مہاراشٹر کے بھیونڈی میں کام کر رہے پاورلوم مزدوروں کا ایک گروپ 25 اپریل کو اتر پردیش کے مہراج گنج آنے کے لیے سائیکل سے نکلا تھا۔ اس گروپ کے ایک ممبر تبارک انصاری نے تقریباً 400 کیلومیٹر کی دوری طے کرنے کے بعد مدھیہ پردیش کے سرحدی علاقہ کے سیندوا میں دم توڑ دیا۔
اتر پردیش کے مہراج گنج ضلع کے ایک گاؤں کے رہنے والے دو مزدور تبارک انصاری اور رمیش کمار گوڑ ایک ساتھ مہا راشٹر کے بھیونڈی سے چلے۔ 390 کیلومیٹر سائیکل چلانے کے بعد مدھیہ پردیش کے سیندوا میں تبارک انصاری تھکان،تمازت اور پانی کی کمی سے بیمار پڑ گئے۔
رمیش ان کو اسپتال لے گئے، لیکن انہیں بچایا نہ جا سکا۔ رمیش نے تبارک کےاہل خانہ کی اجازت سے ان کو وہیں سپرد خاک کیا، پھر اپنے گاؤں کے لیے نکلے۔تبارک (48سالہ)مہراج گنج ضلع کے شیش گڑھ گاؤں کے رہنے والے تھے اور ممبئی کے بھیونڈی میں پاورلوم مزدور تھے۔ ان کے ساتھ ان کے گاؤں کے ہی 28 سالہ رمیش کمار گوڑ بھی کام کرتے تھے۔
تبارک بہت پہلے سے بھیونڈی میں تھے جبکہ رمیش دو سال پہلے گئے تھے۔ حالانکہ دونوں کے بیچ عمر میں تقریباً 20 سال کا فاصلہ تھا، لیکن اٹوٹ دوستی تھی۔ اکثر ساتھ کھاتے پیتے، ایک دوسرے کی مدد کرتے۔نیپال سرحد پر بسے اس گاؤں اور آس پاس کے آدھا درجن گاؤں کے تقریباً پانچ درجن مزدور بھیونڈی میں کام کرتے ہیں۔ لمبے عرصے سے اس علاقے کے مزدور کئی پیڑھیوں سے بھیونڈی میں پاورلوم مزدور ہیں۔
رمیش کے والد بھی وہاں کام کر چکے ہیں، پھر ان کے بڑے بھائی اور پھر خود رمیش بھیونڈی گئے۔ بعد میں ان کا چھوٹا بھائی بھی یہیں کام کرنے آیا۔ان دونوں کے بعد بڑھتی عمر کی وجہ سے رمیش کے والد گاؤں لوٹ گئے۔ رمیش اور ان کے بھائی اب بھی وہاں کام کر رہے تھے۔ اسی طرح تبارک انصاری کا بیٹا جب 18 سال کا ہو گیا تو، اسے بھی بھیونڈی بلا لیا۔
سبھی مزدور بھیونڈی کے ایک چال میں رہتے ہیں۔ رمیش کے مطابق، چال کے ایک کمرے میں پانچ سے چھ مزدور رہتے تھے۔ اس کمرے کا کرایہ 1500 روپے مہینہ تھا۔پاورلوم پر ایک میٹر کپڑا تیار کرنے پر ان مزدوروں کو 2.30 روپے ملتے ہیں۔ایک مزدور 12 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر ایک پاورلوم پر بہ مشکل 25 سے 30 میٹر کپڑا تیار کر پاتا ہے۔
ایک مزدور زیادہ سے زیادہ پانچ پاورلوم چلا پاتا ہے اور اس طرح ان کی ایک دن کی کمائی 300 سے 400 روپے کے بیچ ہو پاتی ہے۔رمیش کے جاننے والے ایک سیٹھ کا بھیونڈی میں پاورلوم کا کارخانہ ہے۔ رمیش اسی میں کام کر رہے تھے۔ کورونا مہاماری کی وجہ سے جنتا کرفیو کے اعلان کے بعد سے ہی پاورلوم بند ہو گئے۔
لیکن جب لاک ڈاؤن کے دوسرے مرحلے کا اعلان ہوا تب ان مزدوروں کی یہاں پھر سے کام شروع ہونے کی امید ٹوٹ گئی۔ مزدوری سے ہوئی کمائی روز راشن پانی میں خرچ ہوتی جا رہی تھی اور سرکار-انتظامیہ کی جانب سے کوئی مدد نہیں مل رہی تھی۔آخرکار 11 پاورلوم مزدوروں نے گھر جانے کاارادہ کیا۔ اس میں تبارک اور رمیش بھی تھے۔ سبھی نے سائیکل خریدی۔ سائیکل خریدنے کے لیے مزدوروں کے پاس پیسے نہیں تھے۔ گھروالوں نے جیسے تیسے جگاڑ کر ان کے کھاتے میں پیسے بھیجے۔
تبارک انصاری۔ (فوٹو: گووند ساہنی)
سائیکل ملنے کے بعد یہ سبھی مزدور 25 اپریل کو بھیونڈی سے روانہ ہوئے۔ تبارک نے بیٹے کو بھی ساتھ چلنے کو کہا لیکن اس نے منع کر دیا۔ رمیش کے بھائی بھی وہیں رک گئے۔صبح چار بجے 11 مزدوروں کا یہ گروپ سائیکل سے ممبئی ناسک ہائی وے سے ہوتا ہوا نکلا۔ پانچ دن میں تقریباً390 کیلومیٹر کی دوری طے کرتے ہوئے یہ مہاراشٹر مدھیہ پردیش کے بارڈر بڑوانی ضلع کے سیندوا پہنچے۔
یہاں مدھیہ پردیش پولیس کی چیک پوسٹ تھی، جہاں سبھی کو روک دیا گیا۔ رمیش بتاتے ہیں کہ راستے میں سینکڑوں مزدور پیدل یا سائیکل سے چلتے چلے آ رہے تھے۔ پیدل مزدوروں کی تکلیف دیکھ کر ہمت جواب دے جا رہی تھی۔رمیش کے مطابق سیندوا پر پہلے سے سینکڑوں مزدور جمع تھے۔ مدھیہ پردیش کی انتظامیہ فیصلہ نہیں لے پا رہی تھی کہ مزدوروں کو آگے جانے دینا ہے کہ نہیں۔
ایک بار تو یہ کہا گیا کہ سبھی مزدور واپس چلے جائیں لیکن مزدوروں نے کہا کہ وہ اپنے گھر جانا چاہتے ہیں اور واپس نہیں جائیں گے۔ کچھ مزدور ادھرادھر کے راستے سے نکلنے بھی لگے۔رمیش اور ان کے ساتھی مزدور 30 اپریل کو صبح دس بجے سیندوا چیک پوسٹ پہنچے تھے اور انہیں دوپہر تین بجے تک رکنا پڑا تھا۔ یہیں تبارک کی طبیعت خراب ہوئی۔
رمیش بتاتے ہیں،‘تبارک مجھ سے کچھ پیچھے رہ گئے تھے، کچھ دیر بعد وہ چیک پوسٹ پہنچے۔ میں جانچ کرانے کے بعد دی گئی پرچی لےکر ان کے پاس جانے لگا، تبھی دیکھا کہ وہ سائیکل کھڑی کرنے کے بعد کانپ رہے ہیں، پھر وہ لڑکھڑائے۔’وہ آگے بتاتے ہیں،‘تب تک میں اور ایک ساتھی مزدور دوڑکر ان کے پاس پہنچے۔ ہم دونوں نے انہیں سہارا دیا، پانی پلایا اور ان کا سر دبانے لگے تاکہ ان کو کچھ آرام ملے۔’
رمیش کہتے ہیں، ‘تبارک کچھ بولنا چاہ رہے تھے لیکن کوئی آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ پھر وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو بتایا۔ مزدوروں کی جانچ کر رہے ڈاکٹروں نے بھی دیکھا اور آدھے گھنٹے بعد ایمبولینس آئی۔انہوں نے آگے بتایا، ‘میں نے اپنی اور تبارک کی سائیکل چیک پوسٹ کے پاس کھڑی کی اور ایمبولینس کے ساتھ اسپتال گیا۔ اسپتال پہنچنے کے پہلے ہی تبارک نے دم توڑ دیا۔’
اس کے بعد اسپتال لے جانے اور موت کے بعد ضروری کارروائی پوری کرنے میں پوری رات لگ گئی۔ اس دوران رمیش اسپتال میں موجود رہے۔ اگلے دن یعنی ایک مئی کی دوپہر کو تبارک کی لاش ان کو سونپی گئی۔تبارک کے بیمار ہونے کے بعد رمیش نے فون سے تبارک کے گھر والوں کو اس کی اطلاع دی، موت کی خبر دینے کے بعد انہیں یہ نہیں سوجھا کہ کیا کیا جائے۔
پس و پیش کی وجہ تھی کہ وہ تبارک کی لاش کو لےکر گاؤں جانا چاہتے تھے لیکن مقامی حکام نے لاش لے جانے سے منع کر دیا۔رمیش نے بھیونڈی میں موجود تبارک کے بیٹے اور سعودی عرب میں مزدوری کرنے گئے ان کے بڑے بھائی عبداللہ کو فون کیا اور ان سے مشورے کے بعد اسپتال سے تھوڑی دور پر ایک قبرستان میں تبارک کو سپردخاک کیا گیا۔
اس کام میں پولیس کے ساتھ مقامی لوگوں نے رمیش کی مدد کی۔ رمیش کو بتایا گیا تھا کہ روایتی طور پر قبر کھودنے والے کو پیسے دیےجاتے ہیں، لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سےاہل خانہ نے انہیں تبارک کی سائیکل دے دینے کو کہا۔تبارک کی تجہیز وتکفین کے بعد جب رمیش چیک پوسٹ پر اپنی سائیکل لینے پہنچے تو کپڑوں میں رکھے کچھ روپے غائب تھے۔ تبارک کے جھولے سے بھی کوئی پیسہ نہیں ملا۔
جیب میں صرف 500 روپے تھے اور گھر تک کا لمبا راستہ۔ ان کی پریشانی دیکھ کر وہاں موجود صحافیوں اور پولیس اہلکاروں میں سے کسی نے 500 روپے دیےاور پھل لے جا رہے ایک ٹرک پر بٹھا دیا۔یہ ٹرک انہیں جھانسی تک لے آئی جہاں سے وہ گٹی لے جا رہے ایک ٹرک سے مہراج گنج پہنچے اور وہاں سے سائیکل سے تین مئی کو اپنے گاؤں۔
رمیش کمار۔ (فوٹو: گووند ساہنی)
بھیونڈی سے گاؤں پہنچنے کے آٹھ دن کے سفر کی پریشانیوں اور اپنے دوست کو راستے میں کھو دینے کی وجہ سے رمیش صدمے میں رہے۔ کئی دنوں تک انہوں نے موبائل بند کر دیا اور کسی سے ملے جلے نہیں۔اہل خانہ نے بتایا کہ گھر پہنچتے ہی رمیش گر پڑے اور پھر کافی دیر تک گم سم بیٹھے رہے۔ بہ مشکل ان سے تین دن بعد بات ہوئی۔
رمیش کی یادوں میں تبارک ہی بسے ہوئے ہیں، کہنے لگے، ‘اس حادثے کو بھلانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن نہیں ہو پا رہا۔ باربار تبارک کا چہرہ یاد آتا ہے۔ ان کا آخری وقت کا چہرہ بھول نہیں پا رہا ہوں۔ وہ مجھے ایک ٹک دیکھے جا رہے تھے۔ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہیں پائے…’
آگے انہوں نے کہا، ‘یہی سوچتا رہتا ہوں کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ وقت بےوقت جب کبھی مجھے پیسے کی ضرورت ہوتی وہ دے دیتے، جب خود فون پر گھر بات کرتے تو مجھ سے بھی بات کراتے۔ ہم دونوں ہر بات ایک دوسرے سے کہتے تھے۔ ان کی پوری فیملی انہیں پرمنحصر تھی۔’
تبارک کے گھر میں ان کی بیوی، دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے، بڑا بیٹا بھیونڈی میں ہی مزدور ہے اور چھوٹا بےروزگار۔
رمیش کی فیملی میں ان کے دو بیٹے ہیں۔وہ پانچ بھائی ہیں اور سبھی مزدوری کرتے ہیں۔ ایک بھائی سعودی عرب میں ہیں اور دو ان کے ساتھ بھیونڈی میں مزدوری کرتے ہیں، ان میں سے ایک ان کے آنے سے پہلے گھر لوٹ آیا تھا۔ ایک ابھی بھی بھیونڈی میں ہی ہے اور ایک بھائی حیدرآباد میں پھنسا ہے۔
رمیش کہتے ہیں،‘ہم نے دونوں بھائیوں سے کہہ دیا ہے کہ ہم یہاں سے پیسے بھیج دیں گے۔ پیدل یا سائیکل سے مت آنا، جب ٹرین چلےگی تبھی آنا۔رمیش گاؤں پہنچ گئے ہیں لیکن ان کے ساتھ چلے لوگ گھر پہنچے یا نہیں، انہیں اس کی فکر ہے۔ وہ مجھے سبھی مزدوروں کے گاؤں کے نام بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ پتہ کروائیے نہ کہ یہ گھر پہنچے ہیں کہ نہیں۔
وہ آگے کہتے ہیں،‘جب تبارک بیمار ہوئے تو وہاں موجود سبھی لوگوں کے یہی لگا کہ انہیں کو رونا ہو گیا۔ مجھ سے بھی یہی کہا گیا کہ یہاں سے بھاگ جاؤ نہیں تو مر جاؤگے۔ لیکن میں نے یہی کہا کہ جس سے اتنے دن یاری دوستی تھی، اسے چھوڑکر کیسے جا سکتا ہوں؟’
دھیمے دھیمے وہ جوڑتے ہیں،‘وہ میرے گاؤں کے تھے۔ آپ ہی بتائیے آپ کا کوئی دوست مصیبت میں پھنسےگا تو آپ مدد نہیں کریں گے!’
ملک میں ہندو مسلمان کی بحث اور بڑھتی فرقہ پرستی کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا، ‘میں ذات برادری، ہندو مسلمان کو نہیں جانتا، کسی کو بھی یہ نہیں دیکھنا چاہیے۔ دشمن بھی اگر مصیبت میں پھنسے تو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ میں اگر اپنے دوست کو چھوڑکر چلا آتا، سوچیے کتنی بدنامی ہوتی، پوری زندگی یہ داغ رہ جاتا۔’
(مضمون نگار گورکھپور نئوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔ )