کورونا کی پہلی لہر ملک کےدیہی علاقوں کو بہت متاثر نہیں کر پائی تھی، لیکن دوسری لہر غم کا سمندر لےکر آئی ہے۔گزشتہ ایک ہفتہ عشرے میں پوروانچل کے گاؤں میں ہر دن کئی لوگ بخار، کھانسی و سانس کی تکلیف کے بعد جان گنوا رہے ہیں۔ جانچ کے فقدان میں انہیں کورونا سے ہوئی اموات کے طور پر درج نہیں کیا گیا ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)
کورونا کی دوسری لہر نے اب گاؤں میں اپنی تباہ کن صورت دکھانا شروع کر دی ہے۔ ہر روز گاؤں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی موت کی خبریں آ رہی ہیں۔اکثرلوگوں کی موت بخار، کھانسی و سانس پھولنے کے بعد ہو رہی ہے۔ جانچ نہ ہونے سے یہ اموات کورونا میں درج نہیں ہو رہی ہیں۔ ایک ہفتہ عشرے سے زیادہ وقت سے پوروانچل کے گاؤں میں ہر روز ارتھیاں اور جنازے اٹھ رہے ہیں۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔
گورکھپور اور دیوریا ضلع کے ایک درجن سے زیادہ گاؤں میں پچھلے ایک ہفتہ عشرےمیں دس سےزیادہ موتیں ہو چکی ہیں۔ کئی ایسی فیملی ہیں جنہوں نے تین تین ممبروں کو کھویا ہیں۔بزرگوں سے لےکر نوجوانوں کی موت سے گاؤں میں ماتم اور دہشت کا ماحول ہے۔ کئی گاؤں میں کورونا کے قہر سے نجات کے لیے اجتماعی طورپر پوجا پاٹھ ہو رہا ہے۔
گورکھپور کے سردارنگر بلاک کے گونر گاؤں میں ایک ہفتے عشرے میں 20 لوگوں کی موت کی خبر آئی ہے۔ دی وائر سے بات چیت میں اس گاؤں کے رہنے والے 30سالہ رام بھروسہ یادو نے بتایا کہ ان کا گاؤں بہت بڑا ہے، 18 ٹولے ہیں اور لگ بھگ 13 ہزار کی آبادی ہے۔ ابھی ہوئے پنچایت انتخاب میں 6700 رائے دہندگان نے ووٹنگ کی ہے۔
یادو گونر خاص ٹولے کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اور آس پاس کے ٹولوں میں15 اپریل کے بعد سے 20 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس میں بڑے بزرگ سے لےکر کم عمر کے بھی لوگ ہیں۔
انہوں نے بتایا،‘ان میں سے کچھ لوگ پہلے سے بیمار تھے لیکن اکثرلوگوں کی موت کچھ دن کے بخار، کھانسی، سانس پھولنے کی دقت سے ہوئی ہے۔ گاؤں کے 45سالہ لال بہادر گپتا کو سانس لینے میں دقت ہوئی تو گھر کے لوگ انہیں علاج کے لیے گورکھپور لے جا رہے تھے لیکن ان کی راستے میں ہی موت ہو گئی۔ رام روپ، لال بہادر یادو اور سکھ رام یادو سگے بھائی تھے۔ ان میں سے لال بہادر کی طبیعت ضرور خراب تھی لیکن رام روپ و سکھ رام ٹھیک تھے۔ لیکن دو دن کے فرق پر تینوں کی موت ہو گئی۔’
وہ کہتے ہیں،‘میں نے اس طرح کا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے عشرے سے اب تک صرف دو دن ایسا رہا جب کسی کی موت نہیں ہوئی نہیں تو ہر روز ارتھیاں اٹھیں اور منجھنا نالے پر چتائیں جلیں۔’
یادو نے بتایا کہ انہوں نےپرائمری ہیلتھ سینٹرسردارنگر پورگاؤں میں بڑی تعدادمیں موتوں کی جانکاری دی اور کورونا جانچ کرانے و سینٹائزیشن کی مانگ کی تھی،لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ دو دن قبل کچھ ہیلتھ ورکر آئے اور چوراہے پر سینٹائزیشن کرکے چلے گئے۔
اسی گاؤں کے روشن پرتاپ سنگھ پچھلے سال لاک ڈاؤن سے گاؤں پر ہی ہیں۔ وہ دہلی رہ کر مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ بھی گاؤں کے حالات سے فکرمند ہیں۔
انہوں نے بتایا،‘گاؤں میں 15 اپریل کو پنچایت انتخاب کے بعد 20 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔اگر پورے گرام پنچایت سے جانکاری لی جائے تو یہ تعداد50 سے زیادہ نکلےگی۔ مرنے والوں میں دو کی عمر 50 سال سے کم تھی، باقی لوگوں کی عمر 60 سال سے زیادہ کی تھی۔’
سنگھ نے بتایا،‘لوگ ڈر کی وجہ سے جانچ نہیں کرا رہے ہیں۔ لوگوں میں یہ تصور بن گیا ہے کہ اگر ان کی رپورٹ پازیٹو آئی تو انہیں کووڈ اسپتال میں بھرتی کرا دیا جائےگا جہاں سے کوئی بچ کر نہیں آئےگا۔ بیمار لوگ جھولاچھاپ ڈاکٹروں سے علاج کرا رہے ہیں۔’
انہوں نے بتایا،‘میں نے 80 سال کے کئی بزرگوں سے بات کی۔ بزرگوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنی تعداد میں لوگوں کی ارتھیاں اٹھتے نہیں دیکھی۔
سنگھ نے آگے بتایا،‘لوگ ڈرے ہوئے ہیں لیکن ابھی بھی ماسک، سماجی دوری پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے بڑی تعداد میں گاؤں کی خواتین کورونا کے قہر سے نجات دلانے کے لیے گاؤں کے ڈیہہ بابا کی پوجا کرنے اکٹھا ہوئیں۔ یہاں بھی سماجی دوری نہیں تھی۔ میں نے پولیس کو فون کیا لیکن کوئی نہیں آیا۔ گاؤں میں سینٹائزیشن کے لیے ضلع پنچایتی راج افسر کو دو بار فون کیا لیکن دونوں بار فون نہیں اٹھا۔’
گونر گاؤں میں کورونا سے نجات کے لیے اجتماعی طور پر پوجا کرتی خواتین۔ (فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)
سردارنگرپورائمری ہیلتھ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر ہری اوم پانڈے سے جب اس گاؤں کے بارے میں جانکاری چاہی گئی تو جواب نہیں ملا۔ اتوار کو انہوں نے پورے دن فون نہیں اٹھایا۔اسی طرح گورکھپورضلع کے برہم پور گاؤں میں پچھلے 20 دن میں چھ لوگوں کی کورونا سے موت ہونے کی جانکاری گاؤں والوں کی طرف سے دی گئی ہے۔ اس میں تین موتیں ایک ہی فیملی کی ہوئی ہیں۔
برہم پورپرائمری ہیلتھ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر ایشور لال خود کورونا متاثر ہیں اور اس وقت ہوم آئسولیشن میں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پی ایچ سی کے تحت آنے والے 63 گرام سبھاؤں میں اس وقت 50 لوگ پازیٹو ہیں اور ہوم آئسولیشن میں ہیں۔ اپریل سے اب تک کل 75افراد پازیٹو آئے ہیں جس میں ایک کی موت ہو گئی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گاؤں سے لوگوں کی موت کی خبریں آ رہی ہیں لیکن جانچ نہ ہونے کی وجہ سے کہنا مشکل ہے کہ موت کی وجہ کیا ہے۔
بڑہل گنج حلقہ کے بیریا خاص گاؤں میں ایک ہفتے میں 10 لوگوں کی موت کے بعد سوموار کومحکمہ صحت کی ٹیم سینٹائزیشن اور کورونا جانچ کے لیے پہنچی۔ اس گاؤں کے پردھان نے محکمہ صحت کو اپنے گاؤں میں دس موتیں ہونے کی جانکاری دی تھی۔
اسی کے پاس واقع بیسہنی گاؤں میں ایک ہی گھر میں کورونا سے باپ بیٹے کی موت ہو گئی۔ پپرائچ حلقہ کے لہسی گاؤں میں 12 دن میں نو لوگوں کی موت کی خبر میڈیا میں آئی ہے۔ گاؤں کے لوگ ان موتوں کو کورونا سے ہی مان رہے ہیں۔
پپرائچ نگر کے ایک کاروباری فیملی کے چار لوگوں کی کورونا سے موت ہو گئی ہے۔ پپرائچ کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر نندلال کشواہا نے بسہی گاؤں میں نو لوگوں کی موت سے عدم واقفیت کا ا ظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ سی ایچ سی کے تحت آنے والے 86 گاؤں میں اپریل سے لےکر اب تک 150 پازیٹو کیس رپورٹ ہوئے ہیں اور صرف ایک کی موت ہوئی ہے۔
دیوریا ضلع کے بھاگلپور پرائمری ہیلتھ سینٹر کےتحت آنے والے اڑلا گاؤں میں پچھلے ایک ہفتہ عشرہ میں17 لوگوں کی موت ہوئی۔ چونکہ جانچ نہیں ہوئی تھی، اس لیے پتہ نہیں چلا کہ کوئی اس میں پازیٹو تھا یا نہیں۔مقامی میڈیا میں خبر آنے پر اتوارکو ایس ڈی ایم سنجیو کمار یادو اور پرائمری ہیلتھ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر رنجیت کشواہا نے گاؤں جاکر کیمپ لگایا اور لوگوں کے سیمپل لیے۔
ڈاختر کشواہا نے دی وائر کو بتایا،’72 اینٹی جن اور 56 آرٹی پی سی آر جانچ کے لیے نمونے لیے گئے۔اس میں 72 اینٹی جن جانچ میں ایک نمونہ پازیٹو پایا گیا ہے۔ اس گاؤں میں پہلے بھی ٹیم بھیجی تھی لیکن لوگ اپنی جانچ کرانے کے لیے تیار نہیں ہوئے تھے۔ اتوار کو بھی لوگ جانچ کے لیے نہیں آ رہے تھے۔ کئی گھنٹے کی کوشش کے بعد جانچ ہو پائی۔’
بھاگلپور قصبے میں19اپریل سے 10 اپریل کے بیچ نو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس میں ایک شخص کے پازیٹو ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔بن کٹا بلاک کے بلوئن خاص گاؤں کے سی پی آئی ایم ایل کےرہنما چھوٹے لال کشواہا نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں آدھا درجن سے زیادہ لوگو کی موت ہوئی ہے۔ یہ سبھی موتیں25 اپریل کو پنچایت انتخاب ہونے کے بعد ہوئی ہیں۔ ان میں آدھے لوگ 70 سے زیادہ کی عمر کے تھے، جبکہ باقی 35 سے 50 کی عمر کے تھے۔
رودرپور کے بیدا گاؤں میں17 لوگوں کی موت کی خبر آنے کے بعد رودرپورکمیونٹی ہیلتھ سینٹر کی ٹیم نے وہاں جاکر کیمپ کیا اور جانچ کے لیے نمونے لیے۔
کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر دنیش کمار یادو نے بتایا کہ وہ خود بیدا گاؤں گئے تھے۔ گاؤں کے لوگوں نے ایک ہفتے میں10 لوگوں کی موت کی جانکاری دی لیکن کسی کی کووڈ 19 کی جانچ نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے موت کی وجہ کے بارے میں نہیں بتایا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا،‘گاؤں میں کیمپ لگاکر 150 لوگوں کی آرٹی پی سی آر جانچ کے لیے نمونے لیے گئے۔ اس کے علاوہ 200 اینٹی جن جانچ بھی کی گئی۔ اینٹی جن جانچ میں کسی کی رپورٹ پازیٹو نہیں آئی۔
انہوں نے بتایا،‘رودرپور سی ایچ سی کے تحت159 گاؤں آتے ہیں۔ حلقہ میں اپریل سے اب تک 600 لوگوں کی جانچ رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ ہم پچھلے پانچ دن سے گاؤں میں کیمپ لگاکر جانچ کروا رہے ہیں۔ اب تک 10 گاؤں میں کیمپ لگ چکا ہے۔اتوار کو کھورما و کنہولی گاؤں میں کیمپ لگایا گیا ہے۔ کھورما گاؤں میں چھ افراد کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔’
ڈاکٹریادو کا کہنا تھا کہ پہلے لوگ جانچ کے لیے نہیں آتے تھے لیکن اب آگے آنے لگے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد کوروناانفیکشن کے پھیلاؤمیں کمی آ رہی ہے۔محکمہ صحت کی بلیٹن کے مطابق دیوریا ضلع میں اب تک 15778پازیٹو کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جس میں 143 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ضلع میں ابھی 3092 ایکٹو معاملے ہیں۔
گورکھپور ضلع میں محکمہ صحت نے پچھلے سال سے اب تک 49682 پازیٹو کیس ہونے کی بات کہی ہے۔ محکمہ کے مطابق ضلع میں اب تک 522 لوگوں کی کورونا سے موت ہوئی ہے۔ ابھی 8082 ایکٹو کیس ہیں۔
سرکاری اعدادوشمارکورونا سے ہونے والی موتوں کو بہت کم دکھا رہے ہیں لیکن گاؤں میں ہر روز اٹھ رہی ارتھیاں، جنازے اور شمشان میں جل رہی چتائیں، قبرستان میں دفن ہو رہی لاشیں کورونا مہاماری کے خوفناک منظر کو سامنے لا رہے ہیں۔
(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کےمدیر ہیں۔)