جب حکومت کورونا وائرس کاسامناکرنے کے لئے معاشی سرگرمیاں بند کردے گی ، تب معلوم ہو گا کہ اس سے بے روزگاری میں اور اضافہ ہوگا ،ساتھ ہی لوگوں کی آمدنی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ ا س صورتحال میں ، ملک کے یومیہ مزدوروں اوراپنے روزگار میں لگےافراد کے لئے آمدنی کا ٹرانسفر حکومت کی ترجیحاٹ میں ہونی چاہیے۔
ملک میں لاک ڈاؤن اور ا س کے نتیجہ کے طور پر تمام معاشی سرگرمیوں کے ٹھپ پڑ جانے سے سب سے پہلے غریبوں کی آمدنی ختم ہو جائےگی۔اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے، امریکہ اور برٹن، دونوں ممالک کی حکومتوں نے معاشی سرگرمیوں کے بند ہونے کی سب سے زیادہ مار جھیلنے والےمزدوروں کے لئے فوراً معاشی مدد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
ہندوستان کو بھی وقت ضائع کیے بغیر ہی ایسا کرنا چاہیے۔یہ ہندوستان کے لئے کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے، کیونکہ اس کا تقریباً 50 فیصد ورک فورس سیلف روزگار میں لگے ہیں اور 95 فیصد ان آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرتےہیں۔گزشتہ اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے مجوزہ ‘جنتاکرفیو’ کی کامیابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو لوگ ٹی وی پر تھالی اور برتن پیٹتےہوئے دیکھے گئے، ان میں آبادی کا یہ حصہ کہیں نظر نہیں آیا۔
مختلف شہروں کی امیر کالونیوں کی بالکنی پر نظر آنےوالے لوگوں کی طبقاتی بناوٹ نے یہ صاف طور پر دکھایا کہ وہ اس بات کو لےکر فکرمندنہیں تھے کہ اگلے کچھ مہینوں میں ان کا کھانا-پینا کیسے چلےگا یا وہ اپنے بچوں کی اسکول فیس کیسے چکائیںگے۔دراصل سب سے پہلی اور فوراً تباہی انفارمل سیکٹر کےورک فورس کی آنے والی ہے اور اس طبقے کے پاس کچھ مہینوں تک گزارا کر لینے لائق بچت بھی شاید ہی ہو۔
کچھ مہینوں تک کے لئے معاشی سرگرمیوں کو بند کرنے کاغریبوں پر پڑنے والا اثر نریندر مودی حکومت کے لئے کوئی نیا تجربہ نہیں ہے۔نوٹ بندی نے انفارمل سیکٹر کی کمر توڑکر رکھ دی۔ اس کامنفی اثر بعد تک قائم رہا اور اس کے بعد کے سالوں میں ہندوستان کی بےروزگاری کی شرح بڑھکر 45 سالوں میں سب سے زیادہ ہو گئی اور 40 سالوں میں پہلی بار نجی استعمال میں منفی اضافہ درج کیا گیا۔
ہندوستان کی معیشت پہلے ہی مینوفیکچرنگ مندی کے دور میں تھی۔ 2019 کی آخری دو سہ ماہی میں تیل، گیس، بجلی وغیرہ جیسے کور سیکٹر میں منفی اضافہ درج کیا گیا۔ایک طرح سے دیکھا جائے تو کووڈ-19 نے ہندوستانی معیشت پراس وقت حملہ کیا ہے، جب یہ پہلے سے ہی لڑکھڑائی ہوئی تھی۔ جب ایک طرف سرمایہ کاری کا نام ونشان غائب تھا، بےروزگاری کی شرح کافی اونچی تھی اور دیہی مزدوری اوراستعمال میں تقریباً ٹھہراؤ آ گیا تھا۔
اس لئے جب حکومت کووڈ-19 سے سامنا کرنے کے لئے معاشی سرگرمیوں پر تالا لگائےگی، تب اس کو یہ معلوم ہوگا کہ اس سے اور بےروزگاری پیداہوگی اور لوگوں کی آمدنی میں اور گراوٹ آئےگی۔اس لئے حکومت کو سب سے پہلا کام ملک کے یومیہ مزدوروں اورسیلف روزگار میں مصروف لوگوں کے لئے آمدنی ٹرانسفر کا کرناچاہیے۔
تکنیک کی جس طرح سے ترقی ہوئی ہے، اس کے مدنظر متاثرہ طبقوں کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں۔ چھوٹے کاروبارآرگنائزڈ اوران آرگنائزڈ سیکٹرمیں کام کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار دیتے ہیں۔وزیر اعظم کے ذریعے یہ صلاح دینا کافی نہیں ہے کہ وہ کاروبار میں ہونے والے نقصان کی وجہ سے ملازمینکی چھٹنی نہ کریں۔بڑی کمپنیاں اگلے تین سے چھے مہینے تک بھاری نقصان جھیل سکتی ہیں۔ لیکن چھوٹے اور مڈل فرم کے لئے ایسا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔
حکومت ان کو سود چکانے کے لئے تین سے چھے مہینے کے اضافی وقت کے ساتھ-ساتھ جی ایس ٹی ادائیگی سے بھی کچھ مہینے کے لئے آزاد کر سکتی ہے تاکہ کچھ مہینوں کے لئے ان کی نقد فراہمی پر اثر نہ پڑے۔ویسے بھی جی ایس ٹی کے تحت 95 فیصد محصول جی ایس ٹی نیٹ ورک میں رجسٹرڈ 10 فیصد بڑے کاروباریوں سے آتا ہے۔ چھوٹے کاروباریوں کو چھےمہینے کا جی ایس ٹی وقت دینے پر غور کیا جانا چاہیے۔
حکومت کو اپنی طرف سے پہل کرتے ہوئے عوامی منصوبوں کوپورا کرنے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو تمام بقایہ ادائیگی کر دینی چاہیے۔ اس سے ان کاروباروں کی نقد فراہمی کی حالت بہترہوگی۔دنیا بھرمیں مربوط مالی اور مالیاتی مراعات کے اس دورمیں ، ہندوستان کو بھی اپنی طرف سے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہئے۔ ہندوستان کے پاس مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ مالیاتی اختیارات موجود ہیں۔
کئی ماہرین کے ذریعے ریگولیٹری مراعات کے ذریعے قرض دےکرغیر-روایتی طریقے سے مداخلت کرنے کی صلاح دی جا رہی ہے۔ موجودہ حالات میں مالی اورمالیاتی اقدامات کے لئے کوئی پہلے سے طے شدہ فارمولا کام نہیں کرے گا۔اگر تیل کی قیمت ایک سال تک 35 ڈالر فی بیرل کے اندررہتی ہے تو حکومت کوتقریباً3 لاکھ کروڑ روپے کی بچت ہوگی، جس کا اس کو اچھی طرح سے استعمال کرنا چاہیے۔
اگر یہ تیل کی گھریلو قیمتوں میں کمی نہیں کرتی ہے، تواس کو زیادہ اونچے محصولات کے ذریعے جمع گئی رقم کا استعمال غریب اورمتاثرہ لوگوں کے لئے براہ راست آمدنی ٹرانسفر کے لئے کرنا چاہیے۔زیادہ تر ماہرین معاشیات اب کووڈ-19 کی وجہ سے مئی، 2020تک معاشی سرگرمیوں پر لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک عالمی مندی کی پیشن گوئی کر رہےہیں۔
کووڈ-19 کی دستک دینے سے پہلے ہی، دنیا کا ایک بڑا حصہ مندی یا خوفناک معاشی سستی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ یہاں تک کہ مضبوط نظر آ رہی امریکی معیشت میں بھی جنوری جنوری-فروری میں سستی دکھائی دینے لگی تھی۔تیل کی قیمتوں میں گراوٹ نے امریکی معیشت کو بڑا جھٹکادیا تھا اور اس نے یہاں کا شیل آئل انڈسٹری پر تقریباً تالا لگادیا تھا، جہاں کمپنیوں کی دیوالیہ کارروائی کی وجہ سے 120 ارب ڈالر کا قرض ڈوبتے کھاتے میں چلا گیا ہے۔
یعنی ایک معیشت جو اچھی صحت میں دکھ رہی تھی، وہ ایک طےشدہ مندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔دنیا بھر میں مالیاتی منڈی مستقل طریقے سے بحران میں ہیں اور زیادہ تر ماہر ین یہ قبول کرتے ہیں کہ تجزیہ کے روایتی اوزار موجودہ حالات کوسمجھنے میں مدد نہیں کرتے ہیں۔
جس رفتار سے امریکہ میں اسٹاک منڈی میں گراوٹ آئی ہے-صرف18 دن میں 32 فیصد-وہ عالمی مندی سے پہلے 1929 کی گراوٹ سے میل کھاتی ہے۔کچھ وقت سے عالمی سرمایہ محفوظ ٹھکانے کی کھوج میں سونےاور امریکی سرکاری بانڈس کی طرف مخاطب ہونا شروع ہوئی تھی۔ لیکن کچھ وقت کے بعدسونا اور امریکی بانڈ جیسے محفوظ ٹھکانے بھی جوکھم سے خالی نہیں رہ گئے۔
یقینی طور پر یہ مالیاتی منڈی کے کئی ماہرین کے لئے سب سے خوفناک لمحہ تھا۔ اس پس منظر میں غیر ملکی سرمایہ کے ہندوستان سے ٹرانسفر کی وجہ سے روپے کی قیمت میں تیزی سے گراوٹ آ رہی ہے۔روپے کے لین دین کی شرح گھٹکر 76 روپے فی ڈالر تک گرگئی ہے۔ یہاں صرف ایک تسلی والی بات یہ ہے کہ دیگر ابھرتے ہوئے منڈیوں کی کرنسی بھی اسی رفتار سے یا اس سے بھی زیادہ رفتار سے گر رہی ہیں۔
حالانکہ ہندوستان کے زرمبادلہ کا ذخیرہ 480 ارب امریکی ڈالر کا ہے ، لیکن یہ کوئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ عالمی مالیاتی منڈیوں میں بے مثال اور مسلسل جھٹکوں سے نپٹنے کے لئے کتنا بڑا ذخیرہ کافی ہوگا۔ساک 2008 سےعالمی منڈی سستے پیسے سے بھر گئی ہے۔ 2008-17 کے درمیان امریکی فیڈرل اکاؤنٹ میں پانچ گنا اضافہ ہوکر 4.7 ٹریلین امریکی ڈالر ہو گیا۔ یہ صرف زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپنے کا معاملہ تھا۔
اب امریکی فیڈرل ریزرو چیف کے ذریعے 700 بلین امریکی ڈالر کے اضافی قرضوں کی خریداری کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ باقی دنیا کے مالیاتی نظام کو متاثر کرنے والا ہے۔امریکی فیڈرل ریزرو کے چیف کا مشہور قول کو یاد کیجئے، ‘ڈالر ہماری کرنسی ہے اور آپ کا مسئلہ ہے۔ ‘
کورونا وائرس کے آنے سے کافی پہلے سے یہ مالیاتی وائرس دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔امریکی ماہر معاشیات 2008 کے ہاؤسنگ قرض بلبلے کی ہی طرح آج ایک بڑے کارپوریٹ قرض بلبلے کی بات کر رہے ہیں، جو ان کے مطابق امریکی معیشت کومتاثر کر رہا ہے۔ہندوستان بھی اپنی طرح کے ایک کارپوریٹ قرض بلبلے کاسامنا کر رہا ہے، جس نے اس کے مالیاتی انتظام کی سانسیں پھلا دی ہے۔ یس بینک اس کی سب سے تازہ مثال ہے۔
امید جگانے والی کوئی بات نہیں دکھ رہی ہے۔ ہندوستان کواپنی اصل معیشت کے ساتھ-ساتھ مالیاتی نظام پر بھی نظر رکھنی ہوگی، جو کافی نازک ہے۔یہ 2008 جیسا نہیں ہے، جب یہ نسبتاً اس کی صحت کافی اچھی تھی۔ یاد کیجئے کہ ہندوستانی معیشت 2008-09 کے بعدکے دو سالوں میں 7-8فیصد کی شرح سے بڑھی تھی۔
بلاشبہ مالی زیادتیوں کی وجہ سے آگے چلکر معیشت مزیدکمزور ہو گئی۔ ماضی سے کافی کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ہندوستان کے لئے راحت کی بات اب تک یہی ہے کہ ہماری آبادی کے تناسب میں یہاں اموات اور نئے معاملوں کی تعداد اب تک دوسرے ممالک کے مقابلے کم ہے۔
اگر ہندوستان اگلے تین مہینے تک ایسا کر پایا، تو ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں آمدنی، روزگار اور استعمال دوسرے ممالک کے مقابلےمیں زیادہ جلدی پٹری پر لوٹ آئےگا۔ہندوستان کی معیشت آج بھی تقابلی طور پر کہیں زیادہ گھریلو ہے۔ اس لئے نظریاتی طور پر ہم دوسری معیشت کے مقابلے میں زیادہ جلدی واپسی کر سکتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا نامعلوم بھنور میں پھنسی ہےاور آگے آنے والے وقت کے بارے میں کچھ بھی اندازہ لگا پانے کی حالت میں نہیں ہے،ہم صرف یہی توقع کرسکتے ہیں۔