تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کے خلاف پرانی نفرت کا حملہ

مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگ‌کر رہے ہیں۔ اس ایک احمقانہ حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کےخلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔

مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگ‌کر رہے ہیں۔ اس ایک احمقانہ  حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کےخلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔ ایسا سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر مسلمانوں کی  مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

اچھا بتاؤ، تم اب جماعت کا دفاع کیسےکرو‌گے؟ ‘، میرےوالد نے کل صبح فون پر مجھ سے پوچھا۔ نہیں، وہ طنز نہیں کر رہے تھے اور نہ مجھےچیلنج دے رہے تھے۔

اب جب میں خود زندگی کی ڈھلان پر ہوں، کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں یا غیرہندوؤں کے متعلق کھلی نظر بنا ان کے نہ ہوتی۔

آج تک میرے لئے یہ حیران کن  ہے کہ 1962 میں آسام کے سلچر سے بہار کے سیوان آنےپر انہوں نے رہائش کے لئے شیخ محلہ کیوں چنا۔ اسلامیہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹرہاشم صاحب کے مکان میں بطور کرایہ دار رہنے کا فیصلہ انہوں نے کیوں کیا؟

میرے والد کو وہ سہولیت نہ تھی جو مجھے ہے۔ یعنی دیوگھر کے پنڈت سماج میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے ہندوؤں سے الگ سماج سے تعارف کا موقع ان کو نہ تھا۔

نوکریاں بدلتے ہوئے بہار کے سبور، بنگال کے براکر، آسام کے سلچر سے ہوتےہوئے جب وہ سیوان پہنچے تب تک بھی ان کے گہرے دوستوں میں غیر ہندوؤں کی تعدادزیادہ نہ ہوگی۔ کم سے کم میں نے ان سے اس حوالے سے وہ نام نہیں سنے جو غیر ہندوہیں۔

سال 1962 کی دوری 1947 سے آج کے مقابلے بہت کم تھی۔ قیام پاکستان کی وجہ سے ، مسلمانوں سے دوری  کی’خاطر خواہ’ وجوہات تھیں۔ والد کی عمر بھی کم ہی تھی۔

اسی لئے میں ہمیشہ حیران رہتا ہوں کہ ایک ہندو نوجوان ٹیچر ایک انجان قصبے میں کرایہ  پر رہنے کا فیصلہ کیوں کر کر سکا؟

یہ مضمون حالانکہ  والد کی یادداشت نہیں ہے۔ ان کے سوال اور اس کے بعد ہوئی بات چیت سے جڑا ہے۔

جب انہوں نے پوچھا کہ میرے پاس جماعت کے حق  میں کیا دلیل ہے تو ان کے دل میں چل رہی الجھن کو میں سن پا رہا تھا۔

 کیوں، میں کیوں جماعت کا دفاع کروں‌گا؟ ‘، میں نے جواب دیا۔ آج جماعت کہنے کا مطلب تبلیغی جماعت ہے حالانکہ جماعتیں اور بھی ہیں۔

کیا اس میں کوئی شک کی گنجائش ہے کہ جب دوسرے ممالک میں خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی تو محتاط نہ ہونا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں؟

تبلیغی جماعت کے ذمہ داران کو یہ گھنٹی سننی چاہیے تھی۔ خاص طورپر اس لئےکہ کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملے باہر کے ممالک میں پائے گئے تھے۔

چین نے شروعاتی ہچکچاہٹ کے بعد اس کی سنجیدگی کو سمجھ لیا تھا اور ہندوستان کی حکومت دوسرے ممالک میں گئے ہندوستانیوں کو واپس لانے کا خاص انتظام کر رہی تھی۔

ابھی بھی سرکاری طور پر اس کو آفت نہیں مانا گیا تھا، بلکہ ذمہ دار وزیراور حکمراں جماعت کے رہنما تو حزب مخالف جماعت کے رہنما راہل گاندھی کا مذاق اڑارہے تھے جو بار بار حکومت کو اس وائرس کے انفیکشن کے خطرے سے آگاہ کر رہے تھے۔

تبلیغی جماعت کو حکومت ہند کے حکم کا انتظار کئے بغیر پہلا کام کرنا تھاباہر سے آنے والوں کو منع کرنا۔

ان کے غیر ملکی مہمان انفیکشن کے ماخذ ہو سکتے تھے، یہ سمجھنے کے لئے ان کوکسی سرکاری سرکلر کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔

وہ ٹکٹ کٹا چکے تھے، حکومت ہند نے ہی ان کو ویزا دیا تھا، پروگرام کافی پہلے سے طے تھا جیسی دلیلیں کمزور ہیں۔

پروگرام رد کرنے کی قیمت بعد میں چکائی جا رہی قیمت کے مقابلے ہر طرح سےکم ہوتی، یہ تو اب معلوم ہو ہی رہا ہے۔

علاوہ اس کے کہ جماعت کے ممبروں، ان کے رشتہ داروں اور ان کے رابطہ میں آئےلوگوں کو اب اس انفیکشن کا خطرہ تو جھیلنا ہی ہے، اس کی وجہ سے جماعت کی جو بدنامی ہو رہی ہے، اس سے نکل پانا ان کے لئے بہت مشکل ہوگا۔

جماعت کے امیر نے اپنے پیروکاروں کو اگر کہا کہ اللہ ان کا حافظ ہے اور اس انفیکشن سے ان کو کوئی خطرہ نہیں، تو ہم جانتے ہیں کہ یہ حماقت اکیلے ان کی ملکیت نہیں۔

اچھے مسلمان نہ ہونے کی سزا خدا دے رہا ہے، یہ بات دوسرے مواقع پر بھی سنی گئی ہے۔ اس کو بیوقوفی‌کر ہنسی میں اڑا دیا جا سکتا تھا اگر اس سے پیدا ہونےوالی لاپروائی اتنی مہنگی نہ ہوتی۔

اس حساب سے مسلمان کے ساتھ جو بھی ناانصافی ہو رہی ہے، وہ بھی اللہ کی ہی مرضی ہے۔ اب جب جماعت کے ممبر بھی متاثر ہو رہے ہیں تو کیا اس کو بھی اللہ کی مرضی کہہ‌کر وہ خاموش ہو جائیں‌گے یا اس وجہ سے اپنے امیر کی عقل پر ان کو کچھ شک بھی ہوگا؟

کیونکہ کیا وہ اچھے مسلمان نہیں؟ پھر اللہ نے ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟کیا ان کا امتحان لینے کے لئے؟

اس کے بعد اب کچھ اور سوال ہیں۔ جماعت کے چیف بار بار کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے جب جب جو کہا، انہوں نے کیا۔

اس کا مطلب یہ ہے، اور یہ دوسرے سیاق میں بھی اتنا ہی ٹھیک ہے کہ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمارے لئے اطلاع اور سمجھداری کا آخری تصدیق شدہ ماخذصرف حکومت یا ریاست ہے۔

وہ بھی جو ایشور کو اعلیٰ ترین مانتے ہیں، آخرکار سرکاری عقل کے مطابق ہی اپنی زندگی کے فیصلے لیتے ہیں۔

ریاست کا یہ آفاقی اور ہمہ گیر اثر خطرناک ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ریاست بھی منطقی اور سائنسی بنیاد پر فیصلہ نہیں لیتی۔

نہ وہ ہمیں ساری اطلاع دیتی ہے۔ وہ اطلاع خود کو محفوظ رکھنے کے لحاظ سے ہی جاری کرتی ہے۔ اس کا مفاد اور مفاد عامہ ہمیشہ ایک نہیں ہوتے۔ اگر ہم آزادانہ شعورسےکام نہ لیں تو سرکاری عقل ہماری حفاظت نہیں کر سکتی۔

لیکن ہم نے دوسرے کم خطرناک مواقع پر بھی دیکھا ہے کہ وہ بھی، جن کاکاروبار عقل وشعور سے جڑا ہے، بنا سرکار کے سوچ نہیں پاتے۔

مثلاً، سرد لہر میں اسکول تب تک بچوں کو روکتے نہیں جب تک حکومت نہ کہے۔اس وقت بھی اگر حکومت خاموش رہتی تو یونیورسٹیوں میں کلاسز چلتی ہی رہتیں۔ تعلیمی اداروں نے خودسے کوئی پہل نہیں کی۔

سماج کے ذہن  کا سرکاری کرن ہمیں ایسے سوال پوچھنے نہیں دیتا۔ مثلاً، یہ پوچھنا چاہیے کہ اگر انفیکشن کا خطرہ تھا تو شادیوں اور مذہبی مواقع پر ہجوم پراسی وقت روک کیوں نہیں لگائی گئی جب باقی ہجوم پر لگا دی گئی تھی؟

احمد آباد کے وہ لوگ، جو دہلی میں تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شامل ہوئےتھے (فوٹو : پی ٹی آئی)

احمد آباد کے وہ لوگ، جو دہلی میں تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شامل ہوئےتھے (فوٹو : پی ٹی آئی)

انفیکشن تو کسی بھی گروہ میں ہو سکتا تھا؟ پھر شادی اور مذہبی انعقاد کیوں محفوظ مانے گئے؟

ظاہری طور پر حکومت عوام کی جذباتی دنیا سے الجھنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ایسا کرکے حکومت خود کو بچانا چاہتی ہے۔

معلوم پڑا کہ مہاراشٹر حکومت نے ایسے ہی ایک ہجوم کی منظوری رد کر دی تھی۔ پھر دہلی پولیس نے، جو مرکزی حکومت ہی ہے، کیوں جماعت کے ہجوم کی منظوری واپس نہیں لی؟

ڈھیر سارے پروگرام  ہو رہے تھے، اس لئے جماعت سے سوال کیوں، یہ کہنا بیوقوفی سےزیادہ کچھ نہیں۔ آپ جس کے لئے ذمہ دار ہیں، اس کے بارے میں آپ سے ہی سوال کیا جائے‌گا۔

جماعت صفر میں نہیں کام کرتی۔ اس کے کام کا اثر غیرجماعتی مسلمانوں اور غیرمسلمانوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس اجتماع کا بھی پڑنا تھا، یہ تو اب خبروں سے ظاہر ہے۔

جماعت کے امیر نے انفیکشن سے بچنے کے لئے اب خود کو تنہائی میں محفوظ کر لیاہے۔ ان کا یہ فیصلہ دنیاوی عقل کی وجہ سے لیا گیا ہے۔

شاید اس ایک واقعہ سے ان کے پیروکار کچھ سبق لے سکیں‌گے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں۔

مجرم قرار دیےجانے کے بعد بھی مذہبی رہنماؤں میں ان کے پیروکاروں کی  عقیدت کم نہیں ہوتی۔ وہ ایک الگ دنیاکے باشندہ ہوتے ہیں۔

یہ مضمون جماعت کے بارے میں نہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ جماعت ہندوستان کےمسلمانوں کے ایک چھوٹے سے حصے میں ہی مؤثر ہے۔ یہ ایک گم سم سماج ہے جو دنیا کےمعاملوں سے ضرورت نہیں رکھنا چاہتی۔

اس وجہ سے جماعت کبھی بھی کسی سیاسی سوال پر کچھ بولتی ہی نہیں۔ آپ نےجماعت اسلامی ، جمعیت علماء ہند جیسی تنظیموں کو سیاسی سوالات پر بات کرتے ہوئےسنا ہوگا ، لیکن تبلیغی جماعت اس طرح کے معاملات کو اپنے لئے قابل  غور نہیں سمجھتی ہے۔

دین یا ایمان، نماز کی پابندی، اذکار ، ورد، اکرام مسلم یعنی مسلمانوں کی عزت کرنا اور مذہب کی تشہیر کرنا، یہی تبلیغ ہے۔ اس کے علاوہ ہر چیزغیر متعلق ہے۔

گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہو یا بابری مسجد کا انہدام، یا مسلمانوں کی توہین یا ایسے قوانین جو انہیں دوسرے درجے کا شہری بناتے ہیں ، جماعت کے لئے سب بےمعنی ہیں اور وہ ان پربات سے پرہیز کرتی ہے۔

وہ ٹی وی اور اخبار سے بھی دور رہنے کی نصیحت دیتی ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی نقطہ نظر سے باخبر مسلمان تبلیغ کے اثر کو اچھا نہیں مانتے اور ٹھیک اسی وجہ سےمسلمان مخالف سیاست کو تبلیغ سے کوئی پریشانی نہیں رہی ہے۔

جماعت کے لوگ اسی لئے کبھی پولیس یا انتظامیہ کے لئے پریشانی نہیں کھڑی کرنا چاہتے کیونکہ وہ مذہبی کام بنا خلل کےکرتے رہنا چاہتے ہیں۔

دھیان رہے، ان کا کام مسلمانوں کے اندر ہی محدود ہے۔ وہ دیگر مذہبی پیروکارکو لےکر کوئی تشہیر نہیں کرتے۔ اسی لئے اس بار وہ بار بار دلیل دے رہے ہیں کہ حکومت نے ان کو جب جو کہا، انہوں نے تب وہی کیا۔

اس سے ان کی کم عقلی کا پتہ چلتا ہے لیکن یہ اجتماع ہندوستان کو کورونا سےمتاثر کرنے کی سازش تھی، یہ کہنا صرف زیادتی نہیں ہے، اس میں ایک شیطانی احساس ہے۔

کچھ لوگ اس کو قومی سلامتی میں بھاری چوک بتاکر اس پر کارروائی چاہتے ہیں۔چوک سب سے پہلے حکومت کی ہے جس نے جنوری میں ہی غیر ممالک میں کورونا کے انفیکشن کی سنجیدگی کی خبریں سن لی تھیں، لیکن جو خود غیر ملکی کے ساتھ بڑے پروگرام  کرتی رہی۔

چونکہ اس کو سیاسی فائدہ کے لئے غیر ملکی مہمان کا استقبال کرنا تھا، وہ دوسرے ممالک سے آنے والوں پر پابندیاں نہیں لگا سکتی تھی۔

اسی وجہ سے تبلیغ کے اس انعقاد میں باہر سے لوگ آ سکے اور وہ کورونا کےانفیکشن کے کریئر بنے۔ باہر سے آئے غیر مسلمان بھی اس انفیکشن کے شکار تھے، یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔

ان کی لاپروائی کی قیمت ان کے رشتہ داروں نے چکائی، جیسے تبلیغی جماعت کےامیر اور ان کے مہمان کی لاپروائی کی قیمت جماعت کے باقی ہندوستانی ممبر چکا رہےہیں۔

یہ معمولی لاپروائی نہیں ہے، مجرمانہ ہے کیونکہ اس نے جماعت کے ممبروں کےساتھ دوسروں میں کورونا کے انفیکشن کا بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ جماعت کے امیر میں قیادت کی خوبی نہیں ہے۔

اب ہم اس موضوع کے دوسرے پہلو پر آتے ہیں۔ مسلمانوں کے خیر خواہ تبلیغ والوں کو کڑی سزا دینے، یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے کی مانگ‌کر رہے ہیں۔

وہ سر پکڑ‌کے بیٹھ گئے ہیں کہ اس ایک احمقانہ حرکت نے عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف بیٹھے تعصب پر ایک اور تہہ جما دی ہے۔

اس طرح سوچنے والوں کو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو ہوں یا عیسائی، ان کے اندر  مسلمانوں کی  مخالفت کی وجہ مسلمانوں کی طرز زندگی یا ان کے ایک حصے کی جہالت نہیں ہے۔

اس مخالفت کی وجہ غیر مسلم سماج کو اپنے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ یہ مان لینا کہ مسلمان اگر خود کی ‘اصلاح ‘ کرلیں تو ان کے خلاف تعصب پگھلیں‌گے، ایک معصوم غلط فہمی ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

مسلمان اگر ‘ ترقی پسند ‘ ہے تو وہ مسلمان نہیں لگتا۔ ترقی پسند اورجدیدیت کی ساری شرطیں پوری کرنے والے مسلمانوں کو بھی فطری طورپر فراخ دل ہندومکان نہیں دیتے کیونکہ ہوتے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔

بائیں بازو کے مسلمان فیض احمد فیض ہوں یا بہت بہت سدھرے ہوئے جاوید اختر ، وہ نفرت کی کیچڑ سے بچ نہیں سکتے۔

اپنی مذہبی شناخت سے بےنیاز نصیرالدین شاہ ہوں یا عامر خان، ان کے ساتھ کیابرتاؤ کیا گیا ہے؟ ملحدعمر خالد ہو یا اللہ کو ماننے والے خالد سیفی، دونوں ہی مشکوک ہیں۔

تو کیا مسلمانوں کی’حددرجہ مذہبیت، ان کی’ قدامت پسندی ‘ کی وجہ سے ہی ان کے خلاف نفرت ہے؟

کیا اس سے آزاد کرنے والے اصلاحی تحریک سے مسلمانوں میں ایسی تبدیلی آ جائے‌گی کہ ہندوؤں کا دل ان کی طرف سے صاف ہو جائے‌گا؟

ان سوالوں پر ہندوستانی اکثریت سماج کیا کبھی ایمانداری سے غور کر پائے‌گی؟

میں پھر والد کی طرف ہی لوٹتا ہوں۔ ایک بند میتھل برہمن پنڈت سماج کےایک نوجوان نے کیوں بلا تکلف شیخ  محلے میں مکان لیا؟

کیوں کئی دہائی تک ہر طرح کے مسلمان اور ہر طرح کی مسلمانیت کو دیکھنے کےبعد بھی ان کے متعلق اس کا رخ نہیں بدلا، اب جب وہ نوجوان 90 کے قریب آ چلا ہے؟

کیوں اس نوجوان نے اپنے بڑے بیٹے کا نام اسلامیہ ہائی اسکول میں لکھوایا اوراس میں بھی کیوں مسلمانوں کو لےکر کوئی منفی نظریہ نہیں پیدا ہوا؟

کیا وہ دونوں غیر معمولی ہیں؟ کیا یہ سب ذاتی ہے؟ چاہیں تو آپ پڑھنے والے کہ ہسکتے ہیں کہ یہ آپ کا ایک ذاتی تجربہ ہے، اس کو عمومی نہ بنائیں ۔ عمومی نہ بنانے کی ہی مانگ تو اس طرف سے بھی ہو رہی ہے!

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ )

Next Article

آسام کے وزیر اعلیٰ کے ’جاسوسی‘ کے الزامات پر گورو گگوئی بولے – اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی چال

حال کے مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی کی اہلیہ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ گگوئی نے کہا کہ ان کے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم شرما کی جانب سے اپنے خاندان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔

گورو گگوئی۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گزشتہ چند مہینوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات پر اپنے پہلے عوامی تبصرے میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ اور پارٹی کے آسام کے نو منتخب صدر گورو گگوئی نے بدھ (28 مئی) کو کہا کہ انہیں بدنام کرنے کی مہم کا استعمال ‘کور’ کے طور پر کیا جا رہا ہے تاکہ کسی طرح کی ڈھال بنائی جا سکے یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو   چھپایا جا سکے جن میں وہ اپنے خاندان کے توسط سے ملوث رہےہیں۔

گگوئی نے شرما کی جانب سے ان کی اہلیہ الزبتھ کے خلاف پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ روابط کے الزامات کی تردید کی اور ان پر ‘سی گریڈ بالی ووڈ فلم’ کی سازش  کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 10 ستمبر کو ریلیز ہوگی اور بری طرح فلاپ ہوگی۔

گگوئی نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے 2011 میں ایک سال کے لیے پاکستان میں کام کیا تھا اور وہ 2013 میں ایک بار ان سے ملنے گئے تھے، لیکن انہوں نے سوال کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گزشتہ 11 سالوں میں مرکزی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کی ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں دی وائر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گگوئی نے کہا کہ شرما نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت اور بڑی جائیدادیں جمع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان کے خلاف یہ ہتک عزت کی مہم آسام کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے اپنے خاندان کی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اپنے خاندان کو غیر قانونی طریقے سے جمع کی  گئی دولت اور بھاری اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے جو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی کہ ان کے خاندان کے افراد کس طرح 17 کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں اور سرکاری ٹھیکے حاصل کر رہے ہیں۔ یہ ہتک عزت کی مہم کسی طرح کی ڈھال یا ان غیر قانونی سرگرمیوں کو چھپانے کے لیے ہے، جن میں وہ اپنے خاندان کےتوسط سے ملوث رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم نے عوامی پالیسی کے شعبے میں میری اہلیہ کے کردار کے بارے میں حقائق سامنے رکھے ہیں۔ میں نے گیارہ سال قبل اپنے ذاتی دورہ پاکستان سے متعلق حقائق پیش کیے ہیں۔ جب میرے خاندان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بات آتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت نجی اور ذاتی معاملہ ہے، لیکن حقائق اب سامنے آچکے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کو کوئی غیر قانونی چیز نظر آتی ہے تو اسے پبلک کرنا ان پر منحصر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چیف منسٹر آسام کے حقیقی مسائل پر توجہ دیں کیونکہ ہم ایسا ضرور کریں گے۔’

آسام کانگریس کی اہم آواز ہیں گورو گگوئی

سوموار  (26 مئی) کو کانگریس نے گگوئی کو آسام کانگریس کا صدر بنا کر بی جے پی اور شرما کو چیلنج کیا ہے۔

لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گگوئی کو پارلیامنٹ میں اپوزیشن کی ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور حالیہ مہینوں میں شرما کی جانب سے  ان کی اہلیہ پر پاکستان کی آئی ایس آئی کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات کو لے کر ان کےاور شرما کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ گگوئی کی تقرری کو اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل شرما کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

گگوئی نے بدھ کوپہلی بار شرما کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ٹائم لائن دیتے ہوئے کہا،’تقریباً 14-15 سال پہلے، میری اہلیہ، جو کہ ایک مشہور پبلک پالیسی ماہر ہیں، نے ایک بین الاقوامی پروجیکٹ پر کام کیا تھا،  جو جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہی تھی۔ 2011 میں، انہوں نے اس پروجیکٹ پر ایک سال پاکستان میں گزارا اور 2012-13میں ہندوستان واپس آگئیں۔ اور 2015 میں انہوں نےدوسری نوکری کر لی۔تقریباً 11-12 سال پہلے 2013 میں ایک بار ان کے ساتھ گیا تھا۔’

گگوئی نے کہا، ‘ان کا کام بدنام کرنا ہے، اس لیے وہ اسے سی گریڈ بالی ووڈ فلم بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جس کی ریلیز کی تاریخ 10 ستمبر دی گئی ہے اور یہ فلاپ ہو گی۔’

بتادیں کہ شرما حکومت نے گگوئی کے خلاف الزامات کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی (خصوصی تحقیقاتی ٹیم) تشکیل دی ہے، جو 10 ستمبر کو اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں نے یا میری بیوی نے کچھ غلط کیا ہے تو گزشتہ 11 سال سے کس کی حکومت ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اگر کوئی سرحد پار کرتا ہے تو کس طرح کی جانچ کی جاتی ہے۔ میں اپوزیشن لیڈر ہوں اور ایوان میں کھل کر بات کرتا ہوں۔ حکومت گزشتہ 11 سال سے کیا کر رہی ہے؟

گگوئی نے ایک ایسے وقت میں آسام کانگریس کی باگ ڈور سنبھالی جب پارٹی ریاست میں ایک دہائی کی بی جے پی کی حکمرانی کے بعد اپنی قسمت کو پھر سے سنوارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شرما، جو خود کانگریس کے سابق رہنما ہیں، اور گگوئی کے سخت حریف کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی تھی، جب کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے ریاست میں حد بندی کے بعد اپنے پہلے کے حلقہ کالیا بور کے بجائے جورہاٹ سے انتخاب لڑا تھا۔

کانگریس نے آسام کی 14 لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف تین پر کامیابی حاصل کی، لیکن جورہاٹ میں گگوئی کی جیت کو چیف منسٹرکےان کے خلاف انتخابی مہم کی وجہ سے جیت کے طور پر دیکھا گیا۔ تاہم، اس کے بعد سے کانگریس نے گزشتہ سال ضمنی انتخابات میں تمام پانچ سیٹیں کھو دی ہیں اور حالیہ پنچایتی انتخابات میں بھی اس نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

گگوئی نے کہا کہ انہیں آسام کانگریس کا نیا صدر نامزد کرکے کانگریس قیادت کے ذہنوں میں شکوک پیدا کرنے کی شرما کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘آسام کے وزیر اعلیٰ نے میرے خلاف کئی ذاتی حملے کیے ہیں، میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ میرا سیاسی کردار قومی میدان تک محدود ہے اور آسام میں میرا کردار کم سے کم ہے۔ لیکن حد بندی کے ذریعے، جس میں صرف میرا لوک سبھا حلقہ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور حالیہ مہینوں میں انہوں نے جس طرح کے الزامات لگائے ہیں، انہوں  نے خود ہی میرا قد بڑھا دیا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں اپنی پارٹی قیادت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وزیر اعلیٰ ایسے الزامات لگانے کی کوشش کر رہے تھے جس سے میری پارٹی قیادت کے ذہن میں میرے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہوں۔ میں اپنی پارٹی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا ساتھ دیا اور وزیر اعلیٰ کی چالوں کا شکار نہیں ہوئے۔’

شرما کا جوابی حملہ

گگوئی کے تبصرے کے فوراً بعد شرما نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے آخر کار اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

شرما نے کہا، ‘ہمیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ یہ صرف آغاز ہے، اختتام نہیں۔ آگے جو ہونے والا ہے وہ بہت زیادہ سنگین ہے۔ باوثوق ان پٹ اور دستاویزی معلومات کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی ہر معقول بنیاد موجود ہے کہ گگوئی نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی روابط بنائے رکھا ہے۔’

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرما نے کہا کہ گگوئی نے جان بوجھ کر یہ اعتراف آسام کانگریس کے صدر بننے کے بعد کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ 10 ستمبر قریب آ رہا ہے۔

شرما نے کہا کہ گگوئی کے خلاف ان کے الزامات کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ قومی سلامتی اور ہندوستان سے متعلق ہیں اور کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کی اہلیہ پر انہوں نے انٹلی جنس بیورو (آئی بی) میں  جاسوسی کرنے  کا الزام لگایا۔

شرما نے کہا، ‘ان کی بیوی ہماری آئی بی کی جاسوسی کر رہی تھی اور میرے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دستاویزموجود ہیں۔ ترون گگوئی (آسام کے سابق وزیر اعلیٰ اور گگوئی کے والد) کے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ہماری ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ میں اپنا کردار تیار کیا۔ یہ ایک مخصوص ماحولیاتی کارکن گروپ کی جانب سے جاسوسی تھی۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

گھر-گھر سیندور بانٹنے کے منصوبے پر ہر طرف سے تنقید کا سامنا کرنے والی بی جے پی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا

اس ہفتے کی شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بی جے پی گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حکومت کی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے ایک پروگرام کے تحت ہر گھر خواتین کو سیندوربھیجے گی۔ اس پرسخت تنقید کا سامنا کرنے کے چند دنوں بعد پارٹی نے اس خبر کو ہی فرضی بتا دیا ہے۔

بی جے پی رہنما اگنی مترا پال اور بنگا ناری شکتی کے دیگر اراکین کولکاتہ میں ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کا جشن منانے کے لیے ‘ابھینندن یاترا’ میں شرکت کرتے ہوئے۔ (تصویر؛پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جمعہ (30 مئی) کو اس بات کی تردید کی کہ پارٹی ‘آپریشن سیندور’ کی کامیابی کو عوام کے درمیان پہنچانے کے اپنے منصوبے کے تحت خواتین کو سیندور تقسیم کرے گی۔ پارٹی نے اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبروں  کو ہی  ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ خبر اس وقت آئی، جب بی جے پی نے گزشتہ 11 سالوں میں اپنی حصولیابیوں کا جشن منانے کے لیے آؤٹ ریچ پروگرام کا اعلان کیا، جو  9  جون کو شروع ہونے والا ہے۔ اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تیسری مدت کے لیے حلف لیا تھا۔

اگرچہ پارٹی نے اپنے منصوبوں کی کوئی تفصیلات باضابطہ طور پر شیئر نہیں کی ہیں، لیکن بتایا گیا ہے کہ ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس پروگرام میں مرکزی وزراء اور ممبران پارلیامنٹ سمیت بی جے پی قیادت کی ‘پدایاترا’ کا منصوبہ ہے، جس میں دیگر حصولیابیوں کے علاوہ آپریشن سیندور اور ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں مرکز کے فیصلے پر روشنی ڈالی جائے گئی۔

معلوم ہو کہ اس ہفتے کی  شروعات میں کچھ میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت بی جے پی ہر گھر خواتین کو سیندور بھیجے گی اور مرکزی حکومت کی حصولیابیوں کو اجاگر کرنے والے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جائیں گے۔

تاہم، بی جے پی نے اب اس کی تردید کی ہے اوردینک بھاسکر کی رپورٹ کو اپنے آفیشل ہینڈل سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کرتے ہوئے، اسے ‘فرضی’ قرار دیا ہے۔

اس میں لکھاگیا ہے، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی یہ خبر پوری طرح سے جھوٹی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے گھر گھر جا کر سیندور بانٹنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھا ہے۔’

بی جے پی کی جانب سے سیندور بانٹنے کی منصوبہ والی کی خبروں پر اپوزیشن نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کے سیندور بانٹنے کے منصوبے کی خبروں پر اپوزیشن لیڈروں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے اس رپورٹ کو پارٹی کی طرف سے ‘اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے’ کی کوشش قرار دیا۔

دی ہندو کے مطابق، کانگریس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا، ‘یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ مودی حکومت اپنی سیاسی اور سفارتی ناکامی کو چھپانے کے لیے سیندور کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مودی حکومت مسلح افواج کی جاں بازی اور بہادری کا کریڈٹ لینے کے لیے کس حد تک گر سکتی ہے؟’

راگنی نائک نے دعویٰ کیا، ‘جب نریندر مودی ملک کے ہر ضلع اور ہر کونے میں آپریشن سیندور کے بڑے بڑے پوسٹر لگانے سے مطمئن نہیں ہوئے، جن پر ان کی تصویر لگی ہوئی تھی،فوج کی وردی پہنے ہوئے… اب بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ گھر- گھر جا کر ‘سیندور’ تقسیم کرے گی۔’

معلوم ہو کہ حالیہ دنوں میں بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو آپریشن سیندور کی واضح سیاست کاری  کو لے کر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دریں اثنا، بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے ان رپورٹوں کی تردید کی ہے، اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ‘بے بنیاد رپورٹ کو سیاست کے لیے ٹرول کی طرح استعمال کر رہی ہیں’اور اسے سامنے لانے کے لیے کانگریس  کے ترجمان کو ‘ہلکے لوگ’ کہا ہے۔

مالویہ نے ایکس پر لکھا، ‘دینک بھاسکر میں شائع ہونے والی اس فرضی خبر کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اصل مضحکہ خیزی اس وقت شروع ہوئی جب مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے آفیشیل سرکاری پلیٹ فارم سے اس بے بنیاد رپورٹ پر سیاست کرنا شروع کر دی۔’

انہوں نے کہا، ‘ممتا بنرجی کو اپنی ریاست کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے اور قومی سلامتی جیسے حساس مسائل پر مضحکہ خیز بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ مغربی بنگال فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جل رہا ہے، خواتین محفوظ نہیں ہیں، بے روزگاروں کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے – یہ ممتا بنرجی کی ترجیحات ہونی چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘جہاں تک کانگریس کے ترجمانوں کا تعلق ہے – وہ ہلکے لوگ ہیں۔ ان سے بہتر کی توقع رکھنا بے معنی ہوگا۔’

اگرچہ بنرجی نے اس رپورٹ کا براہ راست حوالہ نہیں دیا تھا، لیکن انہوں نے پی ایم مودی پر آپریشن کے نام کے ساتھ ‘سیاسی ہولی ‘ کھیلنے کا الزام لگایا اور پوچھا تھاکہ وہ اپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے۔

وزیر اعظم کےآپریشن سیندور کےسیاسی استعمال کے خلاف  کسی بھی اپوزیشن لیڈر کی طرف سے  یہ  عوامی طور پر پہلی مذمت تھی۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنرجی نے کہا، ‘آپریشن سیندور کا نام ایک سیاسی مقصد کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گی۔ جب تمام اپوزیشن لیڈر بیرون ملک مادروطن کے لیے بول رہے ہیں ، اس وقت  وزیراعظم سیاسی ہولی کھیلنے آئے ہیں- یہ وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا۔’

بنرجی نے کہا، آپریشن سیندور کے بارے میں، اگرچہ میرے پاس کوئی تبصرہ نہیں ہے، براہ کرم یاد رکھیں کہ ہر عورت احترام  کی مستحق ہے۔ وہ اپنے شوہروں سے سیندور لیتی ہیں۔ پی ایم مودی کسی کے شوہر نہیں ہیں، آپ  پہلےاپنی بیوی کو سیندور کیوں نہیں دیتے؟ ‘

دریں اثنا، کانگریس کی ترجمان سپریا شرینتے نے بھی مالویہ کے تبصروں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی تنقید کی وجہ سے اپنی مہم واپس لینے پر مجبور ہوئی۔

انہوں نے ایکس پر لکھا،’اب وہ سستی اسکیم کو فرضی خبربتارہے ہیں ۔’

قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دو ہفتوں میں کئی ریلیوں اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا ہے، جہاں انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے سیندور لفظ  کااستعمال کیا ہے۔

تاہم، انہوں نے ابھی تک اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ پہلگام حملے کے مجرم ابھی تک کیوں نہیں پکڑے گئے، یا حملے کی تحقیقات کی کہاں تک پہنچی ہے۔

Next Article

اتراکھنڈ: انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں بی جے پی کے سابق وزیر کے بیٹے سمیت تین مجرم قرار، عمر قید

ستمبر 2022 میں پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرنے والی  19 سالہ انکیتا بھنڈاری کاقتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی سے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے دو عملے کے ارکان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب انہیں مقامی عدالت نے مجرم قرار دیا ہے۔

انکیتا بھنڈاری کے قتل میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  جمعہ (30 مئی) کو پوڑی کی ایک عدالت نے اتراکھنڈ کے مشہورزمانہ انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں تینوں ملزمان کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رینا نیگی نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت سمیت تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے ساتھ ہی  پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کی صبح انکیتا کی ماں سونی دیوی نے کہا، ‘میں مطالبہ کرتی ہوں کہ ملزمین کو پھانسی دی جائے… میں اپنی بہنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس کے(انکیتا کے) والدین کا ساتھ دیں…’

انکیتا کے والد بیریندر بھنڈاری نے بھی ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2023 میں سی ایم پشکر سنگھ دھامی نے انکیتا کے نام پر نرسنگ کالج بنانے کی بات کی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

معلوم ہو کہ 19 سالہ انکیتا بھنڈاری پوڑی گڑھوال کے ایک ریزورٹ میں کام کرتی تھیں اور 18 ستمبر 2022 کو انہیں اس لیے قتل کر دیا گیا تھاکہ انہوں نے مبینہ طور پر کسی وی آئی پی مہمان کو ‘خصوصی خدمات’ (جنسی کام کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

انکیتا کےقتل کے چھ دن بعد اس کی لاش ایک نہر سے برآمد ہوئی تھی۔ ریزورٹ کے مالک اور بی جے پی کے نکالے گئے لیڈر ونود آریہ کے بیٹے پلکت آریہ اور ان کے عملے کے ارکان – سوربھ بھاسکر اور انکت گپتا کو انکیتا کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس دوران کلیدی ملزم پلکت نے خود کو بے قصور ظاہر کرنے کے لیے ریونیو ڈپارٹمنٹ میں انکیتا کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ انکیتا کے اہل خانہ نے الزام لگایا تھاکہ ریونیو پولیس شروع میں اس معاملے میں خاموش رہی اور بعد میں 22 ستمبر کو کیس کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں، خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے 2023 میں ایک رپورٹ بھی جاری کی تھی، جس میں ایس آئی ٹی پر تحقیقات میں جان بوجھ کر لاپرواہی برتنے اوروننترا ریزورٹ پر بلڈوزر چلانے، پولیس ریمانڈ کی مانگ نہ کرنے اور ریونیو پولیس سے لے کراتراکھنڈ پولیس کے گول مول کردار پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ اس دوران اتراکھنڈ پولیس نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس میں انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے آزاد صحافی اور ‘جاگو اتراکھنڈ’ کے ایڈیٹر آشوتوش نیگی کو بھی گرفتار کیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کو ان جیسے نام نہاد ایکٹوسٹ کی منشا پر شک ہے۔ ان کا ایجنڈا انصاف کا حصول نہیں بلکہ معاشرے میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنا ہے۔

اس معاملے میں ایس آئی ٹی کی جانچ کے بعد استغاثہ نے 500 صفحات کی چارج شیٹ عدالت میں داخل کی تھی ۔ خاندان نے نے معاملے میں حکومت کی جانب سے پیروی کر رہے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر جتیندر راوت کی منشا پر بھی سوال اٹھائے تھے،  جس کے بعد انہوں نے خود کو کیس سے الگ کرلیا تھا۔ اس معاملے میں تاخیر کو لے کر حکومت اور انتظامیہ پر مسلسل سوالات اٹھ رہے تھے۔

تقریباً دو سال آٹھ ماہ تک جاری رہنے والے مقدمے کی سماعت میں استغاثہ کی جانب سے تفتیشی افسر سمیت 47 گواہان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 19 مئی کو استغاثہ کے وکیل اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے دفاع کے دلائل کا جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی سماعت مکمل ہوگئی۔

اس کے بعد عدالت نے فریقین کے دلائل اور بحث سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے لیے 30 مئی کی تاریخ مقرر کی تھی۔

Next Article

پنجاب کے تین نوجوان ڈنکی روٹ سے ایران پہنچنے کے بعد لاپتہ، اہل خانہ کا اغوا اور مارپیٹ کا الزام

پنجاب کے جسپال سنگھ، امرت پال سنگھ اور حسن پریت سنگھ اس مہینے کی پہلی تاریخ سے لاپتہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعد سے ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے ۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فلکر ڈاٹ کام

جالندھر: پنجاب کے ہوشیار پور، نواں شہر اور سنگرور اضلاع کے تین افراد، جو اپنے گاؤں سے ‘ڈنکی’ روٹ سے آسٹریلیا کےلیے نکلے تھے، کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر پاکستانی ایجنٹوں نے مبینہ طور پراغوا کر لیا ہے۔ یہ الزامات ان لوگوں کے گھر والوں نے لگائے ہیں۔

جسپال سنگھ (32)، امرت پال سنگھ (23) اور حسن پریت سنگھ (27) نام کے تین افراد یکم مئی سے لاپتہ ہیں۔ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً 12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعدسے  ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے۔

دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ ان تینوں کے جسم پر گہرے زخم تھے اور انہیں مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے یرغمال بنانے کے بعد بے دردی سے مارا پیٹا تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے ان تینوں سے رہائی کے بدلے  18-18 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے میں متعلقہ اضلاع میں تینوں کے اہل خانہ کی شکایات پر ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143 (کسی شخص کی اسمگلنگ)، 318 (4) (دھوکہ دہی)، 61 (2) (مجرمانہ طور پرسازش) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ، 2014 کی دفعہ 13کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی  ہے۔

ایف آئی آر کے بارے میں  علم ہوتے ہی ٹریول ایجنٹ فرار

اہل خانہ نے بتایا کہ ایف آئی آر کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد ٹریول ایجنٹ مبینہ طور پر فرار ہوگئے اور انہیں بتایا کہ وہ تینوں کا سراغ لگانے کے لیے ایران جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایران کے تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا اور کہا، ‘تین ہندوستانی شہریوں کے اہل خانہ نے ہندوستانی سفارت خانے کو مطلع کیا ہے کہ ان کے رشتہ دار ایران کا سفر کرنے کے بعد لاپتہ ہیں۔ سفارت خانے نے اس معاملے کو ایرانی حکام کے ساتھ زوردار طریقے  سے اٹھایا ہے اور درخواست کی ہے کہ لاپتہ ہندوستانیوں کا فوراً پتہ لگایا  جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ہم سفارت خانے کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں خاندان کے افراد کو بھی باقاعدگی سے اپڈیٹ کر رہے ہیں۔’

غور طلب ہے کہ ایران میں ہندوستانیوں کے لیے صرف سیاحت کے مقاصد کے لیے 15 دنوں  تک کے لیے ویزا فری پالیسی ہے، جس سے ‘ڈنکی’ روٹ کے لیے ایک ممکنہ راستہ بن جاتا ہے۔

معلوم ہو کہ ڈنکی غیر قانونی امیگریشن کا ایک طریقہ ہے، جس میں اکثر خطرناک راستے شامل ہوتے ہیں۔ ایران ،پاکستان، افغانستان، ترکی، عراق، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا سے گھرا ہوا ہے۔

یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب حال ہی میں 5 فروری کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیے گئے لوگوں کو لے کر پہلا فوجی طیارہ امرتسر پہنچا تھا۔ اس کے بعد سے پچھلے تین مہینوں میں 400 سے زیادہ ہندوستانیوں کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

اٹھارہ-اٹھارہ لاکھ روپے اضافی مانگے

دی وائر سے بات کرتے ہوئے ضلع نواں شہر کے گاؤں لنگرویا سے تعلق رکھنے والے جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے بتایا کہ یکم مئی 2025 کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر اترنے کے فوراً بعد ان کے بھائی اور دو دیگر کو پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا۔

انھوں نے کہا، ‘جیسے ہی وہ ہوائی اڈے سے باہر نکلے،ڈونکرزان کی تصویریں لے کر ان کے پاس آئے اور ان کی شناخت کی تصدیق کی۔ تاہم، جب وہ کار میں بیٹھے اور بیچ راستےمیں پہنچے تو ڈونکروں نے انہیں بتایا کہ ان کا اغوا کر لیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ انہیں ڈانکروں کی طرف سے پہلی کال یکم مئی کو موصول ہوئی، جس کے دوران ان کے بھائی نے خاندان کو بتایا کہ انہیں اور دو دیگر افراد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے بھائی نے پہلےہمیں یکم مئی کو تقریباً 2 بجے جاگتے رہنےکے لیے کہا تھا، یہی وہ وقت تھا جب پاکستانی ڈونکرز نے ویڈیو کال کی اور ہر ایک سے 18 لاکھ روپے اضافی کا مطالبہ کیا۔ میرے بھائی کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے ہم نے پہلے ہی 18 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔’

مزدور کے طور پر کام کرنے والے اشوک کمار کے مطابق، خاندان نے رشتہ داروں اور دوستوں سے رقم ادھار لے کر جسپال سنگھ کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے 18 لاکھ روپے کا بندوبست کیا تھا۔

روتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم 11 مئی تک جسپال سے رابطے میں تھے، اس کے بعد ہمارا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ پاکستانی ڈونکرز نوجوانوں کو یرغمال بناکر ان کے کپڑے اتارکر، ان کے جسم پر  گہرے زخم دکھاتے ہوئے، انہیں بے رحمی سے پیٹتے ہوئےہم سے بات کرواتے تھے، اس دوران وہ خود کو بچانے کی درخواست کرتے تھے،نہیں تو پاکستانی ڈونکر انہیں مار ڈالیں گے۔’

انہوں نے کہا کہ ڈونکرز نے انہیں اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹس بھی دیے اور ان سے پیسےدینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں بچا ہے اور ہندوستان سے پاکستان کو کوئی بھی ادائیگی کرنا ناممکن ہے۔ لیکن، انہوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے بیٹوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔’

اسی طرح ہوشیار پور کے بھوگووال لڈن گاؤں کے امرت پال سنگھ کی والدہ گردیپ کور نے دی وائر کو بتایا کہ ان کا بیٹا 25 اپریل 2025 کو دبئی گیا تھا ،جہاں سے وہ ایران پہنچا۔

انہوں نے کہا، ‘جسپال یکم اپریل کو دبئی پہنچا، جبکہ دیگر دو لڑکے بعد میں اس کے ساتھ شامل ہوئے۔ میرا بیٹا اور دیگر دو نوجوان صرف ویڈیو کال کے ذریعے ہم سے رابطے میں رہے، اس دوران پاکستانی ڈونکرز نے ان کی پٹائی کی۔ وہ ڈونکرز کے چنگل سےانہیں  بچانے کی درخواست کر رہے تھے۔’

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے بات کرتے ہوئے 12 دن گزر چکے ہیں، انہیں امید ہے کہ ہندوستانی حکومت کی مداخلت سے ان کی جان بچ جائے گی۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، گردیپ کور بھی کپڑے سلائی کر کے گھر چلاتی  ہے اور نقلی ٹریول ایجنٹس کے خطرناک گٹھ جوڑ کا شکار ہو گئی، جو پنجاب اور مرکزی حکومتوں کے دعووں کے باوجود، سادہ لوح نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

دریں اثنا، سنگرور کے دھوری سے تعلق رکھنے والے حسن پریت کے خاندان نے مرکزی حکومت سے پرزور اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے کو بحفاظت گھر واپس لانے میں مدد کرے۔ اہل خانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے تقریباً 10 دن تک رابطے میں تھے، جس کے بعد انہیں کوئی کال یاپیغام نہیں آیا۔

امرت پال سنگھ کے اہل خانہ نے ہوشیار پور کے ایم پی راج کمار چبیوال اور پنجاب کے این آر آئی امور کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان سے اپنے بیٹے کی جلد رہائی کی اپیل کی ہے۔

جسپال اور حسن پریت کے اہل خانہ نے مقامی رہنماؤں سے بھی ملاقات کی ہے اور ان سے اپنے بیٹوں کو اس مصیبت سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

علی گڑھ: بیف اسمگلنگ کے نام پر تشدد کے بعد آئی فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کا دعویٰ خارج

علی گڑھ میں چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر ہندوتوا تنظیموں کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔ اب فرانزک رپورٹ میں گائے کے گوشت کے دعوے کو خارج کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی ملزمین نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو اسی جگہ پرنشانہ بنایا۔

اوپر: گرفتار ملزم کو ، یو پی پولیس نےایکس اکاؤنٹ پراس کی  جانکاری شیئر کی۔ نیچے: علی گڑھ حملے کے زخمی متاثرین

نئی دہلی: 24 مئی کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے چار مسلم نوجوانوں پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا کر حملہ کیا تھا ۔ اب اس معاملے میں پولیس ذرائع نے دی وائر کو بتایا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت گائے کا نہیں تھا۔

ہردوآ گنج تھانے کے ایس ایچ او دھیرج کمار نے تصدیق کی کہ متھرا کی سرکاری لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے گوشت کے نمونے کی رپورٹ نے اس حقیقت کو مسترد کر دیا ہے کہ یہ گائے کا گوشت ہے۔

بدھ (28 مئی) کی صبح علی گڑھ پولیس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس بابت پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کے الزامات جھوٹے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں یہ دوسرا موقع تھا جب انہی  ملزمین کے گروہ نے متاثرہ افراد کی گوشت لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس بار حملہ آوروں نے گاڑی کو آگ لگا دی اور ہائی وے کو بلاک کر دیا۔

حملے کا ایک نیا ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے، جس میں ملزم پولیس کی موجودگی میں ایک بے ہوش متاثرہ کو پولیس کی گاڑی سے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالتے نظر آرہے ہیں۔ جن چار متاثرین کی شناخت ہوئی وہ ہیں-ارباز، عقیل، قدیم اور منا خان ہیں۔ سب علی گڑھ کے اترولی قصبے کے رہنے والے ہیں۔ الزام ہے کہ ہجوم نے انہیں برہنہ کیا اور تیز دھار ہتھیاروں، اینٹوں، لاٹھیوں اورراڈ سے بے دردی سے پیٹا۔

ایس ایچ او دھیرج کمار نے دی وائر کو بتایا کہ اس کیس میں چار ملزمین کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے تین کا نام پہلےسے ایف آئی آر میں درج تھا، جبکہ چوتھے ملزم کی شناخت ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر کی گئی۔

ملزمین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں 191 (3) (مہلک ہتھیار سے دنگا)، 109 (قتل کی کوشش)، 308 (5) (موت کی دھمکی دے کر جبری وصولی) اور 310 (2) (ڈکیتی) شامل ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ چاروں متاثرین کو مقامی پولیس نے بچا یا تھا، لیکن تب تک وہ شدید زخمی ہو چکے تھے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) امرت جین نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے زخمی افراد کو علی گڑھ کے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں داخل کرایا، جہاں تینوں  کی حالت تشویشناک ہے۔

حملے اور فرانزک رپورٹ کے بعد اب متاثرین کے اہل خانہ نے انتظامیہ سے تمام حملہ آوروں کو گرفتار کرنے اور متاثرین کے خلاف درج ‘جھوٹی’ ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

معلوم ہو کہ ایک مقامی شخص وجئے بجرنگی نے چار مسلم نوجوانوں کے خلاف گائے کے ذبیحہ سے متعلق ایکٹ 1955 کی دفعہ 3، 5 اور 8 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔حالانکہ پولیس نے وجئے بجرنگی کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن ایف آئی آر کو ابھی تک رد نہیں کیا گیا ہے۔

عقیل کے بھائی محمد ساجد نے کہا کہ لیب رپورٹ سے واضح ہو گیا ہے کہ ضبط کیا گیا گوشت ‘بھینس’ کا تھا، اس لیے اب جھوٹے مقدمے کو ختم کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘حقیقت اب پوری دنیا اور میڈیا کے سامنے ہے۔ اس نے خود کو بچانے کے لیے یہ جھوٹا مقدمہ درج کروایا تھا۔ اگر حکومت خود اس کو ختم نہیں کرتی تو اس سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارے لیے دوہری مار ہے۔’

انہوں نےمزید کہا کہ ‘مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ یہ فرضی کیس واپس لے لیا جائے گا۔’

اپوزیشن نے کی تھی مذمت

کانگریس، سماج وادی پارٹی، عام آدمی پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم جیسی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے حملے کی مذمت کی تھی اور بعد میں متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات  بھی کی  ہے۔

گزشتہ 27 مئی کو بھیم آرمی چیف اور نگینہ کے ایم پی چندر شیکھر آزاد نے علی گڑھ کے جواہر لال نہرو اسپتال میں متاثرین سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ ‘ یہ صرف امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں اور غریب  لوگوں کے کاروبار پر منظم حملہ ہے ۔’

عقیل کے والد سلیم نے پہلے دی وائر کو بتایا تھا کہ جب سے یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ان کا کام کاج  پوری طرح سے ٹھپ ہوگیا ہے اور ان کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی  ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے پاس لائسنس  بھی تھا اور گوشت کا نمونہ بھی پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا۔

وہیں، ساجد نے کہا، ‘یہ جو گئو رکشک ہیں ،یہ اب بھتہ خور گینگ بن چکے ہیں۔ انہیں حکومت کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اس بار حملہ پولیس کی موجودگی میں ہوا۔ اسے پولیس کی گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ بی جے پی، آر ایس ایس، بجرنگ دل – یہ سب ایک ہی ہیں۔ انہوں نے سماج کو ہندو-مسلمان کے نام پر تقسیم کرنے کے لیے غنڈہ گردی کا ماحول بنایا ہوا ہے۔ کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جا رہا تھا، پھر بھی حملہ کیا گیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)