فروری میں مہاراشٹر صوبہ کے ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس کی تغیر یافتہ صورت ہندوستان میں نمودار ہو رہی ہے ۔ مگر اس کو خاموش کرا دیا گیا ۔اب نفسانفسی کا عالم ہے۔
ایک شمشان کے باہر لاشوں کے ساتھ ان کے اہل خانہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں جس طرح سے نفسانفسی کا عالم ہے،دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ احباب کے فون آرہے ہیں ، کسی کو شمشان گھاٹ میں سفارش چاہیے، تو کسی کو اپنے کسی قریبی مردہ رشتہ دارکو جلانے کےلیے لکڑی نہیں مل رہی ہے ۔
روایتی اور الکٹرک شمشان گھاٹوں پر تو مُردوں کی قطاریں لگی ہیں ۔ دہلی کے نواح فرید آباد میں ایک پارکنگ لاٹ کو ہی شمشان میں تبدیل کردیا گیا ۔ فون کی طرف دیکھنے سے ہی خوف محسوس ہو تا ہے ۔
ناول نگار
مشرف عالم ذوقی ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ، معروف صحافی ضیاء الحق، دانشور اشتیاق دانش، انڈین جرنلسٹ یونین کے جنرل سکریٹری کے امرناتھ ، اسپورٹس ایڈیٹر جگن ناڈا راؤ، آشیش یچھوری سمیت کئی دیگر ایسے احباب ہیں ، جو پچھلے ایک ہفتے کے دوران ہی کورونا وبا کی لہر کی نذر ہو گئے، دیگر کئی ساتھی اسپتالوں میں اس وقت موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔
اترپردیش صوبہ کے دارالحکومت لکھنؤ کے ایک صحافی ونئے شری واستو آخری وقت تک ٹوئٹ کرکے آکسیجن کےلئے دہائی لگاتے رہے، تا آنکہ ان کا دم نکل گیا ۔ ہسپتالوں کے باہر عوام کا ہجوم ہے اور ایسے مریضوں سے بھری ایمبولینس کی قطاریں ہیں جو ہسپتال میں داخلے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔
کئی افراد ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں ہی دم توڑ رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر انڈیا پر آکسیجن، ایمبولینس ، آئی سی یو میں بستروں اور جان بچانے والی ادویات کی اپیلوں کی بھرمار ہے ۔ ایک سال کے اندر دیکھتے ہی دیکھتے جس طرح ہندوستان میں حالات بے قابو ہو گئے ہیں ، وہ پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کےلیے ایک سبق ہے ۔
خیال رہے کہ یہ تغیر یافتہ کورونا وائرس کسی بھی وقت بارڈر کراس کر ے گا ۔ اگر 2020کے بھیانک حالا ت کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوستان میں منصو بہ بندی کی گئی ہوتی، آکسیجن کے پلانٹ لگا کر ان کی مناسب اسٹوریج کی گئی ہوتی تو شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔
ایک دوست کے والد کےلیے جب ایک پرائیوٹ کمپنی نے آکسیجن فراہم کرنے کےلئے حامی بھرلی، مگر خالی سیلینڈر ساتھ لانے کےلیےکہا ۔ معلوم ہوا کہ شہر میں خالی سیلینڈر بھی نہیں مل رہے ہیں ۔ اسی دورا ن ان کے والد کے خون میں آکسیجن لیول بتدریج کم ہو رہی تھی ۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انہوں نے ایئر کنڈیشنڈ توڑ کا اس کا سیلینڈر نکال کراس کو کمپنی کے دفتر لے جاکر اس میں آکسیجن بھروایا ۔
انتظامیہ اس حد تک چرمرا چکی ہے کہ نامی گرامی اسپتالوں کو آکسیجن اور ادویات کے حصول کےلیےعدالتوں کے دروازے کھٹکٹھانے پڑ رہے ہیں ۔ دہلی کے گنگا رام اسپتال نے خبردار کیا تھا کہ ان کی آکسیجن کی سپلائی ختم ہو رہی ہے، مگر کورٹ میں حکومت کے وکیل نے ججو ں کو بتایا کہ یہ رونے دھونے والے بچے ہیں ، اس لیے ان کی اپیلوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ۔
اس اسپتال میں 510کورونا مریض داخل تھے، جن میں 142 آکسیجن پر تھے ۔ اگلے دن سویرے خبر آئی کہ آکسیجن سپلائی کے رک جانے کی وجہ سے اس نام گرامی اسپتال میں 19مریض ہلاک ہوگئے ۔
میری ایک سابق کولیگ روہنی سنگھ کی ساس کورونا کا شکار ہوگئی ۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزنے اس کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کردیا ۔ قومی میڈیا میں کام کرنے اور خاصی پہنچ کے باوجود ان کو چار اسپتالوں کے چکر لگانے پڑے ۔ اسی دوران ان کی ساس کس وقت گاڑی میں داغ مفارقت دے گئی، ان کو پتہ ہی نہیں چل سکا ۔
اب اس کی ڈیڈ باڈی پچھلے کئی روز سے مردہ گھر میں ہے، کیونکہ شمشان گھاٹ میں ویٹنگ لسٹ چل رہی ہے ۔ اسپتالوں کے اوپی ڈی اور دیگر مریضوں کےلئے دروازے فی الحال مکمل طور پر بند ہیں ۔ ممبئی کی ایک مشہور آر جے سمردی سکسینہ کا کہناہے کہ شہر میں 20سے30ہزار روپے میں آکسیجن کا سیلینڈر بک رہا ہے، اور جو دو یا تین گھنٹے تک ہی مریض کا ساتھ دیتا ہے ۔ ان کے والد کو آکسیجن کی مسلسل ضرورت پیش آتی ہے ۔
رقم اور سفارش ہونے کے باوجود بھی آکسیجن یا ادویات نہیں مل پا رہی ہیں ۔ معروف صحافی برکھا دت اپنی داستان سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں کہ کس طرح اس نے بڑی مشکل سے اپنے 80سالہ والد کےلیے آکسیجن حاصل کرلیا ۔ انہوں نے ایک پرائیوٹ ایمبولینس بلائی تھی ۔
مگر اس میں کمپاوڈر نہ آکسیجن کا انتظام تھا ۔ اس پر طرہ کہ پولیس نے کرفیو کے نفاذ کےلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں اور وہ ہر گاڑی کو روک کر یقینی بنا رہے تھے کہ اس میں مریض ہی ہے ۔
یہ حال اگر دہلی اور ممبئی کا ہے تو دیہی اور چھوٹے قصبوں ا ور شہروں کا کیا حال ہوگا ۔ سرکاری اعداد و شما رکے مطابق پورے ملک میں ابھی تک 16.96ملین افراد کورونا کے شکار ہو گئے ہیں اور تقریباً دو لاکھ کے قریب اموات ریکارڈ ہوئی ہیں ۔ مگر کولکاتہ سے شائع ہونے والے اخبار دی ٹیلی گراف کے مطابق حکومتی اعداد و شمار میں خاصے تضادات ہیں ۔
ایک علاقہ میں جہاں سرکاری کاغذوں میں دس کورونا مریض درج تھے، اخبار نے پایا کہ وہاں اصل میں 150 انفیکشن تھے ۔ پچھلے ایک ہفتہ کے دوران روزانہ تین لاکھ کے قریب نئے کیسز اور 2600کے قریب اموات ہو رہی ہیں ۔ مگر اخبار کے مطابق نئے انفیکشز کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد ہے اور روزانہ 20ہزار کے قریب افراد وبا کا شکار ہوکر ہلاک ہو رہے ہیں ۔
کانپور کے ایک صحافی کے ذریعے شیئر کردہ ایک ویڈیو میں لالہ لاجپت رائے سرکاری ہسپتال کی پارکنگ میں ایک مریض کو زمین پر پڑا ہوا دیکھا گیا اور تھوڑی ہی دور ایک بنچ پر ایک مریض کو بیٹھا دیکھا ۔ انھیں ہسپتال میں داخل کرنے کے لیے کوئی بستر نہیں ۔
ایک جج رمیش چندر کا ہندی میں تحریر کردہ نوٹ سوشل میڈیا پر گشت کر رہا ہے، جس میں وہ حکام سے التجا کر رہے ہیں کہ ان کی بیوی کی کورونا سے متاثرہ لاش گھر سے لے جانے میں ان کی مدد کریں لیکن کوئی ان کی بات نہیں سْن رہا ہے ۔ انھوں نے لکھا ؛
میں اور میری اہلیہ دونوں کورونا کی زد میں ہیں ۔ کل صبح سے ہی میں نے سرکاری ہیلپ لائن نمبر پر کم سے کم 50 بار فون کیا لیکن کوئی بھی دوائیں دینے یا ہسپتال لے جانے نہیں آیا ۔ انتظامیہ کی لاپروائی کی وجہ سے میری اہلیہ کی آج صبح موت ہو گئی ۔’
وزیراعظم نریندر مودی کے انتخابی حلقہ وارانسی یا بنارس سے ومل کپور نے بتایا کہ صورت حال خاصی خوف ناک ہے ۔ ان کی والدہ کا اسپتال میں بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔ اس کا کہنا تھا ؛
میں نے بہت سارے لوگوں کو ایمبولینسز میں مرتے ہوئے دیکھا ۔ ہسپتال مریضوں کو وہاں سے بھگا رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بستر نہیں ، دوا کی دکان پر کورونا کی ادویات بھی ناکافی ہے ۔
انھوں نے بتایا کہ جب وہ اپنی والدہ کی لاش کو شمشان گھاٹ لے گئے تو وہاں پرلاشوں کا ڈھیر تھا ۔ جلانے کے لیے لکڑی کی قیمت تین گنا بڑھ گئی ہے ۔ آخری رسومات کےلیے دس سے پندرہ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے ۔
آخر جو ملک چند ہفتہ قبل تک کورونا سے نمٹنے کےلئے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا کس طرح اس وبا کا اس بری طرح شکار ہو گیا ۔ چین کے ساتھ ہیلتھ سفارت کاری کی مسابقت کرنے کےلیےدسمبر سے ہندوستان ہر ماہ 65ملین ویکسین کی خوراک، 11لاکھ ریمڈیسور انجکشن، 9300میٹرک ٹن آکسیجن اور دو کروڑکووڈ ٹیسٹنگ کٹس برآمد کر رہا تھا تاکہ عالمی برادری میں اپنی دھاک جما سکے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اعلان کردیا تھا کہ اس وبا نے ہندوستان کو وشو گرو یعنی عالمی پیشوا کا مقام دلا دیا ہے ۔ پارلیامنٹ میں بتایا گیا کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان نے کورونا پر فتح حاصل کی ہے ۔ چین کے ساتھ مسابقت اور وشوگرو بننے کی چاہت نے ان ملکوں کو بھی کنواں اور کھائی کے بیچ لا کر کھڑا کر دیا ہے، جن کو ویکسین کی پہلی کھیپ فراہمی کی گئی تھی ۔
مارچ میں ڈھاکہ کے دورہ کے دوران وزیرا عظم مودی نے بنگلہ دیش کو 1.2ملین ویکسین ڈوزبطور تحفہ دیے ۔ بنگلہ دیش نے اس کے علاوہ 30ملین ڈوز ہندوستان سے خرید کر ویکسین لگانے کا عمل بھی شروع کیا اور اسی کے ساتھ مزید40میلن ڈوز کا آرڈر دے دیا ۔ مگر اب ہندوستان نے ویکسین کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کردی ہے
۔ بنگلہ دیش نے جن افراد کو پہلا ڈوز دیا ، ان کےلیے اب دوسرا ڈوز دستیاب ہی نہیں ہے ۔ یہی حال مالدیپ اور کئی افریقی ممالک کا ہو گیا ہے، جو ہندوستان میں تیار کردہ ویکسین پر تکیہ کیے ہوئے تھے ۔ اس کے علاوہ معلوم ہوا کہ پونا شہر میں واقع ویکسین بنانے والی فرم سیرم انسٹی ٹیوٹ مزید ویکسین بنانے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کو بنانے کےلیے خام مال امریکہ سے آرہا تھا، جس کی برآمدپر صدر جوائے بائیڈن کی انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی ہے ۔
شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر صحت نے تو اعلان بھی کیا تھا کہ اب ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسی اعتماد کے ساتھ الیکشن کمیشن نے پانچ صوبوں ، مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو، کیرالا اور مرکزی انتظام والے علاقے پانڈیچری میں صوبائی انتخابات کا اعلان کیا ۔ انتخابی مہم میں کورونا پروٹوکول کا کھل کر اور جم کر خلاف ورزی کی گئی ۔
اور تو اور خود وزیراعظم مودی اور ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شاہ نے پر ہجوم ریلیوں کو کسی بھی پرٹوکول کی پیروی کے بغیر خطاب کیا ۔ اس سے بھی زیادہ مجرمانہ فعل اترا کھنڈ صوبہ کے ہری دوار شہر میں دریائے گنگا کے کنارے ہندووَں کے سب سے بڑے کمبھ میلہ کے انعقاد کی اجازت دینا تھا ۔ جس میں 48.51لاکھ افراد نے شرکت کرکے دریا میں ڈبکی لگائی ۔ اس دوران وہاں دو ہزار کے قریب افراد کورونا سے متاثر پائے گئے ۔
ایک سال قبل یہی انتظامیہ کورونا پھیلنے کی ذمہ داری تبلیغی جماعت کے ایک جلسے پر ڈال رہے ہیں ۔ ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا نے تبلیغی جماعت کے افراد کو ’انسانی بم‘اور’کورونا جہادی‘بھی کہا تھا ۔ مگر کمبھ میں ڈبکی لگانے والے ان کےلیے’عقیدت مند‘ہیں ۔
اترا کھنڈ کے وزیر اعظم تیرتھ سنگھ راوت نے تو یہاں تک کہا ماں گنگا کے بہاوَ اور برکت سے کورونا کی وبا دور ہی رہے گی ۔ ماں گنگا اسے پھیلنے نہیں دیں گی انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’کووڈ کے نام پر کسی کو بھی میلے میں آنے سے نہ روکا جائے گا ۔ ایشور پر بھروسہ اور عقیدہ وائرس کو ختم کر دے گا ۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے ۔ ‘‘واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’’کورونا وائرس کی وبا نے انڈیا کو ’نگل‘لیا ہے لیکن لوگ ابھی بھی گنگا میں بنا ماسک پہنے ڈبکی لگا رہے ہیں ۔ ‘‘
وبا کے شروع میں ہی پی ایم کیئر فنڈ شروع کیا گیا تھا، جس میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے انگلیاں اٹھتی رہی ۔ سرکاری محکموں ، کارپوریٹ اداروں اور دیگر افراد سے اس فنڈ کےلئے موٹی رقوم لی گئیں ۔ اس فنڈ سے جو وینٹی لیٹر بنوائے گئے ان کے ٹھیکے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے قرینی افراد کو دیے گئے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے وینٹی لیٹر کے نام پر گھٹیا مال سپلائی کیا ۔ راجستھان صوبہ کو جو وینٹی لیٹر دیے گئے ان میں90 فیصد ناکارہ تھے ۔
فروری میں مہاراشٹر صوبہ کے ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس کی تغیر یافتہ صورت ہندوستان میں نمودار ہو رہی ہے ۔ مگر اس کو خاموش کرا دیا گیا ۔
بتایا جاتا ہے کہ آٹھ ماہ قبل ملک میں دو بلین روپے کی لاگت سے 150کے قریب آکسیجن پلانٹ لگانے کےلیےٹینڈر طلب کیے گئے تھے، جس میں دہلی کے آس پاس ہی 18پلانٹ لگنے والے تھے ۔ مگر یہ منصوبہ پاور گلیاروں اور افسر شاہی کی طوالت کی نذر ہوگیا ۔
اب حال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ طیارو ں کی مدد سے سعودی عرب، سنگا پور اور دیگر ممالک سے آکسیجن منگائی جا رہی ہے ۔ صرف جنوبی صوبہ کیرالا نے اس مدت کے دوران اپنی آکسیجن تیار کرنے اور اسٹور کرنے کی صلاحیت کو 58فیصد بڑھادیا ۔ دیگر صوبو ں سے ٹرکوں میں جو آکسیجن دہلی کےلئے روانہ کی جا رہی ہے، اس کو دیگر صوبے راستے میں ہائی جیک کر رہے ہیں ۔ اتر پردیش کی حکومت نے شکایت کی کہ اس کے حصہ کی آکسیجن دہلی کو دی گئی ۔
ہریانہ حکومت نے دہلی جار رہے آکسیجن ٹینکرو ں کو روک کر اعلان کیا کہ ان پر پہلا حق اسی کا ہے، کیونکہ یہ اسی صوبہ کی فیکٹریوں میں تیار ہو گئے ہیں ۔ہندوستان میں ابھی تک 1.59فیصد آبادی کو ہی ویکسین لگائے گئے ہیں ۔ وائرس کو قابو کرنے کےلئے تقریباً60فیصد آبادی کا ویکسین لگانا لازمی ہے ۔
پہلے بتایا گیا تھا کہ 60سے زیادہ عمر والوں کو ہی یہ ویکسین دی جائے گی ۔جب نوجوان کوووڈ کا شکار ہونے لگے تب حکومت نے اعلان کیا کہ 45سال کے عمر والوں کو بھی یہ سہولت رہے گی ۔ اب جب کہ وائرس نے بچوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے اب بتایا گیا کہ یکم مئی سے 18 سال تک کی عمر والوں کو بھی ٹیکہ دیا جائے گا ۔
ماہرین ابھی ہی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ مئی میں اس ویکسین کے حصول کےلیے انارکی کا ماحول ہوگا کیونکہ اس اعلان کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ویکسین دینے کےلئے انفرا اسٹرکچر بنانے کا عمل نہایت ہی سست ہے ۔
دوسری طرف جموں و کشمیر میں بھی جہاں فروری میں مشکل سے روزانہ 50سے60کورونا کیسز رپورٹ ہو رہے تھے، اب تعداد 2000سے تجاوز کر گئی ہے ۔ اس کی ذمہ داری بھی براہ راست انتظامیہ کے سر ہے ۔ خطہ میں نارملسی دکھانے کےلیے سرینگر شہر کا ٹیولپ گارڈن اور دیگر سیاحتی مقامات قبل از وقت کھول دیے گئے ۔
حتیٰ کہ وزیر اعظم مودی نے خود ٹوئٹ کرکے گجرات اور مہاراشٹرامیں اپنے حامیوں کو بتایا کہ کشمیر جاکر ٹیولپ گارڈن کا لطف اٹھائیں ۔ ان کی اس اپیل کی وجہ سے ایک اژدھام امنڈ پڑا ۔ وادی کشمیر میں محض 72وینٹی لیٹر ہیں ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سرینگر شہر کے بڑے ہسپتالوں میں بھی آکسیجن سپلائی کا بحران پیدا ہوچکا ہے ۔
صورہ انسٹی چیوٹ جیسے بڑے ہسپتال، جہاں تین آکسیجن پلانٹوں سے فی منٹ3200لیٹر آکسیجن پیدا واری صلاحیت ہے ،وہیں آکسیجن کم پڑرہا ہے حالانکہ اس کے علاوہ450آکسیجن سلینڈر بھی دستیاب ہیں لیکن وہ بھی ناکافی لگ رہے ہیں کیونکہ مریض زیادہ ہیں اور سلینڈر ختم ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے ۔ ضلعی ہسپتالوں کا خدا ہی حافظ ہے ۔
ہندوستان میں صحت کا بجٹ مجموعی قومی پیداوار کا محض1.6فیصد ہے، جبکہ 2017 میں جاری ہیلتھ پالیسی میں حکومت کے لیے لازم کیا گیا تھا کہ اس کو2.5صد تک لے جائے ۔ پاکستان میں تو یہ اور بھی کم یعنی مجموعی قومی پیداوار کا 0.91فیصد ہے ۔ جبکہ ترکی میں جی ڈی پی یعنی قومی مجموعی پیداوار کا4.4 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے ۔
کورونا وائرس نے یہ تو دکھایا ہے کہ جنگوں کی طرح وبائی امراض بھی معشیت کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں ۔ جنگوں اور قومی سلامتی کے ایشوز سے نمٹنے اور تیاری کے لیے حساس ادارے اور فوج متواتر مشقیں کرتے رہتے ہیں ۔ ہر ملک کے پاس تیل کے اسٹریٹجک ذخائر موجود ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ ایمونیشن کے بھی ذخیرہ بنائے جاتے ہیں ۔
صحت کے ایشوز سے نمٹنے کے لیے بھی اسی طرح کی چوکسی کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ اس وبا نے یہ تو عیاں کردیا ہے کہ بڑی طاقتیں بھی صحت سے متعلق آلات و دوائیوں کا وافر اسٹاک نہیں رکھتے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ صحت سے متعلق امور کو بھی قومی و انسانی سلامتی کے نظریہ سے دیکھا جائے ۔