پر اپنی آزادی حاصل کی تھی، آج مظلوموں کی تکلیف پر تذبذب کا شکار ہے اور خاموش ہے۔ میں انتہائی تشویش کے ساتھ فلسطین کے سوال پر ہندوستان کے موقف میں قابل ذکر تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔ سچ کہوں تو بہت پریشان بھی ہوں۔ فلسطینی کاز کے لیے ہندوستان کی تاریخی حمایت کبھی بھی خارجہ پالیسی کی سہولت کا معاملہ نہیں تھا۔

تاریخی طور پر ہندوستان ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ جنگ کا نہیں، بلکہ امن کا حامی  رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ، جیسا کہ گزشتہ 12 جون کو اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے تناظر میں دیکھا گیا، ہندوستان کے دیرینہ تہذیبی اخلاق اور تاریخی سفارتی موقف سے کافی الگ تھا۔ یہ ایک ایسے وقت میں اخلاقی خاموشی ہے جب دنیا انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں، آپ کے پیش رو وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو عدم تشدد، نوآبادیاتی قوم کے ساتھ یکجہتی اور فلسطین کی جائز خواہشات کی مستحکم حمایت پر استوار کرنے کی کوشش کی۔

بارہ جون 2025 کو جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ نہ صرف ہمیں عدم تشدد اور انصاف کی تہذیبی اقدار سے دور کرتا ہے بلکہ اقوام کے درمیان اخلاقی رہنما کے طور پر ہماری ساکھ کو بھی مجروح کرتا ہے۔ یہ ہماری تہذیبی ذمہ داری ہے کہ نفع و نقصان کے ترازو کو ایک جانب رکھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہوں جو اب بھی اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تزویراتی اتحاد یا معاشی فوائد کے حصول کے لیے اس روایت سے دور جانا یہ بھول جانا ہے کہ ہم بحیثیت فرد کون ہیں اورایک قوم کے طور پر ہماری تاریخ نے ہمارے کندھوں پر کس طرح  کی ذمہ داری ڈالی ہے۔

حال ہی میں میری زندگی کے آخری سالوں کے تناظر میں مانس فراق بھٹاچارجی (گاندھی:دی اینڈ آف نان  وائلنس) کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ ہم سچائی، عدم تشدد اور صوابدیدکی بنیاد پر کس طرح بڑے سے بڑے بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ سیاسی طاقت پر اخلاقی جرأت غالب آنی چاہیے تاکہ ہماری پالیسیاں خواہ وہ ملکی معاملات ہوں یا خارجہ پالیسی اس ملک کی تہذیب اور آئین کے مطابق طے کی جانی چاہیے۔

برا نہ مانیےگا، لیکن آپ کو خودسے پوچھنا چاہیے؛ کیا اجتماعی درد اور اذیت کےسامنے خاموشی کبھی غیر جانبدار ہوسکتی ہے؟

میں آپ کو عاجزی کے ساتھ لیکن مضبوطی سے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آزادی سے بہت پہلے میں نے اس عقیدے کا اظہار کیا تھا کہ ‘فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے جس طرح انگلستان انگریزوں کا یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے’۔ میرے الفاظ کسی برادری کے خلاف دشمنی سے نہیں بلکہ انصاف کے لیے غیرمتزلزل وابستگی  متاثر تھے۔

آپ اور آپ کے وزیر خارجہ جئے شنکر جی یہ دلیل پیش کر سکتے ہیں کہ وقت بدل گیا ہے۔ لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں – کیا سچ بدل گیا ہے؟ کیا ہمدردی غیر متعلق ہو گئی ہے؟ کیا ہندوستان کی اخلاقی آواز اور اس سے پیدا ہونے والی اخلاقی قوت پر بات چیت کا امکان ختم ہو گیا ہے؟

فلسطینی عوام کی مظلومیت – ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت، اپنے ہی گھر سے بے دخل ہونا، دن رات آسمان و زمین سے برستی آگ ، ان کے گھروں اور خوابوں کی تباہی – غیر جانبداری نہیں بلکہ اخلاقی وضاحت کا تقاضہ کرتی ہے۔

آپ اکثر اپنے غیر ملکی دوروں پر کہتے ہیں کہ میں یدھ (جنگ) سے نہیں بدھ کی سرزمین سے آیا ہوں۔ اس لیے میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار سنجیدگی سے جائزہ لیں کہ گزشتہ دنوں میں ہماری خارجہ پالیسی کا حاصل کیا رہا ہے۔ ایک ایسی قوم جو ‘ وسودھیو کٹمبکم ‘ کے راستے پر چلنے کا دعویٰ کرتی ہے، جب اس عالمی خاندان کا ایک حصہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو اور روزانہ تشدد کا شکار ہو تو وہ کیسے آنکھیں بند کر سکتی ہے؟

جارح اسرائیلی حکومت کے خلاف مضبوط اخلاقی موقف اختیار کرنے میں ناکامی نہ صرف فلسطینی بحران کو مزید گہرا کرے گی بلکہ پورے علاقائی توازن کو بھی بگاڑ دے گی۔ جب ایشیا اور عرب دنیا کے ممالک اپنی تہذیبی ذمہ داری سے منہ موڑ لیتے ہیں تو وہ انجانے میں مغربی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ عالمی جنوب کی آزاد آواز دب جاتی ہے اور وہ ایک بار پھر انہی سامراجی قوتوں کی مرضی پر ناچنے پر مجبور ہوجاتا،جن سے ہم نے کبھی آزادی حاصل کی تھی۔

میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین پر ہندوستان کے موقف کو ایک بار پھر اس کے تہذیبی کردار سے جوڑیں – ایک ایسا کردار جو طاقتور کے ساتھ نہیں بلکہ لاچاروں کے ساتھ کھڑا ہو۔ قبضہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں، مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہو۔ تاریخ نہ صرف یہ یاد رکھے گی کہ ہندوستان دنیا میں کس طرح نمایاں ہوا بلکہ یہ بھی یاد رکھے گی جب انصاف کی پکار ہوئی  توہندوستان کیسے کھڑا ہوا۔

میں اس قوم کی ابدی روح میں ہمیشہ امید کے ساتھ رہوں گا۔

آپ کا،

موہن داس کرم چند گاندھی

جون 2025

منوج کمار جھا راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔

Next Article

گجرات حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ مسلم تاجر ہندو علاقے میں اپنی دکان کھول سکیں: ہائی کورٹ

وڈودرا کے ہندو اکثریتی علاقے میں ایک مسلمان تاجر نے دکان خریدی تھی، لیکن اسے کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو یہ یاد دلاتے ہوئے  کہ امن و امان برقرار رکھنا اس کا فرض ہے، مسلم تاجر کے مسئلے کو حل کرنے کی ہدایت دی ہے ۔

علامتی تصویر: پی ٹی آئی

نئی دہلی: گجرات ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو یاد دلاتے ہوئے کہ امن و امان برقرار رکھنا اس کا فرض ہے، حکام کو ہندو اکثریتی علاقے وڈودرا میں اپنی قانونی ملکیت والی دکان سے کاروبار کرنے میں مسلم تاجر کودرپیش پریشانی کا ازالہ کرنے کی ہدایت دی  ۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس ایچ ڈی سوتھار کی بنچ کی طرف سے دیا گیا یہ حکم درخواست گزار اونالی ڈھولکا والا کو راحت کی خبر لے کر آیا ہے، جنہیں مبینہ طور پر مقامی لوگوں کی طرف سے مسلسل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ہے، کیونکہ انہوں نے انہیں اپنی دکان کھولنے منع کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، درخواست گزار نے 2016 میں چمپانیر دروازہ کے قریب دو ہندو بھائیوں سے دکان قانونی طور پر خریدی تھی۔ تاہم، وہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد ہی 2020 میں سیل ڈیڈ رجسٹر کروا سکے، کیونکہ یہ علاقہ گجرات میں غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی کی ممانعت اور ڈسٹربڈ ایریازمیں کرایہ داروں کی بے دخلی کے قانون ، 1991(ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ) کے تحت آتا ہے، جو جائیداد کے لین دین پر پابندی لگاتا ہے اور لین دین کے لیے ضلع کلکٹر کی اجازت کو لازمی بناتا ہے۔

دریں اثنا، انہیں دکان کے پڑوسیوں کی طرف سے مسلسل مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، کچھ مقامی لوگوں نے ایک مسلمان کو جائیداد کی فروخت کو چیلنج کیا  تھااور اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ کسی مسلمان کو علاقے میں جائیداد خریدنے کی اجازت دینا پولرائزیشن کا باعث بن سکتا ہے اور آبادی کا توازن بگڑ سکتا ہے۔

فروری 2023 میں ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو مسترد کر دیا اور اور اس طرح کے اعتراض کو ‘پریشان کن’ قرار دیتے ہوئے دونوں فریقین میں سے ہر ایک پر 25000 روپے کا جرمانہ عائد کیا،کوں کہ مالک کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور اس کی خریدی ہوئی جائیداد کو استعمال کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی خارج کر دی گئی۔

تاہم، مقامی لوگوں نے پھر بھی ڈھولکا والا کو دکان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے مبینہ طور پر دکان کے گیٹ پر ملبہ ڈال دیا تاکہ یہ  کھل نہ سکے۔

انہوں نے ایک بار پھر ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور پولیس تحفظ طلب کیا تاکہ وہ دکان کی عمارت کی مرمت کر واسکیں اور احاطے سے کاروبار کر سکیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ انہوں نے کئی بار پانی گیٹ پولیس سے تحفظ کا مطالبہ کیا، لیکن مبینہ طور پر کوئی مدد نہیں ملی۔

ان کے کیس کی سماعت کرنے کے بعد جسٹس ایچ ڈی سوتھار نے کہا، ‘مقدمہ کے حقائق اور ضمیمہ-اے میں درخواست گزار کی شکایت پر غور کرتے ہوئے متعلقہ جواب دہندہ اتھارٹی کو قانون کے مطابق درخواست گزار کی شکایت کا ازالہ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے، کیونکہ امن و امان کو برقرار رکھنا ریاست کا فرض ہے۔ اگر کوئی منفی نتیجہ نکلتا ہے، تو درخواست گزار مناسب فورم کے سامنے مناسب کارروائی دائر کرنے کے لیے آزاد ہیں۔’

Next Article

ڈونالڈ ٹرمپ کا ’جنگ بندی‘ کا دعویٰ؛ ایران نے تصدیق کی، اسرائیل اب بھی خاموش

ایران کے امریکی ایئربیس پر حملے کے چند گھنٹے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔ ایران نے اس کی تصدیق کی ہے، لیکن اسرائیل کی خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا ہے کہ ابھی تک کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ (تصویر بہ شکریہ: وہائٹ ہاؤس)

نئی دہلی: ایران کی جانب سے قطر میں امریکی فضائیہ کے اڈے پر حملے کے چند گھنٹے بعد  امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران اور اسرائیل ‘مکمل جنگ بندی’ پر رضامند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ایران نے اس جنگ بندی کی تصدیق کی ہے، تاہم اسرائیل کی جانب سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا، ‘سب کو مبارکاد!’ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک ‘اپنا آخری مشن مکمل کرلینے کے بعد’ جنگ بندی پر عملدرآمد کریں گے۔

ٹرمپ نے لکھا، ‘ایران باضابطہ طور پر پہلے جنگ بندی کا آغاز کرے گا، اور بارہویں گھنٹے پر اسرائیل بھی جنگ بندی شروع کرے گا، اور چوبیسویں گھنٹے پر دنیا اس 12 روزہ جنگ کے باضابطہ خاتمے کو سلام کرے گی۔’

انہوں نے مزید لکھا، ‘یہ فرض کرتے ہوئے کہ سب کچھ ٹھیک سے چلے گا – جو کہ چلےگا ہی – میں اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے صبر، ہمت اور دانشمندی کا مظاہرہ کرنے پر اسرائیل اور ایران دونوں ممالک کو مبارکباد دینا چاہوں گا۔ اس جنگ کو ‘دی 12 ڈے وار’ کہا جانا چاہیے۔

روئٹرزکی رپورٹ کے مطابق، ڈونالڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات کی اور ان کی ٹیم ایرانی حکام سے رابطے میں  تھی۔

ٹرمپ نے ایک اور پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل اور ایران تقریباً ایک ہی وقت میں ان کے پاس آئے اور امن کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے لکھا، ‘اسرائیل اور ایران تقریباً ایک ہی وقت میں میرے پاس آئے اور کہا – ‘امن!’ میں جانتا تھا کہ وقت آگیا ہے۔ دنیا اور مشرق وسطیٰ ہی حقیقی فاتح ہیں! دونوں ممالک  کواپنے مستقبل میں بے پناہ محبت، امن اور خوشحالی ملے گی۔ ان کے پاس حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے ،اور اگر وہ حق اور راستی کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں تو بہت کھونے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ اسرائیل اور ایران کا مستقبل لامحدود ہے… گاڈ بلیس!’

تاہم اسرائیل نے ابھی تک ٹرمپ کے اعلان کی تصدیق نہیں کی ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے میزائل حملے بدستور جاری ہیں اور ان میں تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حملے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے طور پر ہوئے ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب ایران نے منگل کی صبح سرکاری ٹیلی ویژن پر جنگ بندی کا باضابطہ اعلان کیا۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اس رپورٹ کے شائع ہونے سے دو گھنٹے قبل ایکس پر لکھا  کہ ابھی تک جنگ بندی پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے لکھا،’جیسا کہ ایران نے بارہا واضح کیا ہے؛ جنگ اسرائیل نے ایران کے خلاف شروع کی تھی، نہ کہ ایران نے اسرائیل پر۔ اب تک کسی جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کو روکنے کا کوئی ‘معاہدہ’ نہیں ہوا ہے۔ تاہم، اگر اسرائیلی حکومت تہران کے وقت کے مطابق صبح 4 بجے تک ایرانی عوام کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحیت بند کر دیتی ہے، تو ہمارا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘ہماری فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔’

عراقچی نے ایک اور ایکس پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیلی جارحیت کو سزا دینے کے لیے ایران کا فوجی آپریشن ‘صبح 4 بجے تک، آخری لمحے تک’ جاری رہا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘میں اپنی بہادر مسلح افواج کا شکریہ ادا کرنے میں تمام ایرانیوں کے ساتھ شامل ہوں، جو اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنے پیارے ملک کے دفاع کے لیے تیار ہیں، اور جنہوں نے دشمن کے ہر حملے کا آخری دم تک جواب دیا’۔

بتادیں کہ قطر میں امریکی ایئربیس پر ایران کا حملہ امریکہ کی جانب سے ایران کے تین جوہری اڈوں پر میزائل حملے کے جواب میں ہے۔ اس سے قبل اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ایران پر حملہ کیا تھا جس کے بعد یہ سارا تنازعہ شروع ہوا تھا۔

Next Article

اسرائیلی حملوں کے درمیان ایران میں پھنسے ہندوستانی طلباء  نے سنائی دہشت کی کہانی

ایران میں زیر تعلیم ہندوستانی طلباء نے بتایا کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں کے بعد تہران میں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ طلبہ نے بتایا کہ اس کشیدہ ماحول میں ہندوستانی سفارت خانے  نے طلبہ کی بہت مدد کی۔

ایران  کے تہران میں سنیچر کومبینہ اسرائیلی حملے کے بعد تیل ذخیرہ کرنے کے مرکز سے اٹھتادھواں ۔ (تصویر: اے پی/پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 25 سالہ ثانیہ مہدی 14 جون کی رات اپنے اپارٹمنٹ میں تھیں، جب انہوں نے دور سے زور دار آوازیں سنیں۔ انہوں نے کہا،’میں نے سوچا کہ شاید یہ پٹاخے ہیں۔’ انہیں ایسا اس لیے لگا کہ تہران میں ایک تہوار کی شروعات  ہوئی تھی۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا،’لیکن پھر آوازیں تیز ہوتی چلی گئیں، اور آسمان پر بجلی جیسی چمکدارروشنی نمودار ہونے لگی ۔’

ایران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس میں زیر تعلیم ہندوستانی طالبہ ثانیہ کے مطابق، انہوں نے گزشتہ چار سالوں میں یہ آوازیں کبھی نہیں سنی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ 1500سے زیادہ ہندوستانی طلباء ایران میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کیونکہ یہاں تعلیم نسبتاً سستی ہے اور اس کے نصاب کو حکومت ہند سے منظوری حاصل ہے۔ اس کی وجہ سے طلباء ایف ایم جی ای کا امتحان پاس کر کے ہندوستان میں پریکٹس کر سکتے ہیں۔ طلباء کے مطابق، یہ ہندوستان یا بنگلہ دیش کے پرائیویٹ کالجوں کے مقابلے کافی سستا ہے۔

تہران پر حملہ ہوا ہے

جب آوازیں بڑھنے لگیں تو ثانیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ یہ پٹاخے کی آوازنہیں آسمان پر چمکنے والی کوئی اور چیز تھی۔ ثانیہ نے بتایا، ‘وہ مسلسل آ رہی تھیں اور رک نہیں رہی تھیں۔ ہم نے فوراً ایکس پر دیکھا، پھر ہمیں معلوم ہوا کہ تہران پر اسرائیل کی جانب سےحملہ ہو رہا ہے۔’

ثانیہ کے مطابق، دوسری رات اس سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ اسرائیلی فضائی حملے تیز ہو گئے ہیں اور وہ عام لوگوں کی بستیوں، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے سنا کہ تہران یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کو معمولی چوٹیں آئیں اور انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر لے جایا گیا۔

پڑوسی بھاگ گئے

تہران یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس (آئی یو ایم ایس) میں فائنل ایئر کی طالبہ شاکرہ منظور نے بتایا، ‘تہران میں حالات بے حد خراب ہیں۔ ہم شہر کے وسط میں رہتے ہیں، ہم تین دن تک سو نہیں پائے، رات کو حالات مزید خراب ہو جاتے تھے۔ ہم نے زور دار دھماکوں کی آوازیں سنیں اور ڈرون  اپارٹمنٹ کے او پر سے اڑتے نظر آتے تھے۔’

منظور نے کہا کہ طالبات کو پہلے دن حملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ‘دن میں حالات کچھ پرسکون رہتےتھے، لیکن 16 جون کو دن کے وقت بھی شدید بمباری ہوئی۔ عام لوگوں کی عمارتیں اور کئی سرکاری عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔’

تہران کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور دہلی کی طرح یہ بھی تارکین وطن کا شہر ہے۔ جیسےہی حملوں میں اضافہ ہوا، اسرائیلی دھمکیوں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی وارننگ کے بعد لوگوں نے بڑی تعداد میں شہر چھوڑنا شروع کردیا۔ منظور نے دیکھا کہ ان کا محلہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نےبتایا، ‘ہمارے سامنے والے ایرانی پڑوسی ہمیں تسلی دے رہے تھے کہ سب ٹھیک ہو گا، لیکن پھر وہ ہمیں بتائے بغیر اپنے گھرچھوڑ کر چلے گئے۔’

انہوں نے سنا کہ شہر سے باہر جانے والی سڑکیں گاڑیوں سے بھری پڑی تھیں۔ جب ان سے ان کے ایرانی دوستوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ بہت غصے میں ہیں، لیکن اس سے زیادہ وہ خوفزدہ ہیں کیونکہ تباہی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔’

ہندوستانی سفارت خانے نے بہت مدد کی

حملوں کے پہلے ہی دن آئی یو ایم ایس کے طلباء ہندوستانی سفارت خانے پہنچے۔ ‘پہلے دو دن سفارت خانے کے اہلکاروں نے ہمیں پرسکون رہنے کو کہا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ صورتحال جلد معمول پر آجائے گی۔’ ایک طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔

ثانیہ نے کہا، ‘لیکن پھر ہمیں سفارت خانے سے پیغام ملا کہ ہم جلد ہی تہران چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔’

منظورنے بتایا، ‘ہندوستانی سفارت خانے نے بہت مدد کی۔ انہوں نے ہمارے لیے بس، رہائش اور کھانے کا انتظام کیا۔’

ثانیہ نے کہا کہ آئی یو ایم ایس اور آزاد یونیورسٹی کے سینکڑوں ہندوستانی طلباء کو ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں قم شہر لایا گیا، جہاں انہیں ہوٹلوں میں رکھا گیا ہے۔ وہ خود سفارت خانے کے کرائے پر لیے گئے ہوٹل میں 30 طالبعلموں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طلباء کو مشہد لے جانے کے لیے 20 بسوں کا انتظام کیا گیا ہے۔

‘پہلے بیچ کی 10 بسیں روانہ ہو چکی ہیں۔ ہم اب تک تقریباً 200 کلومیٹر (پورے سفر کا پانچواں حصہ) طے کر چکے ہیں۔’

کرمان یونیورسٹی کے ایک طالبعلم فیضان نے کہا، ‘ہمیں انڈین ایمبیسی کو کریڈٹ دینا چاہیے کیونکہ یہ پہلے دن سے بہت فعال ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور نائیجیریا جیسے ممالک کے طلبا کو اپنے طور پر واپس آنے کے لیے کہا گیا ہے لیکن ہندوستانی سفارت خانے نے تمام انتظامات کیے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ طلباء کو ایئر لفٹ کرنے کا کوئی آپشن نہیں ہے اور زمینی سفر بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘تہران سے براہ راست سرحد تک جانا ممکن نہیں ہے، لیکن جہاں بھی ممکن ہوا وہاں طلباء کی مدد کی گئی ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ ارمیا میڈیکل یونیورسٹی کے طلباء کو آرمینیا لے جایا گیا اور وہاں سے وہ دوحہ کے راستے ہندوستان واپس آئیں گے۔

جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر نے کہا، ‘ارمیا میڈیکل یونیورسٹی کے 110 ہندوستانی طلبہ (90 طلبہ وادی کشمیر سے ہیں) منگل کو بحفاظت آرمینیا پہنچ گئے۔ ہم نے ان طلباء سے بات کی ہے جو دارالحکومت یریوان میں اپنے اپنے ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزارت خارجہ نے طلباء کو مطلع کیا ہے کہ ‘تمام ٹکٹ حکومت ہند کی طرف سے مفت فراہم کیے گئے ہیں۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ٹام آلٹر: اردو کا سچا عاشق

ٹام صاحب نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھنے کے  قائل تھے۔

ٹام آلٹر، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

مجھے سال اور مہینہ تو یاد نہیں، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے پہلی بار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ٹام آلٹر کو سامنے سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ وہ جامعہ کے ڈاکٹر مختار احمد انصاری آڈیٹوریم میں مولانا آزاد کی سوانح عمری ‘انڈیا ونس فریڈم’ پر مبنی اور سعید عالم صاحب کی ہدایت کاری میں ایک سولو ڈرامے کے اسٹیج کے لیے تشریف لائے  تھے۔

ایسا نہیں ہے کہ میں اس سے پہلے ٹام آلٹر کے نام اور کارنامے سے واقف نہیں تھا۔ لیکن اس دن کے پرفارمنس نے مجھے ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ انصاری آڈیٹوریم میں زبردست بھیڑتھی، لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے جا رہے تھے۔ سینکڑوں کی گنجائش والے اس آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

اس کے باوجود جب ڈرامہ شروع ہوا تو لوگوں نے ڈرامے کو اتنے انہماک سے دیکھنا شروع کیا کہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ کھڑے ہیں یا انہیں جگہ نہیں ملی۔ ڈرامے کے بعد ان سے ملنے کے لیے لوگوں کا  تانتا بندھ گیا۔

یہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا اور نہ ہرشخص کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا، ورنہ اس دن خاصی بھگدڑ مچ جاتی، جسے ٹام صاحب بالکل پسند نہیں کرتے۔ البتہ اس دن کے بعد جب بھی انہوں نے دہلی میں پرفارم کیا، میں نے اس میں شرکت کرنے اور ان کے فن سے محظوظ ہونے کی کوشش کی۔

یہ ٹام صاحب کی بدقسمتی ہے (بلکہ  اسے اپنی بدنصیبی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کہ ہم میں سے اکثر لوگ انہیں صرف دو کرداروں کی وجہ سے جانتے یا یاد کرتے ہیں۔ پہلا، بالی وڈ فلموں میں ‘انگریز’ کا کردار اور دوسرا ڈراموں میں مولانا آزاد کا کردار۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال سے زائد کے کیرئیر میں انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ مختلف کردار نبھائے ۔ ہر کردارایک سے بڑھ کر ایک۔

صرف سعید عالم صاحب کے ساتھ ہی مولانا آزاد کے علاوہ انہوں نے آٹھ اورڈراموں میں کام کیا، جن کے سینکڑوں شوز منعقد ہوئے۔

سعید صاحب کے مطابق، ‘یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹام صاحب جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ اداکار کوبھی اکثر انگریز یا گورا کے رول میں اسٹریوٹائپ/ٹائپ کاسٹ  کر دیا گیا۔’

اپنی موت سے تقریباً ایک ماہ قبل ٹام صاحب نے ایک انٹرویو میں  کہا تھا کہ ‘میں نے اب تک 400 سے زائد فلموں میں کام کیا ہے، جن میں سے صرف دس فلموں میں میں نےبرٹشر/انگریز کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن 2017 میں بھی مجھے انگریز کہا جاتا ہے۔’

 انہوں نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اس میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھے جانے کے  قائل تھے۔

ایک بار انھیں جشنِ ریختہ میں ایک اردو کتاب کی ریلیز کے لیے مدعو کیا گیا، جس کے لیے انھوں نے بخوشی رضامندی ظاہر کی۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ کتاب رومن رسم الخط میں ہے تو انہوں نے اس کے  اجرا سے انکار کردیا۔

سعید صاحب کے بقول، ‘جب انہیں معلوم ہوا کہ اردو کتاب رومن میں لکھی گئی ہے تو انہیں بہت غصہ آیا۔ اور جب ہم میں سے کچھ لوگوں نے انہیں منانے کی کوشش کی تو ٹام صاحب نے کہا کہ اگر یہ (رومن میں) ٹھیک  سے لکھا گیا ہوتا توبھی  میں اس پر دوبارہ غور کرتا۔’ وہ اکثر کہا کرتے تھے، ‘ایک  تو ہندی-اردو رومن میں نہیں لکھی جا سکتی، اور آپ لوگوں کورومن میں بھی ہندی-اردو لکھنا نہیں آتا۔’

 جب میں نے ستمبر 2020 میں ٹام آلٹر صاحب پر ایک اسٹوری  لکھنے کےدوران سعید صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک دلچسپ قصہ سنایا۔ سعید صاحب نے مجھے بتایا کہ 2002 میں جب دونوں نے مولانا آزاد (ڈرامے) پر کام شروع کیا تو ٹام آلٹر صاحب کو دیا گیا اسکرپٹ دیو ناگری میں تھا۔

شروع میں تو وہ دیوناگری میں لکھے گئے اسکرپٹ کی ریہرسل کرتے رہے لیکن ہفتے بھر کے اندر ہی انہوں نے کہا کہ انہیں  اردو رسم الخط میں اسکرپٹ چاہیے۔’

مجھے اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ ٹام صاحب اردو رسم الخط پڑھ سکتے ہیں، ہفتہ بھر میں انہیں چند اہم اردو کتابوں کے نام تجویز کرتا رہا جن کا انگریزی ترجمہ دستیاب تھا، ایسا کرتےہوئے میرے ذہن میں دو باتیں تھیں، پہلی، یہ ظاہر کرنا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں جو اردو اور انگریزی دونوں پر عبور رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں چاہتا تھا کہ انہیں  اردو ادب بھی پڑھنا چاہیے، ترجمہ ہی سہی۔’

سعید صاحب کا کہنا تھا، ’ یہ ٹام آلٹر صاحب کی عظمت تھی کہ انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے وہ تمام کتابیں پڑھ رکھی  ہیں اور وہ بھی اردو میں‘۔

سعید صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا تھاکہ ٹام آلٹر صاحب کو انہوں نے دیوناگری میں اسکرپٹ اس لیے دی تھی کیونکہ اس سے پہلے دو تین اداکاروں (جو اردوداں سمجھے جاتے ہیں) کو اردو رسم الخط میں اسکرپٹ دے چکے تھے اور ان لوگون  نے کہا تھا کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتے!

اردو سے ان کے لگاؤ ​​اور محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں اردو میں لکھیں اور اس کو ایک اردو رسالے میں چھپوایا۔ یہ بھی شاید اردو سے ان کی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام افشاں رکھا۔

فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کرنے کے علاوہ انہوں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کے انٹرویو بھی کیے۔ انہیں کرکٹ میں خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے جنوری 1989 میں سچن تنڈولکر کا انٹرویو کیا تھاجب سچن صرف 16 سال کے تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2000 میں اردو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے خصوصی پروگرام ‘ادبی کاک ٹیل’ کے لیے انہوں نے اداکار جانی واکر، موسیقار نوشاد، اداکارہ ٹن ٹن، صحافی اور مصنف حسن کمال اور اداکار جگدیپ  جیسی شخصیات کے یادگار انٹرویو کیے، جن کے کچھ حصے یوٹیوب اور اسپاٹی فائی پر دستیاب ہیں۔

ان انٹرویوز کو سنتے اور دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک منجھے ہوئے  فنکار تھے بلکہ ایک اچھے صحافی بھی تھے۔ انہیں سنتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اردو ان کی مادری زبان ہو۔ اردو سے ان کا رشتہ فطری لگتا ہے جس میں کسی قسم کی مصنوعیت نہیں تھی۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ اردو سے ان کا رشتہ بہت پرانا تھا۔ وہ لکھتے ہیں؛


‘اردو سیکھنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ مجھے اپنے والدین سے جو چیز وراثت میں ملی ہے ان میں سے ایک اردو بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ  میرے والد صاحب کی پیدائش سیالکوٹ کی ہے،اس زمانے میں  وہ ایک پادری تھے، ان کے والد بھی پادری تھے۔ پنجاب (غیر منقسم پنجاب) کے گرجا گھروں میں تقسیم سے پہلے عیسائیوں کی عبادت اردو میں ہوتی تھی، ہم نے اپنے بچپن میں لفظ بائبک کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ انجیل مقدس ہی کانوں میں پڑا۔

پنجاب کے گرجا گھروں میں روزانہ صبح سات بجے سے پونے آٹھ بجے تک پینتالیس منٹ  کی عبادت اردو میں ہوتی تھی۔میرے والد صاحب اکثر بیمار رہتے تھے۔ وہ ذیابیطس کے مریض تھے، اس لیے ان کے پاس ایک چھوٹی سی میز تھی جس پر طرح طرح کی دوائیاں رکھی رہتی تھیں۔ان کو چوں کہ شوگر کی شکایت تھی جس کی وجہ سےانہیں ٹافی وغیرہ کھانی ہوتی تھی، اس لیے وہ میز پر ٹافی کا ایک  ڈبہ رکھتے تھے اور اسی ڈبے کے بغل میں بائبل یعنی انجیل مقدس بھی رکھی رہتی تھی ۔

اس وقت مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی، اس لیے میں ان سے پوچھتا تھا کہ یہ  کیا ہے؟ تو وہ بتاتے تھے ٹام یہ انجیل مقدس ہے۔اردو رسم الخط مجھے شروع سے ہی اچھا لگتاتھا اس لیے جب باقاعدہ اردوپڑھنی شروع کی تو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوئی۔’


وہ مزید لکھتے ہیں کہ؛

’ جب میں نے ایکٹنگ کی لائن میں آنے کا فیصلہ کیا اور مجھے پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ(ایف ٹی آئی آئی ) میں داخلہ مل گیا تب میں نے طے کیا کہ اب مجھے باقاعدہ اردو سیکھنی ہے۔ ‘

وہ ایک سچے اور پکے محب اردو تھےاور انہوں نے دامے درمے قدمے سخنے اردو کی خدمت کی۔ ہم ان کی زندگی اور کارنامےسے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے آپ کو اردو والا، اردو دوست، محب اردو، خادمِ اردو وغیرہ سمجھتے ہیں یاکہلوانا پسند کرتے ہیں۔

اگر ہم ٹام آلٹر صاحب کو کسی بھی طرح سے خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اردو تھیٹر کی ترقی اور فروغ کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان کے اپنے الفاظ میں کہیں تو؛

‘ہندوستان میں اچھے اردو تھیٹر کم ہیں اور اول  درجے کے اردوپلے تو بہت ہی کم کھیلے  جاتے ہیں، مگر ہندوستان کا اچھا اردو تھیٹر دنیا کے کسی بھی تھیٹر سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے…

چھوٹی جگہوں پر جو اردو تھیٹر  ہو رہا ہے، اس کا مجھے کچھ زیادہ علم نہیں  اور اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب میں  اردوکا کوئی پلے کرتا ہوں  وہ  لوگ بھی جنہیں اردو نہیں آتی مجھ سے کہتے ہیں ہمیں آپ کا پلے سمجھ میں آتا ہے، جونہایت  اہم بات ہے، اردو اس ادبی زبان کے طور پر تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے جو معاشرے میں اردو کے ادب کا ذوق بیدار کرکے اسے اعلیٰ اقدار سے روشناس کرائے، اس کے باوجود جب اچھا اردو تھیٹر ہوتا ہے، تو لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں، جن میں یقیناً اکثریت اردو ادب اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے غیر مسلم ناظرین ہوتے ہیں ۔

(مہتاب عالم صحافی، مصنف اور محقق ہیں۔ انہیں ٹام آلٹر سےمتعلق ایک مضمون (مطبوعہ ؛دی وائر انگریزی)کے لیے ممبئی پریس کلب کی جانب سے ریڈ انک ایوارڈ فار ایکسیلنس ان جرنلزم سے نوازا  جا  چکا ہے۔)