بہار میں ہر دن بڑھ رہے کو رونا وائرس کے قہر کے بیچ متاثرہ مریضوں کے علاج میں لگے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خاطر خواہ آئسولیشن بیڈ اور تحفظ تو دور، انہیں سب سے بنیادی چیزیں ماسک اور سینٹائزر تک دستیاب نہیں کرائے گئے ہیں۔
پٹنہ میڈیکل کالج اور ہاسپٹل میں بنے آئسولیشن وارڈ میں ایک مریض۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
گزشتہ13 مارچ سے 21 مارچ کے بیچ بہار میں کو رونا وائرس سے متاثر ہونے کے شک میں 31 لوگوں کے سیمپل کی جانچ کی گئی تھی، تو کو رونا سے متاثرین کی تعداد صفر تھی۔وہیں، 22 مارچ سے 27 مارچ کے بیچ 6 دنوں میں لگ بھگ 544 سیمپل کی جانچ کی گئی، جن میں 9 لوگ کو رونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ معاملے پٹنہ میں سامنے آئے ہیں۔
پٹنہ میں 4 لوگوں میں، مونگیر میں 3 اور نالندہ و سیوان میں 1-1 شخص کو رونا سے متاثر پایا گیاہے۔ ان میں کم سے کم چار لوگ ایسے ہیں، جن میں انفیکشن ایک ہی مریض سے پھیلا ہے۔قطر سے 12 مارچ کو مونگیر لوٹے 38 سالہ سیف کو کڈنی میں تکلیف کی شکایت پر مونگیر سے لےکر پٹنہ تک چار ہاسپٹلوں میں بھرتی کرایا گیا تھا، لیکن کہیں بھی اس کی کو رونا وائرس کے انفیکشن کی جانچ کی سفارش نہیں کی گئی تھی۔
جب سیف کو پٹنہ میں ایمس میں بھرتی کرایا گیا تھا، تو ایک دن بعد اس کا سیمپل جانچ کے لیے پٹنہ کے ہی راجیندر میموریل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھیجا گیا تھا، لیکن جانچ رپورٹ آنے سے پہلے ہی اس کی موت ہو گئی۔بتایا جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے سیف نے کم سے کم 5 درجن لوگوں سے ملاقات کی تھی۔ ان سبھی کا سیمپل جانچ کے لیے بھیجا گیا تھا، جن میں سے چار لوگوں میں کو رونا وائرس کا انفیکشن ملا ہے۔ دو لوگ سیف کے رشتہ دار ہیں۔
محکمہ صحت کے ایک افسر کے مطابق، 9 میں سے پانچ لوگوں میں انفیکشن بیرون ملک سے آئے مریض سے پھیلا ہے۔اس طرح کے انفیکشن کو مقامی انفیکشن کہا جاتا ہے، جو انفیکشن کا دوسرا مرحلہ ہے۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ اگر اسے یہیں نہیں روکا گیا، تو کمیونٹی کی سطح پر پھیلنے سے روکنا ناممکن ہو جائےگا۔
بہار میں ہر دن بڑھ رہے کو رونا وائرس کے انفیکشن کے معاملے بتاتے ہیں کہ یہاں حالات سنگین ہونے والے ہیں، لیکن بہار سرکار کی تیاریاں ناکافی نظر آ رہی ہیں۔خاطر خواہ آئسولیشن بیڈ او رتحفظ تو دور کو رونا وائرس کے مریضوں کے علاج میں لگے ڈاکٹروں کا تو کہنا ہے کہ انہیں سب سے بنیادی چیزیں ماسک اور سینٹائزر تک دستیاب نہیں کرایا گیا ہے۔
بھاگلپور کے جواہر لعل نہرو میڈیکل یونیورسٹی کے انٹرن نے کو رونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کے علاج کے لیے این 95 ماسک اور پی پی ای کی مانگ کی، تو ہاسپٹل انتظامیہ نے تحریری ہدایت جاری کرکے کہا کہ مریضوں کے علاج کے لیے انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایماآر)کی ہدایات میں این 95 ماسک اور پی پی ای کی ضرورت نہیں ہے۔
حالانکہ، جونیئر ڈاکٹروں کے غصہ کے بعد دو این 95 ماسک اور دو کٹ دستیاب کرائے گئے ہیں۔
جواہر لعل نہرو میڈیکل یونیورسٹی کے جونیئر ڈاکٹر امت آنند نے بتاتے ہیں، ‘ہاسپٹل میں لگ بھگ 100 جونیئر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ، ہم لوگوں کی ڈیوٹی آئسولیشن وارڈ میں نہیں ہے، لیکن ایمرجنسی و دوسرے محکموں میں جو مریض آتے ہیں، ان میں کو رونا وائرس کا انفیکشن ہے یا نہیں، ہم نہیں جانتے ہیں اس لیے انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘ہم لوگوں نے تین دن پہلے ہی انتظامیہ سے ماسک اور کٹ دینے کی مانگ کی تھی۔ اسے مانتے ہوئے ابھی دو ماسک اور دو کٹ دیے گئے ہیں۔ انتظامیہ نےیقین دہانی کرائی ہے کہ ایک دو دنوں میں اور بھی ماسک و کٹ آئیں گے۔’بہار سرکار کی طرف سے کو رونا ہاسپٹل قراردیےگئے نالندہ میڈیکل کالج و ہاسپٹل (این ایم سی ایچ) کے 83 جونیئر ڈاکٹروں نے 23 مارچ کو ہاسپٹل انتظامیہ کو خط لکھ کر دو ہفتے کے ہوم کوارنٹائن (گھر پر الگ رہنے) کی اپیل کی ہے۔
این ایم سی ایچ میں کو رونا وائرس سے متاثر 7 مریض بھرتی ہیں جبکہ کم سے کم 100 مریضوں میں کو رونا وائرس کے علامات دکھ رہے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں ہاسپٹل انتظامیہ کی طرف سے ماسک، سینٹائزر اور پی پی ای نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سےکو رونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے سے ان میں بھی انفیکشن کےعلامات نظر آنے لگے ہیں۔
گزشتہ23 مارچ کے خط کا کوئی جواب نہیں ملنے کے بعد 25 تاریخ کو جونیئر ڈاکٹروں نے محکمہ صحت کے چیف سکریٹری کو دوبارہ خط لکھا۔
خط میں ڈاکٹروں نے لکھا ہے، ‘پی پی ای کٹ، این 95 ماسک اور ہینڈ سینٹائزر نہیں ہونے کی وجہ سے کو رونا ہاسپٹل میں کام کررہےسبھی ڈاکٹروں ،میڈیکل پیشہ وروں اورسکیورٹی اہلکاروں میں ڈر کا ماحول ہے۔ این ایم سی ایچ کو رونا ہاسپٹل ہے، لیکن اس کا آئسولیشن وارڈ خود محفوظ نہیں ہے۔ کو رونا وائرس سے متاثرہ مریض اور اس کے اہل خانہ کھلے عام وارڈ میں گھوم رہے ہیں، جس سے انفیکشن بڑھنے کا خطرہ ہے۔’
این ایم سی ایچ کے جونیئر ڈاکٹرزایسوسی ایشن کے صدر روی آر کے رمن نے کہتے ہیں، ‘ہوم کوارنٹائن کی مانگ پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے، اس کے باوجود ہم لوگ کام کر ہی رہے ہیں۔ جن ڈاکٹروں میں انفیکشن کےعلامات زیادہ دکھ رہے تھے، انہوں نے دوائی لی ہے، لیکن کام بند نہیں کیا ہے۔’
روی رمن آگے بتاتے ہیں، ‘ہم لوگوں نے ہوم کوارنٹائن کی مانگ ہاسپٹل کے ہی آن ڈیوٹی ڈاکٹروں کی صلاح پر کی تھی کیونکہ آرام کرنے پر ہی بیماری سے لڑنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ لیکن اب تک اس پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ ہم لوگ کام کرنے کو تیار ہیں اور کر بھی رہے ہیں، ہماری مانگ بس اتنی ہے کہ کو رونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج میں لگے ڈاکٹروں کو پی پی ای، این 95 ماسک، سینٹائزر وغیرہ دستیاب کرایا جائے۔’
این ایم سی ایچ ہاسپٹل کے جونیئر ڈاکٹروں نے بتایا کہ اتنے سنگین حالات کے باوجود این 95 ماسک اور پی پی ای کٹ کی جگہ 27 مارچ کو آپریشن میں استعمال ہونے والا پروٹیکشن کٹ دیا گیا ہے۔کئی صدر ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے بھی بتایا ہے کہ انہیں ماسک اور سینٹائزر مہیا نہیں کرایا گیا ہے۔
ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے ماسک، پی پی ای اور سینٹائزر کمی ہی بہار میں واحد مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بیرون ملک سے لوٹے ایسے لوگوں کی تلاش کرنا بھی سرکار کے لیے چیلنج ہے، جو کو رونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔بتایا جا رہا ہے کہ 15 جنوری کے بعد 16447 لوگ بہار لوٹے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کو بہار سرکار ٹریک نہیں کر پا رہی ہے۔
بہار سرکار نے دوسرے ملکوں سے لوٹے لوگوں کی اسکریننگ کے لیے ایک ٹول فری نمبر بھی جاری کیا تھا۔ محکمہ صحت کے ایک افسر بتاتے ہیں،‘دوسرے ملکوں سے لوٹے 1456 لوگوں نے ٹول فری نمبر پر کال کرکے رجسٹریشن کرایا ہے۔ ان میں سے 210 لوگ 14 دنوں کا ہوم کوارنٹائن پورا کر چکے ہیں۔’
دوسرے ملکوں سے لوٹے سینکڑوں لوگوں کی شناخت نہیں ہونا ایک بڑی چوک کی وجہ بن سکتی ہے، کیونکہ مونگیر کے رہنے والے سیف کے معاملے میں بھی ایسا ہوا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیف کے رابطہ میں آنے والے کئی اور لوگ کو رونا وائرس سے متاثر ہو گئے۔
مونگیر کے سول سرجن ڈا کٹرپرشوتم کمار بتاتے ہیں، ‘سیف جب قطرسے لوٹا تھا، تب تک ہمارے پاس سرکار کی طرف سے ایسی کوئی ہدایت نہیں آئی تھی کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے لوگوں تک پہنچنا ہے اور ان کی اسکریننگ کی جانی ہے۔’انہوں نے آگے بتایا، ‘سیف کی جانچ رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد گاؤں کو سیل کر دیا گیا ہے اور انتظامیہ گاؤں میں ہر طرح کی سہولیات مہیا کرا رہی ہے۔’
کو رونا انفیکشن کے مد نظر پٹنہ کے جےپرکاش نارائن ایئرپورٹ پر سینٹائزیشن کرتے اسٹاف۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
دوسرے ملکوں سے لوٹے لوگوں کی شناخت کے سوال پرا سٹیٹ سرولانس افسر ڈاکٹر راگنی مشرا نے میڈیا کو بتایا کہ ان لوگوں کا پتہ لگانے کے لیے ڈبلیو ایچ او کی مدد لی جائےگی۔بہار میں ابھی 1900 پرائمری ہیلتھ سینٹر، 150 کمیونٹی ہیلتھ سینٹر اور لگ بھگ ایک درجن میڈیکل کالج ہیں۔
محکمہ صحت نے ہر صدر ہاسپٹل، پی ایچ سی اور میڈیکل کالجوں میں کو رونا مریضوں کے لیے آئسولیشن وارڈ بنانے کو کہا ہے۔ اگر ان میڈیکل کالجوں وہیلتھ سینٹرزکا پورااستعمال کیا جائے، تو بھی کچھ ہزار سے زیادہ بیڈ نہیں لگائے جا سکتے ہیں۔ایسے میں اگر بہار میں کو رونا وائرس کا انفیکشن بڑھ جاتا ہے، تو ان کے لیے آئسولیشن وارڈ کی کمی پڑ جائےگی۔
اس بارے میں جب بہار کے وزیر صحت منگل پانڈے کو فون کیا گیا، تو انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ انہیں سوالوں کی فہرست میل کی گئی ہے، جس کا جواب آنے پر اس کو رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد بہار سرکار لوگوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کر رہی ہے اور ہاسپٹلوں میں دباؤ نہ بڑھے اس کے لیے ایسے لوگوں کو ہوم کوارنٹائن کرنے کو کہہ رہی ہے، جن میں کو رونا وائرس کے انفیکشن کےعلامات دکھتے ہوں۔
اس کے لیے سرکار نے فارم بھی بنوایا ہے۔ اس فارم کو ان سبھی گھروں میں چپکایا جائےگا، جن کے یہاں باہر سے آئے ہوئے لوگ رہ رہے ہیں۔محکمہ صحت کے ایک افسر نے بتایا، ‘فارم میں مشتبہ فرد کا نام لکھا ہوگا۔ڈاکٹر روز اس فردی سے ملاقات کر کےفارم میں اپنی حاضر ی درج کریں گے۔’
لیکن جانکاروں نے اس پر سوال اٹھایا ہے۔ سوشل اکانومسٹ ڈی ایم دواکر کہتے ہیں، ‘بہار کی 88 فیصد آبادی گاؤں میں بستی ہے۔ ان میں سے محض 8 سے 10 فیصدی آبادی کے پاس دو یا اس سے زیادہ کمروں کا مکان ہے۔ ان مکانوں میں رہنے والے ہوم کوارنٹائن پر عمل کر سکتے ہیں۔ لیکن باقی 78سے 80 فیصدی آبادی کے پاس ایک کمرے والا مکان ہے۔ انک ے لیے یہ ناممکن ہے۔’
اس بیچ، کو رونا وائرس کے انفیکشن کے اندیشے کے مد نظر دوسری ریاستوں سے لوٹے مزدوروں کو گاؤں میں جانے نہیں دیا جا رہا ہے۔ انہیں پہلے ہاسپٹل سے جانچ کرانے کی ہدایت دی جا رہی ہے یا 14 دن باہر رہنے کو کہا جا رہا ہے۔اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے بہار سرکار نے گاؤں کے اسکولوں کو کوارنٹائن سینٹر بنانے کی ہدایت دی ہے۔ دوسری ریاستوں سے آنے والوں کو یہاں رکھا جائےگا اور سرکار ان کے کھانے پینے کا انتظام کرےگی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)