تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کےآدی واسی گاؤں واچتھی میں 20 جون 1992 کو محکمہ جنگلات اور پولیس کے اہلکاروں نے اسمگل کی گئی صندل کی لکڑی کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران گاؤں والوں پر تشدد کرنے کے علاوہ 18 خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔ مدراس ہائی کورٹ نے ملزمین کوقصوروار ٹھہرانے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
مدراس ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@Chennaiungalkaiyil)
نئی دہلی: ایک تاریخی فیصلے میں مدراس ہائی کورٹ نے گزشتہ جمعہ (29 ستمبر) کو تمام اپیلوں کو خارج کرنے کے سیشن کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا۔ سیشن کورٹ نے تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کے ایک آدی واسی گاؤں واچتھی میں 1992 میں صندل کی لکڑی کی اسمگلنگ کے سلسلے میں چھاپے کے دوران جنسی زیادتی سمیت تشدد کے دیگر واقعات کے لیے 215 لوگوں (تمام جنگل، پولیس اور محصولات کے محکموں کے افسران) کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس پی ویلمورگن نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘اس عدالت نے پایا ہے کہ تمام متاثرین اور استغاثہ کے گواہوں کے ثبوت ٹھوس اورمدلل ہیں، جو قابل اعتبار ہیں۔’انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے اپنے شواہدکے ذریعےاپنا معاملہ ثابت کر دیاہے۔
قابل ذکر ہے کہ 20 جون 1992 کو حکام نے اسمگلنگ کی صندل کی لکڑی کی تلاش میں واچتھی گاؤں پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپے کے دوران املاک اور مویشیوں کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور 18 خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔
سال 2011 میں دھرم پوری کی ایک سیشن عدالت نے اس معاملے میں محکمہ جنگلات کے 126 اہلکاروں کو مجرم قرار دیا تھا، جن میں چار انڈین فاریسٹ سروس کے افسران، 84 پولیس اہلکار اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے پانچ اہلکار شامل تھے۔ 269 ملزمان میں سے 54 مقدمے کی سماعت کے دوران انتقال کر گئے اور باقی 215 کو 1 سے 10 سال تک قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے جمعہ کو سیشن عدالت کو ہدایت کی کہ وہ تمام ملزمان کو ان کی سزا کی باقی مدت پوری کرنے کے لیے فوری طور پر تحویل میں لے۔
جسٹس ویلمورگن نے تمل ناڈو حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ2016 میں ایک ڈویژن بنچ کے حکم کے مطابق ہر ریپ سروائیور کو فوراً 10 لاکھ روپے کا معاوضہ جاری کیا جائے، اور جرم کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے مردوں سے 50 فیصدرقم وصول کی جائے۔
عدالت نے حکومت کو ملزمین کو بچانے کے لیے اس وقت کے ضلع کلکٹر، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی۔
جسٹس ویلمورگن نے اپنے فیصلے میں کہا،’گواہوں کے ثبوتوں سے یہ واضح ہے کہ ضلع کلکٹر، ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر اور ایس پی سمیت تمام عہدیداروں کو معلوم تھا کہ اصل مجرم کون تھے، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور حقیقی مجرمین کے تحفظ کے لیےمعصوم گاؤں والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لہذا، یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ استغاثہ نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام اپیل کنندگان نے جرم کیا ہے۔’
جج نے ریاستی حکومت کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ 18 ریپ سروائیور یا ان کے خاندان کے افراد کو مناسب ملازمتیں فراہم کرے۔
انہوں نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ واقعہ کے بعد واچتھی گاؤں میں معاش اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے فلاحی اقدامات کے بارے میں عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔
واچتھی کیس پر ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں 1995 میں سی بی آئی تحقیقات ہوئی، جس کے نتیجے میں 269 ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی، جن میں اس وقت کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ ایم ہری کرشنن اور دیگر سینئر افسران بھی شامل تھے۔