ہم آپ کو یہاں پر کورونا وائرس، اس کی علامات اور تحفظ ے بارے میں تفصیل سے جانکاری دے رہے ہیں۔
نئی دہلی: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا وائرس کوعالمی وبا قرار دیا ہے۔ ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک اس سے متاثر ہیں۔ ہم آپ کو یہاں پر کورونا وائرس، اس کی علامات اور تحفظ کے بارے میں تفصیل سے جانکاری دے رہے ہیں۔
نوول کورونا وائرس کیا ہے؟
کورونا وائرس نظام تنفس (سانس لینے کا نظام) سے جڑا وائرس ہے، جس کوخوردبین (مائکرو اسکوپ )کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
کورونا وائرس کا پہلا معاملہ دسمبر 2019 میں چین کےووہان میں سامنے آیا تھا۔ یہ انفیکشن جانوروں سے انسان میں آیا اور اس کے بعدانسانوں میں تیزی سے پھیلا۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کس جانور سے یہ وائرس پھیلاہے لیکن جینیاتی مطالعوں کی بنیاد پر سائنس دانوں کو شک ہے کہ سانپ اور کستوری بلاؤ سے اس کا پھیلاؤ ہوا۔
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں؟
یوایس سینٹرس فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن(سی ڈی سی)کے مطابق کورونا وائرس کی علامات یہ ہیں-
اس وائرس کے رابطہ میں آنے کے دو سے 14 دنوں بعدکےعلامات
بخار
کھانسی یا گلا سوکھنا
سانس لینے میں تکلیف
یہ کورونا وائرس کی ہنگامی علامات ہیں
سانس لینے میں تکلیف
سینے میں لگاتار درد یا دباؤ
ہونٹ یا چہرے کا نیلا پڑنا
الجھن یا چکر آنا
اگر کورونا وائرس کی علامات دکھائی دیں تو کیا کرناچاہیے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں ان میں سے کوئی علامات ہیں تو ڈاکٹر سے رابطہ کریں یا اپنے قریبی ہاسپٹل جائیں۔ عام طور پر کورونا کی علامات کسی بھی طرح کے فلو کے مانند ہی ہیں اس لئے ڈاکٹر کی صلاح ضروری ہے۔ صرف ڈاکٹر ہی کورونا وائرس کا ٹیسٹ کر سکتے ہیں۔
ریاستی حکومتوں نے انفیکشن اور ا س کے علاج کےبارے میں لوگوں کی مدد کے لئے ہر ریاست میں ہیلپ لائن نمبروں کا انتظام کیا ہے۔
کورونا وائرس ہیلپ لائن نمبر
نوٹ: سینٹرل ہیلپ لائن نمبر 01123978046
کووڈ-19 کیا ہے؟
کووڈ-19 نئے کورونا وائرس سے ہوئی بیماری کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے کورونا وائرس بیماری 2019
اس انفیکشن کا نام سارس-سی او وی-2 ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے اس نام کو حتمی صورت دینے کے لئے حالات پر کافی دھیان دیا ہے، جو آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں۔
مان لیجئے سردی کا دن ہے اور آپ کمرے میں ہیں اور کمرےمیں ایسی کوئی چیز ہے، جس سے آپ کو گرمی ملتی ہے۔ اب اگر کمرے کو گرم کرنے والے اس سامان میں دو طرح کی سیٹنگس ہیں۔ پہلی کم وقت میں ہی کمرے کو پوری طرح گرم کر دینااور دوسری لمبے وقت تک تھوڑا تھوڑا کرکے کمرے کو گرم کرتے رہنا۔ ایسی صورتحال میں آپ کیا منتخب کریں گے؟
دوسرے نمبر کی سیٹنگ زیادہ اچھا اختیار ہے اور ٹھیک یہی اس انفیکشن میں ہو رہا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ نیا کورونا وائرس اس طرح پھیلے ہسپتال میں بھرتی ہو رہے لوگوں کی تعداد لمبے وقت میں بھی مستحکم بنی رہے، بجائے اس کے کہ مختصر مدت میں بڑی تعداد میں لوگ ہسپتال میں بھرتی ہوں۔
اس پریفرینس کو ہی فلیٹن دی کرو کہتے ہیں، جس میں کرووقت کے مطابق ہسپتال میں بھرتی ہونے والے لوگوں کی تعداد دکھاتے ہیں۔
اگر مقامی آبادی میں انفیکشن کا پھیلاؤ نہیں رکتا توایسے میں ہسپتال میں بھرتی ہونے والے لوگوں کی تعداد دستیاب صلاحیت کے مطابق بڑھ سکتی ہے، جس سے زیادہ لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائےگی۔
کووڈ-19 کے لئے کن نمونوں کی ضرورت ہے؟
سی ڈی سی کے مطابق، اگر مشتبہ شخص کے ٹیسٹ کی حامی بھری جاتی ہے تو مشتبہ کے اوپری اور نچلے تنفس ٹریک سے سیل اور خون کے نمونے اکٹھےکئے جائیںگے اور اس کو دو سے آٹھ ڈگری سیلسیس کے درجۂ حرارت میں رکھا جائےگا اوربعد میں ٹیسٹنگ لیب میں بھیجا جائےگا۔
تجربہ گاہ میں سیل اور خون کو الگ الگ پی سی آر مشین میں رکھا جائےگا۔ پی سی آر پولیمریز چین ری ایکشن کو کہتے ہیں، جو پچھلے کچھ گھنٹوںمیں سیل میں موجود جینیٹک میٹریل کو امپلی فائی کرنے والا کیمیکل ری ایکشن ہے۔
اس کے بعد جانچ کی جاتی ہے کہ کہیں اس میں نیوکلیوٹائڈتو نہیں ہے۔ اگر اس میں نیوکلیوٹائڈ ملتا ہے تو اس نمونے کو پازیٹو مانا جاتا ہے،جس کا مطلب ہوتا ہے کہ شخص کووڈ-19 سے متاثر ہے۔
تجربہ گاہ میں محقق اس کی بھی جانچ کرتے ہیں کہ کہیں اس میں کسی اور طرح کا فلو تو نہیں ہے۔
یہ جانچ کہاں ہوتی ہے؟
موجودہ وقت میں ہندوستان میں 52 ایسوسی ایٹ سینٹر ہیں،جہاں کورونا وائرس انفیکشن کی جانچ کے لئے حکومت منظوری دیتی ہے اور یہ جانچ پونےکے نوڈل انسٹی ٹیوٹ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی کی رہنمائی میں ہوتی ہے۔
کیا کورونا کا ٹیسٹ فری ہے؟
ہاں۔ سرکاری تجربہ گاہ میں ہونے والے کووڈ-19 کے تمام ٹیسٹ فری ہیں۔ ذاتی تجربہ گاہ کو ان ٹیسٹس کو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
کیا ہوگا اگر میں پازیٹو پایا جاتا ہوں؟
اگر آپ کا ٹیسٹ پازیٹو پایا جاتا ہے تو آپ کو تب تک ہسپتال میں رکھا جائےگا جب تک کہ ڈاکٹر یہ کنفرم نہ کر دیں کہ آپ میں کووڈ-19وائرس نہیں ہے۔
کیا کووڈ-19 جان لیوا ہے؟
کووڈ-19 کے انفیکشن کا اثر آپ کی عمر پر منحصر ہے۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق-
ابتدائی اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کووڈ-19وائرس سے بالغوں کے مقابلے میں بچے کم متاثر ہو رہے ہیں اور 0-19 سال کی عمر کےلوگوں میں انفیکشن شرح بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ چین میں گھریلو انفیکشن پر ہوئےاسٹدی کے ابتدائی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بالغوں کی وجہ سے بچوں کو انفیکشن ہورہا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 80 فیصد انفیکشن ہلکا ہے، 15 فیصد سنگین انفیکشن ہے اور پانچ فیصد انتہائی سنگین انفیکشن ہے، اس کے لئے وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے۔
اسی طرح شرح اموات کے مدعے پر…
کووڈ-19 کے لئے ہماری موجودہ سمجھ یہ ہے کہ بڑی عمر کےلوگوں پر شدید انفیکشن ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ اصل شرح اموات نکالنے میں ابھی وقت لگےگا، لیکن ابھی تک ہمارے پاس جو اعداد و شمار ہیں وہ دکھاتے ہیں کہ فی الحال شرح اموات (رپورٹ کئے گئے کیس کے مقابلے مرنے والوں کی تعداد) 3-4 فیصد ہے۔ وہیں انفیکشن شرح اموات (کل متاثر لوگوں کے مقابلے مرنے والوں کی تعداد) کافی کم ہوگی۔
ہندوستان میں پہلے سے ہی کافی گندگی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا مدافعتی نظام (امیون سسٹم) مضبوط ہے؟
نہیں۔ بلکہ اگر آپ گندے ماحول میں رہتے ہیں تو مضبوط ہونے کے بجائے آپ کا مدافعتی نظام اور کمزور ہو سکتا ہے۔
کیا میڈیکل بیمہ پالیسیوں کے دائرے میں کووڈ-19 ہے؟
ہاں۔ ہندوستانی انشورنس ریگولیٹری اور ترقیاتی اتھارٹی نے4 مارچ، 2020 کو ایک نوٹس کے ذریعے ہدایت دی کہ کوروناوائرس کی وجہ سے ہسپتال میں بھرتی ہونے سے متعلق تمام دعووں اور کوروناوائرس کے علاج پر ہونے والاخرچ کامیڈیکل بیمہ کے تحت برداشت کیا جائے۔یہاں پر آپ نوٹس پڑھ سکتے ہیں۔
کیا میں سفر کر سکتا ہوں؟
کوشش کیجئے کی سفر نہ کریں، خاص کر غیر ملکی سفر اور اس میں سے بھی خاص طورپر ان ممالک کا سفر نہ کریں جو کہ کوروناوائرس سے زیادہ متاثرہے۔ اگر آپ سفر کرنے کی سوچ رہے ہیں تو ٹکٹ بک کرنے سے پہلے متعین کر لیں کہ وہ بےحد ضروری ہے۔
کیا کورونا وائرس انفیکشن کا علاج ہے؟
اس کا کوئی ایک علاج نہیں ہے، کہ آپ کوئی ٹیکہ لے لیں اور کووڈ-19 انفیکشن سے ٹھیک ہو جائیںگے۔ اس لئے بچاؤ بہت زیادہ ضروری ہے۔
سی ڈی سی نے رپورٹ کر کے بتایا-
کووڈ-19 اور نمونیا کے ساتھ ہسپتال میں بھرتی تقریباً20-30 فیصد مریضوں کو سانس لینے میں مدد پہنچانے کے لئے سخت دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے…آئی سی یو میں بھرتی کئے گئے شدیدطور پر بیمار مریضوں میں سے11-64 فیصد کوہائی د-پریشر آکسیجن تھراپی دی گئی اور 47-71 فیصدکو وینٹی لیٹر کے ذریعے آکسیجن دیاگیا۔ کچھ ہسپتال میں بھرتی مریضوں کو اینڈوٹریچیل انٹبیشن اور میکینکل وینٹلیشن(4-42 فیصد) کے ساتھ ایڈوانس آرگن سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک چھوٹے گروپ کوایکسٹراکارپوریل میمبرین آکسیجنیشن (ECMO, 3-12فیصد) کے ذریعے مدد پہنچائی گئی۔
میں خود کو اور آس پاس کو محفوظ رکھنے کے لئے کیا کرسکتا ہوں؟
سی ڈی سی نے مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیےہیں–
اپنے گھر میں سطح کو صاف اور جراثیم سے پاک رکھیں
20 سیکنڈکے لئے اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے دھوئیں، خاص کر آپ کی ناک بہنے، کھانسنےیا چھینکنے کے بعد ؛ ٹوائلٹ کا استعمال کرنے کے بعد ؛ کھانا کھانے یا تیار کرنے سےپہلے ؛ جانوروں یا پالتو جانوروں کے رابطہ کے بعد ؛
کھانسی یا چھینک آنے پر اپنا منھ اور ناک کو ٹشو پیپر سےڈھک لیں
استعمال کئے گئے ٹشو پیپرکو ڈسٹبن میں پھینکیں
بنا ہاتھ دھوئے آنکھ، ناک اور منھ کو چھونے سے بچیں
آپ کو اپنے گھر میں دیگر لوگوں یا پالتو جانوروں کے ساتھ برتن، پینے کے گلاس، کپ، کھانے کے برتن، تولیےیا بستر شیئر نہیں کرنا چاہیے
ان سطحوں کو صاف کریں جن پر خون، پاخانہ یا جسم کے سیال مادہ ہو سکتے ہیں
ہیلتھ سروس اور ریاستی اور مقامی طبی محکم ہجات کے مشورہ سے گھر میں علیحدہ کرنے کا فیصلہ متعلقہ معاملے کی بنیاد پر کیا جاناچاہیے۔
کیا مجھے ماسک لگانا چاہیے؟
اگر آپ مریض نہیں ہیں تو ماسک نہ پہنیں، اور اگر آپ مریض بھی ہیں تو قریبی ہاسپٹل کو اس کی جانکاری دیں۔ اگر آپ مریض نہیں ہیں تو ماسک نہ پہنیں۔ہیلتھ سروس کے ملازمینجیسےکہ ڈاکٹر اور نرس وغیرہ کو آپ سے زیادہ ماسک کی ضرورت ہے کیونکہ وہ بیمار لوگوں کے کافی قریب ہوتے ہیں اور اس لئے یہ اہم ہے کہ عام لوگ اس کا زیادہ استعمال کر کےہسپتالوں میں ماسک کی کمی نہ پیدا کریں۔
پی جی آئی ایم ای آر، چنڈی گڑھ کے جوائنٹ میڈیکل سپرٹنڈنٹ اور ہسپتال انتظامیہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مہیش دیونانی نے دی وائرسائنس کے لئے لکھا،
ہندوستان میں عوام کے لئے یہ سمجھنا اہم ہے کہ فی الحال ان کو ماسک پہننے یا ذاتی حفاظتی سامان (پی پی ای) پہننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہ مصنوعات ان طبی اہلکار وں کے لئے ہیں جو مریضوں کی زندگی کو بچانے کے لئےاپنا فرض نبھاتے ہوئے اپنی جان جوکھم میں ڈالتے ہیں۔ پی پی ای کی کمی ان بہادرملازمینکی زندگی کو خطرے میں ڈال دےگی اور یہاں تک کہ ہماری کوششوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے، کیونکہ کسی قہر کا کامیابی سے حل نکلنا صحت مندطبی اہلکار کی دستیابی پر منحصر کرتا ہے۔ اصل میں، مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ طبی اہلکار کے لئے پی پی ای اور دواؤں کی دستیابی متعدی بیماری کے قہر کا جواب دینے کی ان کی خواہش کو بڑھاتی ہے۔
کیا مجھے ہینڈ-سینٹائزر کا استعمال کرنا چاہیے؟
کسی ہینڈ-سینٹائزر کا اثر تبھی پڑ سکتا ہے جب اس میں 60فیصد سے زیادہ الکوہل ہو۔ حالانکہ اگر آپ کے پاس صابن اور پانی کی سہولت ہے تو آپ اس کا استعمال کریں۔ ہینڈ-سینٹائزر کے مقابلے صابن زیادہ مؤثر ہے کیونکہ یہ وائرس کو تیزی سے ختم کرنے میں زیادہ مؤثر ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں کیمسٹری کی ایک پروفیسرپیلی تھورسن نے حال ہی میں
ایک ٹوئٹر تھریڈ شائع کیا جس میں صابن کے استعمال کی خصوصیات کا خاکہ پیش کیا گیا۔