اتر پردیش میں کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں نہ رہنا کانگریس کے لیے بھی سودمند رہے گا۔ اس سے اسے راجستھان، مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں ایس پی، بی ایس پی کے امیدواروں کا تصفیہ کرنے میں آسانی ہوگی، جہاں پارٹی کو بی جے پی سے سیدھے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہونے کی امید ہے۔
مدھیہ پردیش کے باسودا میں راہل گاندھی،فوٹو بشکریہ: ٹوئٹرMahilaCongress
اتفاق سے اتر پردیش ایسا صوبہ ہے جو آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے نریندر مودی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹِک الائنس یعنی این ڈی اے کے خلاف تیار ہو رہے مہا گٹھ بندھن کی راہیں کھول رہا ہے اور بند بھی کر رہا ہے۔سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کا اتحاد کانگریس کے بغیر بھی مکمل دکھائی دے رہا ہے۔ ہو سکتا ہے تاریخی اہمیت کی حامل قدیمی عظیم پارٹی وہاں چناؤ اکیلے ہی لڑے۔ کیونکہ ممکن ہے سیٹوں کے بٹوارے میں اس کے حصے زیادہ تر شہری علاقوں کی سیٹیں آ جائیں جہاں پارٹی کا جیتنا ایک مشکل امر ہو گا۔
ملک کی سب سے زیادہ آبادی والے اور سیاسی طور پر اہم صوبے اترپردیش کی سیاست میں 14-15 جنوری کے بعد ابال آ سکتا ہے، جب ‘مل ماس’ یعنی ہندو مذہبی اعتقاد کے مطابق نحس ماہ ختم ہوگا۔ 15 جنوری 2019 سے پریاگ راج میں اردھ کمبھ کا میلہ شروع ہوگا۔ آدتیہ ناتھ یوگی کی خصوصی دلچسپی سے الہ آباد کا نیا نام کرن ہونے کے بعد ان کی زیر قیادت یہ پہلا بڑا مذہبی اجتماع ہوگا۔
یہ میلہ اس وقت خصوصی توجہ کا مرکز رہے گا۔ وشو ہندو پریشد اور اکھِل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد دونوں نے مرکز کی مودی سرکار کو الٹی میٹم دے رکھا ہے کہ وہ یا تو ایودھیا میں بنائے جانے والے رام مندر نِرمان کی تاریخ کا اعلان کرے یا ایک جارحانہ آندولن کا سامنا کرنے کو تیار رہے۔ وشو ہندو پریشد نے 16ویں لوک سبھا کے ممبر آف پارلیامنٹ کے گھیراؤ کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے، جو ایودھیا معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کی وجہ سے رام مندر نرمان کی بات کرنے میں جھجھکتے ہیں۔
ایودھیا مسئلے پر بی جے پی، وی ایچ پی کی سرگرمیوں کے برعکس کانگریس کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ وہاں لے دے کے بس یہ سنائی دیتا ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ یا دونوں فریقوں کو منظور سمجھوتہ قابلِ قبول ہوگا۔ عموماً پارٹی عدالت سے باہر کسی حل کی مخالفت کرتی ہے کیوں کہ ایسی صورت میں اسے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ راہل گاندھی کی قیادت والی کانگریس کا اس تنازع کو حل کرنے میں کسی طرح کی پیش رفت کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا ہے۔ جبکہ اُن کے والدِ محترم راجیو گاندھی نے 1986 سے 1989 کے بیچ ایودھیا مسئلہ حل کرنے کے تقریباً چھہ فارمولے پیش کیے تھے۔ جیسے “راجیو فارمولہ”، “تِیواری پلان” (1989 تک این ڈی تِیواری یوپی کے وزیر اعلیٰ تھے۔)، “بوٹا سنگھ فارمولہ” (بوٹا سنگھ راجیو گاندھی سرکار میں وزیر داخلہ تھے)۔ 1989 میں راجیو گاندھی نے لوک سبھا چناؤ کی تشہیری مہم کا آغاز ایودھیا میں سریو ندی کے کنارے کیا تھا۔ وہاں انہوں نے نہ صرف “رام راجیہ” لانے کی بات کہی تھی، بلکہ باقاعدہ “شِیلانیاس” بھی کیا تھا۔
نہ صرف ایودھیا معاملے میں کانگریس اپنا نقطہ نظر صاف نہیں کر رہی بلکہ مودی کی قیادت والے این ڈی اے کے خلاف مجوزہ مہا گٹھ بندھن یا عظیم اتحاد کو لے کر بھی وہ کچھ خدشات دور نہیں کر رہی ہے۔ وہ اندرون پارٹی ہی کچھ بنیادی باتیں واضح کرنے میں ناکام ہے، جیسے:
مہا گٹھ بندھن جب بھی وجود میں آئے اس کا انحصار کسی مخصوص شخص پر نہیں ہوگا۔
یہ قومی سطح پر نہیں ہوگا بلکہ ملک کے 29 صوبوں میں سیٹوں کا بٹوارہ، آپسی سمجھ و تال میل اس کی بنیاد ہوں گے۔
راہل گاندھی سے لے کر مایاوتی، ممتا بنرجی، لالو پرساد یادو، سیتارام یچوری جیسے مختلف نظریات و خیالات کے حامل لیڈران کے ساتھ ایم کے اسٹالِن و چندرا بابو نائیڈو وغیرہ کے آپسی اختلافات کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
مئی 2019 میں ہونے والے لوک سبھا چناو کے پہلے اور چناو کے دوران مل جل کر یہ کوشش کی جائے گی کہ کمزور پارٹیز کو ہر ممکنہ حربہ اپنا کر ساتھ لے لیں اور ایک گٹھ بندھن بنا لیا جائے۔
اصل میں تو مہا گٹھ بندھن کی اصلی شرائط اور اس کا ڈھانچہ چناؤ کے بعد ہی طے ہوگا، وہ بھی تب جبکہ 2019 کے چناو میں مودی و شاہ کی بھاجپا کو 200 سیٹوں اور این ڈی اے کی بی جے پی سمیت تمام پارٹیوں کو 250 سیٹوں کے اندر سمیٹ دیا جائے۔
فی الحال تو اتر پردیش میں مہا گٹھ بندھن کی پوری کہانی تضادات سے بھری ہے۔
اتر پردیش میں مہا گٹھ بندھن کو لے کر یہ سمجھ لیا جانا چاہیے کہ سیاست میں ہمیشہ دو اور دو چار ہونا ضروری نہیں ہے۔ بیتے دنوں صوبے کی دو لوک سبھا سیٹوں کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب میں دیکھا گیا کہ کانگریس کی عدم موجودگی کا فائدہ ایس پی و بی ایسی پی یعنی بی جے پی مخالف پارٹیوں کو ملا۔ دوسری طرف مدھیہ پردیش، راجستھان و چھتیس گڑھ ودھان سبھا چناؤمیں کانگریس کو ملی کامیابی کے بعد اسے علاقائی پارٹیوں سے سودےبازی کرنے میں آسانی ہوگی۔ حالانکہ تین صوبوں میں ملی اس فتح کے بعد علاقائی پارٹیوں کے نیتاؤں میں کانگریس کو لے کر فکر کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو زیادہ تر علاقائی پارٹیوں کا جنم یا تو کانگریس کی مخالفت میں یا اس سے ٹوٹ کر الگ ہونے کے بعد ہوا ہے۔
کل ملا کر ان پارٹیوں میں سے کوئی نہیں چاہےگا کہ راہل گاندھی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار قرار دیا جائے۔ راہل کے پاس اس کا ضرور موقع ہے کہ مہا گٹھ بندھن میں وہ “آدھے میں سے آدھا” حاصل کر لیں۔ یعنی لوک سبھا کی کل 543 سیٹوں کی نصف 273 سیٹ ہوتی ہیں۔ ان میں سے کانگریس 137 لے آئے، جب کہ ابھی اس کے پاس لوک سبھا میں صرف 48 سیٹیں ہی ہیں۔
کچھ کانگریسی اتر پردیش میں مبینہ سیٹ بٹوارے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ 2014 کے لوک سبھا چناؤمیں پارٹی وہاں صرف دو سیٹیں امیٹھی اور رائے بریلی ہی جیت پائی تھی۔ سہارنپور، کانپور، لکھنو، غازی آباد، بارہ بنکی اور کُشی نگر میں پارٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ مگر سہارنپور (65090) اور کُشی نگر (5540) کو چھوڑ کر ہر سیٹ پر شکست کا فاصلہ دو لاکھ ووٹوں سے زیادہ تھا۔ غازی آباد میں راج ببر دوسرے نمبر پر ضرور رہے، مگر جنرل وی کے سنگھ (رِیٹائرڈ) نے انہیں 5 لاکھ 67 ہزار 260 ووٹوں سے ہرایا تھا۔ لکھنؤ میں ریتا بہوگُنا جوشی (اب یو پی سرکار میں بھاجپا کی وزیر) کو 2 لاکھ 72 ہزار 494 ووٹوں سے شکست ملی۔ اسی طرح سری پرکاش جیسوال کو کانپور میں اور پی ایل پُنیا کو بارہ بنکی میں ‘بڑی’ شکست نصیب ہوئی۔
کانگریس سے جڑے ذرائع کا ماننا ہے کہ اگر یہ چھہ سیٹیں گٹھ بندھن پارٹیوں کو دے دیں تو پارٹی کی جیت کا نقشہ 2014 سے الگ نہ ہوگا۔ یو پی میں کانگریس کا ووٹ بینک کچھ اس طرح کا ہے کہ اگر اس نے گٹھ بندھن سے الگ ہو کر چناؤ لڑا تو اس کے آثار زیادہ ہیں کہ وہ وہاں بی جے پی کو زیادہ نقصان پہنچا کر ایس پی، بی ایس پی، راشٹریہ لوک دل کی مدد کر سکے۔ اس سے امیٹھی اور رائے بریلی کی سیٹیں اسے آزادانہ مل جائیں گی۔ اتر پردیش میں کسی بھی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں نہ رہنا کانگریس کے لیے بھی سودمند رہے گا۔ اس سے اسے راجستھان، مدھیہ پردیش و چھتیس گڑھ میں ایس پی، بی ایس پی کے امیدواروں کا تصفیہ کرنے میں آسانی ہوگی، جہاں پارٹی کو بی جے پی سے سیدھے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہونے کی امید ہے۔
The post
آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ appeared first on
The Wire - Urdu.