ملک گیرلاک ڈاؤن کو تین مئی تک بڑھائے جانے کے بعد ایک رضاکار گروپ اسٹرینڈیڈ ورکرس ایکشن نیٹ ورک(ایس ڈبلیو اے این) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے ۔یہ رپورٹ اس دوران شہروں میں پھنسے مہاجر مزدوروں کے بھوک کی صورت حال اور معاشی بدحالی کو دکھاتی ہے۔
نئی دہلی: ملک گیر لاک ڈاؤن کو تین مئی تک بڑھائے جانے کے بعد ایک رضاکار گروپ نے رپورٹ جاری کی ہے ۔یہ رپورٹ اس دوران شہروں میں پھنسے مہاجر مزدوروں کے بھوک کی صورت حال اور معاشی بدحالی کو دکھاتی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، کو رونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کئے جانے کے دو دن بعد 27 مارچ سے ہی ماہرین تعلیم اور بھوک کے حقوق کو لے کر کام کرنے والےکارکنوں کو مہاراشٹر، کرناٹک، اتر پردیش، پنجاب، دہلی اور ہریانہ میں پھنسے ہوئے مہاجر مزدوروں کی تشویش ناک حالت کی اطلاعات ملنے لگی تھیں۔
بنگلور کے عظیم پریم جی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر راجیندرن نارائنن نے کہا، ‘پہلے تو ہم نے پیسے دینے کی کوشش کی لیکن جلد ہی ہمیں پتہ چلا کہ بحران کا پیمانہ بہت بڑا تھا۔’گزشتہ13 اپریل تک اسٹرینڈیڈ ورکرس ایکشن نیٹ ورک (ایس ڈبلیو اے این) کے 73 رضاکاروں کے گروپ سے پھنسے ہوئے مزدورں کے 640 گروپس نے رابطہ کیاتھا، جن کی ملک بھر میں تعداد 11159 تھی۔ انہوں نے مزدورں کو نقد ٹرانسفر (3.8 لاکھ روپے) میں مدد کی، انہیں مقامی تنظیموں سے جوڑا اور سرکاری سہولیات کا انتظام کیا۔
نارائنن نے کہا، ‘حالانکہ یہ ایک ریسرچ پروجیکٹ کے طور پر شروع نہیں ہوا تھا لیکن ہم نے جو ڈیٹا جمع کیا ہے، وہ لاک ڈاؤن کے مہاجر مزدوروں کے تجربے کو سمجھنے میں مدد کر سکتا ہے۔’گروپ سے رابطہ کرنے والے اکثر مزدوروں نے شہروں میں رہنا چنا تھا یا لمبی دوری طے کرکے گھر جانے میں ناکام رہے۔ 13 اپریل تک جو فون آئے ان میں سے لگ بھگ آدھے (44 فیصدی) فون ایس اوایس تھے جس میں لوگ کھانے یا پیسے کی مانگ کر رہے تھے۔ وہیں، لاک ڈاؤن کے دوسرے ہفتے تک یہ تعداد 36 فیصدی تھی۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ کوششوں اور وعدوں کے باوجود ریاستی اورمرکزی حکومتیں مہاجر مزدوروں تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔ مثال کے طورپر 96 فیصد کو سرکار سے راشن نہیں ملا تھا اور 70فیصد کو پکا ہواکھانانہیں ملا تھا۔3992 مہاجر مزدوروں کے سیمپل والے مہاراشٹر میں 1 فیصد سے کم کو ہی سرکار سے راشن ملا تھا اور لگ بھگ 90 فیصد کو ڈر تھا کہ دو دنوں میں ان کا راشن ختم ہو جائےگا۔
ممبئی میں رضاکاروں کو کھانے اور راشن کا انتظام کرنے میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جہاں کے ایک اسٹیشن پر پچھلے ہفتے مہاجر مزدور بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا، ‘اینٹاپ ہل اور ممبئی جیسی جگہوں پر ہمیں 300 سے زیادہ مہاجر مزدور ملے۔ وہ پکے ہوئے کھانا کی مانگ کر رہے ہیں اور ڈبابند کھانا کھانے کی وجہ سے بچوں کے بیمار پڑنے کی کئی خبریں ہیں۔ وہ باربار بے مطلب ہیلپ لائن پر کال کرتے ہیں۔ تلوجا پنویل حلقہ میں لگ بھگ 600 مہاجر پھنسے ہوئے ہیں، جن میں کچھ ہفتہ سے کم عمر کے بچہ اورخواتین بھی ہیں۔ ان علاقوں میں کام کرنے والی تنظیموں کے پاس اتنی بڑی تعدادکی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سرکار کو جلدی سے جلدی قدم بڑھانے ہوں گے۔’
رپورٹ نے دعویٰ کیا کہ بھوک اور بحران کی شرح مہیا کرائی جا رہی راحت سے کہیں زیادہ ہے۔ سرکار سے راشن نہ ملنے والوں کی تعداد 8 اپریل کے 99 فیصدی سے 13 اپریل کو 96 فیصدی ہوئی ہے۔ دوسرےلفظوں میں کہیں تو دوہفتہ کے لاک ڈاؤن کے بعد صرف ایک فیصد پھنسے ہوئے مزدوروں کو سرکار سے راشن ملا جبکہ تین ہفتہ کے لاک ڈاؤن میں ان میں سے صرف 4 فیصد کو سرکار سے راشن ملا تھا۔رپورٹ کے مطابق،مرکزی وزارت داخلہ کے ایک حکم کے باوجود 89 فیصد مزدورں کو ان کے مالکوں کے ذریعے لاک ڈاؤن کے دوران ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔
نارائنن نے کہا، ‘عزت مآب سی جےآئی نے پوچھا ہے کہ کھانےملنے پر مزدورں کو نقدی کی ضرورت کیوں ہونی چاہیے۔ لیکن جب وہ چھوٹے گروپس میں پھنسے ہوتے ہیں تو کئی مزدروں کے لیے نقد رقم ایک لائف لائن کی طرح ہوتی ہے۔ انہیں دوائیوں کی ضرورت ہوتی ہے یا اپنا فون ری چارج کروانا ہوتا ہے جس سے وہ مدد مانگ سکتے ہیں۔ حالانکہ، 300 روپے سے کم بچے ہونے پر، وہ ایک غیر یقینی کی حالت میں ہیں۔’
مہاجر مزدوروں کی اس پریشانی سے نپٹنے کے لیے ایس ڈبلیو اے این رپورٹ میں تین مہینے کے لیے پی ڈی ایس راشن کو دوگنا کرنے اور اس کی پہنچ کو جامع بنانے، ہر ایک لاکھ لوگوں پر 70 ہزار سینٹروں کے توسط سے کم ازکم دو وقت پکے ہوئے کھانے کو یقینی بنانا، بنا بایومیٹرک جانکاری کے ہر غریب فیملی یا مہاجر مزدور کو دو مہینوں کے لیے ہر ماہ 7000 ہزار کی ایمرجنسی نقد راحت اور ان کے جن دھن کھاتے میں ہرماہ 25 دنوں کے لیے کم ازکم مزدوری جاری کی جائے۔
اس سے پہلے ایک غیر سرکاری تنظیم جن سہس کے ذریعے 3196 مہاجر مزدوروں کے بیچ کئے گئے مطالعےسے پتہ چلا تھا کہ 42 فیصدی گھروں میں ایک دن کا بھی راشن نہیں ہے۔سروے میں سامنا آیا تھا کہ ایک تہائی مزدور لاک ڈاؤن کی وجہ سے شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں پر نہ تو پانی ہے، نہ کھانا اور نہ ہی پیسہ۔ جو مزدور اپنے گاؤں پہنچ بھی گئے ہے وہ بھی پیسے اور راشن کی کی پریشانی سے جوجھ رہے ہیں۔