‘معافی ویر’ کہہ کر ساورکر کو تمسخر کا نشانہ بنانے کے بجائےہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ساورکر واد (ازم) کے معنی ومفہوم پر بات کریں۔ اگر وہ کامیاب ہو ا تو ہم سب انتخابات کے ذریعے راجا کا انتخاب کرتے رہیں گے اور ہمیں فرمانبردار رعایا کی طرح اس کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہوگی۔
‘بھارت جوڑو یاترا’ کے ایک حامی نے تشویش کے عالم میں پوچھا، ‘کیا راہل گاندھی کو اس وقت ساورکر کی تنقید کرنی چاہیے تھی؟’
اس کی تشویش واجب ہے۔ یاترا مہاراشٹر سے گزر رہی تھی۔ مہاراشٹر کے ہندوؤں کے شعور میں ساورکر کے لیے ایک خاص جگہ ہے، یہ بہت پہلے سے مانا جاتا ہے۔ کانگریس کی آج کی اتحادی شیوسینا ساورکر کو قابل احترام سمجھتی ہے۔ اس نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔
راہل اور کانگریس کے خیر خواہوں کی تشویش یہ ہے کہ کہیں پارٹی کو راہل گاندھی کے سیکولر نظریاتی جوش کی سیاسی قیمت نہ ادا کرنی پڑ ے۔ اس وقت ہم آہنگی اور محبت کے بجائے اس قسم کے بیان کی ضرورت نہیں ہے جس سے کسی قسم کی تلخی پیدا ہو، یہ ان کا کہنا ہے۔ ساورکر کی تنقید منفی ہے اور اس لیے غیر ضروری ہے۔
لیکن جیسا کہ دیکھا گیا، شیوسینا کو اس معاملے کو آگے لے جانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اتحاد برقرار رہے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ ماننا پڑا کہ ساورکر نے برطانوی حکومت سے معافی مانگی تھی۔ وہ اس کے حق میں وضاحتیں اور دلائل دے رہے ہیں۔ لیکن حقیقت قائم بالذات ہے کہ ساورکر نے انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔
لیکن کیا معافی کی بات ساورکر کی شبیہ کو داغدار کرتی ہے؟ اس حقیقت کے ساتھ یا اس کے باوجود ساورکر کی مقبولیت برقرار ہے۔ یہ شیو سینا یا بی جے پی تک محدود نہیں ہے۔
گاندھی کے قتل کے واقعہ میں ساورکر کی گرفتاری کو لے کر جوتذبذب اس وقت کی حکومت کو تھا ، اس سے بھی اس کاکچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گرفتاری کے بعد کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل پانے کی وجہ سے وہ بچ گئے۔ لیکن بعد میں جیون لال کپور کی رپورٹ نے واضح کر دیا کہ گاندھی کا قتل ساورکر کے سازشی ذہن کی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔
لیکن تب کچھ کیا نہیں جا سکتا تھا۔ ساورکر کی اپنی موت فطری موت مر چکے تھے۔ زندہ بھی ہوتے تو سازش کے جرم کی سزا دینے میں کسی کی دلچسپی ہوتی، یہ کہنا مشکل ہے ۔ اس سچائی کے باوجود کہ گاندھی کی پارٹی کانگریس نے ان پر ڈاک ٹکٹ جاری کرکے انہیں قومی اعزاز بخشا تھا!
شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ساورکر کو ‘انہوں نے’ کے بجائے ‘اس نے’ لکھے۔ ‘ساورکر تھے’ہی لکھا جائے گا، ‘ساورکر تھا’ کبھی نہیں۔ اس سے ہندو ہندوستانی ذہن میں ساورکر کا وقار ظاہر ہوتا ہے۔ مجرم کو باعزت خطاب ہندوستان میں نہیں ملتا۔ لیکن ساورکر کے ساتھ یہ سلوک کافی خطرہ مول لینے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ساورکر پرستوں کا ایک خاموش فرقہ نہ صرف مہاراشٹر میں بلکہ ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی سرگرم رہا۔ ساورکر کی عظمت کے ترانے جاری رہے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی حصے کی ‘انقلابیت’ بعد میں پرتشدد نظریہ اور نفرت اور تشدد کے فعال پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے ایک ڈھال بن گئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ساورکر جیل جانے تک انقلابی تھے۔ بعد کی زندگی میں وہ نہیں رہ گئے کیونکہ وہ سختیوں سے اکتا چکے تھے۔ لیکن وہ انقلاب کیا تھا؟ کیا انقلاب کا لفظ اپنے مفہوم سے جدا ہو سکتا ہے؟ بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس بھی انقلابی اور ساورکر بھی انقلابی! پھر انقلاب کا مطلب کیا ہے؟
کیا انہیں صرف اس لیے انقلابی سمجھا جاتا ہے کہ ایک زمانے تک ان کے تشدد کے نشانے پر انگریز تھے؟ کیا اس کی وجہ سے یہ ہمارے لیے مثبت اور قابل قبول ہے؟ اور کیا ساورکر سے ہماری ناراضگی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رہائی کے لیے برطانوی حکومت کو معافی نامہ لکھا؟ معافی کو حکمت عملی کیوں نہ سمجھا جائے؟ یہ دشمن کو دھوکہ دینے کی چالاکی بھی تو ہو سکتی ہے؟ ان سوالوں کے ساتھ ساورکر کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے صرف معافی نامے کی وجہ سے ساورکر کی تنقید سے بہت سے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں تک کہ ان کو بھی جو ہندو ہیں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اب وہ اسے شیواجی کی حکمت عملی جیسی حکمت قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ساورکر نے معافی مانگ کر انگریزوں کو دھوکہ دیا، ورنہ وہ جیل میں سڑتے رہتے اور اپنا اصل کام نہیں کر پاتے۔ کیا انہیں بھگت سنگھ وغیرہ کی طرح پھانسی پر لٹک جانے کی بیوقوفی کرنی چاہیے تھی؟
ساورکر ویر نہیں تھے، بزدل تھے، وہ ہمیشہ نوجوانوں کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتے تھے اور خود کبھی کوئی خطرہ مول نہیں لیتے تھے۔ یہ دلائل بھی ساورکر پرستوں کو پریشان نہیں کرتے۔ وہ ساورکر کو کرشن سمجھتے ہیں جو ایک نہیں بلکہ کئی ارجن تیار کر رہے تھے۔ کرشن کا زندہ رہنا ضروری ہے تاکہ ارجن کی نسلیں تیار ہو سکیں۔
اس لیے آپ ہندوتوا حلقوں میں ساورکر کے ہر قدم کو کرشن پالیسی کہہ کراس کی تعریف کرتے سنیں گے۔ فریب، دھوکہ، آدھا سچ، جھوٹ، یہ سب جنگ کے زمانے میں قابل قبول ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی ہتھیار ہیں۔ کیا آج ہم یہ نہیں دیکھ رہے؟ ہر معاملے میں ساورکر پرست سنگھ اور بی جے پی کے لوگ کھلے عام جھوٹ بولتے ہیں اور اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ کرشن پالیسی ایسی ہر بے حیائی کو جائز ٹھہراتی ہے۔
اس لیے راہل گاندھی کی تنقید سے ساورکرپرستوں کے شرمندہ ہونے یا نادم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن وہ ساورکرپرستوں سے مخاطب نہیں تھے۔ وہ عوام کے اس حصے سے بات کرنا چاہتے تھے جو اپنے لیے ایک اخلاقی یا نیک طرز زندگی کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
پھر کیا ساورکر کو انقلابی کہنے کے بجائے، ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ دراصل نفرت، انتقام اور تشدد کے ‘پرچار ک’ تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ وہ ہندو راشٹر یا ہندوتوا کوفروغ دینے والے یا نظریہ ساز ہیں۔ ملک کے لیے اس طرح کے تصور کو کسی بھی طرح مہذب نہیں سمجھا جا سکتا۔ آج تو اوربھی نہیں۔ کوئی بھی اصول جو کسی کو کمتر سمجھے ، مہذب نہیں ہے۔
ان اصولوں کے تناظر میں ہماری آج کی بحث ضروری ہے۔ ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہندوستان کو برطانوی راج سے آزاد کرنا اپنے آپ میں اتنی بڑی بات بن گئی ہے کہ ہم یہ نہیں جاننا چاہتے کہ اس آزادی کا مطلب کیا ہے۔
اس آزادی کے بعد کیا ہم مساوات پر مبنی معاشرہ بنانا چاہتے تھے؟ کیا اس کے بعد ہم برطانوی بالادستی کی جگہ ہندو بالادستی قائم کرنا چاہتے تھے؟ کیا ہمارا ہر فیصلہ بدلہ، خیالی مظالم کے انتقام سے تحریک حاصل کرے گا؟
یہ سوالات زیادہ اہم ہیں۔ ساورکر کی معافی نہیں۔ اس کے بعد کی زندگی میں آخر انہوں نےکیا کیا، یہ سوال زیادہ اہم ہیں۔ ہندوستان کے بارے میں ان کا وژن کیا تھا، یہ سوال پوچھا جانا چاہیے۔
جب برطانوی راج کے خاتمے کا وقت آیا تو سوال یہ تھا کہ ہندوستان کس راستے پر جائے گا؟ کیا یہ ایک ایسی جمہوریت ہوگی جس میں عوام سب سے مقدم ہو؟ اختلافات کے باوجود امبیڈکر، گاندھی، پیریار، جے پال سنگھ اس پر متفق تھے۔ لیکن ساورکر ہندوستان کو پرانی راج شاہی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔
جو لوگ سردار پٹیل کی اس لیے تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان کو متحد کیا وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پٹیل کا ہندوستان ساورکر کے ہندوستان سے بہت مختلف تھا۔ جب پٹیل ریاستوں کو جمہوریہ ہند میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے تھے، ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اپنا اقتدار عوام کے حوالے کر دیں، اسی وقت ساورکر ان سے بات چیت کر رہے تھے اور ان کی راج شاہی کو واپس دلانے میں مدد کرنے کا وعدہ کر رہے تھے۔ ایک طرح سے ساورکر پیشوائی کی واپسی چاہتے تھے۔
اپو سریش اور پرینکا کوٹام راجو نے اپنی کتاب ‘دی مرڈرر، دی مونارک اینڈ دی فقیر’ میں ثابت کیا ہے کہ ساورکر 1946-47 میں راجاؤں سے بات کر رہے تھے اور انہیں ان کی بادشاہت کی واپسی کے لیے کام کرنے کی یقین دہانی کروا رہے تھے۔ یہ کتاب ثابت کرتی ہے کہ گاندھی ان راجاؤں کے لیے بھی راستے کا کانٹا تھے کیونکہ وہ ان سے سختی کے ساتھ اقتدار عوام کے حوالے کرنے کو کہہ رہے تھے۔ اس لیے گاندھی کو راستے سے ہٹانا ان کے لیے ضروری تھا۔ اس جگہ ساورکر اور ان راجاؤں کے درمیان اتفاق تھا۔
ساورکر کے ہندوستان میں نہ صرف مسلمان یا عیسائی دوئم درجے کے انسان ہوں گے بلکہ ہندو بھی عوام کے بجائے رعایا میں انحطاط پذیر ہوں گے۔ ایسی رعایا جن کے حقوق نہیں ہوں گے۔تحریک آزادی نے 40 سال کی جدوجہد میں عوام کی خودمختاری کا اصول قائم کیا تھا۔ یہی مقدم ہے۔ لیکن ساورکر کے پیروکار عوام سے ان کے حقوق کا شعور چھین لینا چاہتے ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ حکومت ہند نے ہندوستان کو جمہوریت کا موجد قرار دیا ہے اور اس کا ایک شعبہ چاہتا ہے کہ یونیورسٹیاں ایک ‘مثالی راجا’ کے تصور پر بحث و مباحثہ کریں۔
معافی ویر کہہ کر ساورکر کو تمسخر کا نشانہ بنانے کے بجائے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ساورکرواد ( ازم) کے معنی ومفہوم پر بات کریں۔ اگر وہ کامیاب ہو گیا تو ہم سب انتخابات کے ذریعے راجا کا انتخاب کرتے رہیں گے اور فرمانبردار رعایا کی طرح اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہیں گے۔ ہماری بات چیت کو ماضی میں پھنسے بغیر حال میں آگے بڑھانا ہوگا۔
راہل گاندھی کی تنقید سے کانگریس میں تھوڑی تسلی اس وجہ سےبھی ہے کہ نظریاتی ابہام اس پارٹی کی خاصیت رہی ہے۔ اس لیے یہ ہر قسم کے لوگوں کے لیے ایک پلیٹ فارم رہا ہے۔ راہل گاندھی کی نظریاتی وضاحت پر اصرار کی وجہ سے کانگریس کا کردار بدلنے کا خطرہ بھی ہے۔ بہت سے لوگوں کے اس سے الگ ہوجانے کا خطرہ۔
لیکن کیا ہمیں آج یہ بات نہیں کرنی چاہیے کہ ہم کس قسم کا معاشرہ اور ریاست بنانا چاہتے ہیں؟کیا تشدد، ماضی کی حقیقی اور خیالی تلخیوں کی یاد میں پھنسا ہوا انتقام اور بالادستی کے نشے میں دھت لیکن حقوق کے شعور سے عاری معاشرہ ہو یا مساوات، انصاف، آزادی اور آپسی بھائی چارے پر مبنی جمہوری شعور رکھنے والا معاشرہ۔ ہماری بحث کو 1947 سے آگے بڑھنا ہوگا۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)