مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اس اپوزیشن اتحاد کے لیے اہم ہیں کیونکہ یہاں بی جے پی اور کانگریس کے بیچ سیدھا مقابلہ ہے۔
سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے ساتھ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے، اور پارٹی جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@IndianNationalCongress)
جہاں ایک طرف مختلف سیاسی پارٹیاں 2024 کے لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہیں، وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہندی ہارٹ لینڈ میں تین اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اپنے لیے ایک سازگار ماحول بنا لیا ہے۔ بی جے پی جانتی ہے کہ 2024 میں اپوزیشن کے ‘انڈیا’ اتحاد کو آگے بڑھنے سے روکنے کا واحد طریقہ کانگریس کی مجموعی تعداد کو دوہرے ہندسے تک محدود کرنا ہے۔
وہیں، کانگریس جانتی ہے کہ 2024 میں ‘انڈیا’ اتحاد کو اقتدار میں کوئی موقع دلانے کے لیے اسے پچھلی بار کی 52 سیٹوں سے آگے بڑھ کر 100 سیٹوں کا ہندسہ عبور کرنا ہوگا۔
یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ اس اپوزیشن اتحاد کے لیے اہم ہیں کیونکہ یہاں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سیدھی لڑائی ہے۔ ’انڈیا‘ اتحاد کو امید تھی کہ کانگریس ان ریاستوں میں قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ 29 سیٹوں والی ریاست مدھیہ پردیش میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو صرف ایک سیٹ ملی اور بی جے پی کو 28 سیٹیں۔ راجستھان میں کانگریس کا صفایا ہوگیا تھا اور بی جے پی نے ریاست کی 25 پارلیامانی نشستوں میں سے 24 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کو کل 11 میں سے صرف دو سیٹیں مل سکی تھیں اور باقی نو سیٹیں بی جے پی کے حصے میں آئی تھیں۔
اس طرح 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کا اسٹرائیک ریٹ 100 فیصد کے قریب تھا۔ کچھ امید تھی کہ کانگریس اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، یہ ہمیشہ مانا جاتا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف 10 سال کی حکومت مخالف لہر کی وجہ سے بی جے پی کو تین ریاستوں میں کم از کم 30-40فیصد سیٹیں گنوانی پڑیں گی۔ اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے کہ مودی کی مقبولیت کی وجہ سے بی جے پی اب بھی 60فیصدسیٹیں برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔
لیکن اسمبلی انتخاب کے نتائج کے بعد کانگریس کے خیمے میں دوبارہ غور و خوض ہونا چاہیے۔ عام انتخابات سے ٹھیک چھ ماہ قبل بی جے پی کی فیصلہ کن جیت نے مودی کے لیے ایک مثبت اور سازگار ماحول تیار کر دیا ہے۔ اگر کانگریس ہندی ہارٹ لینڈ میں اپنی سب سے بڑی لڑائی لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئی تو بی جے پی اپنی 100فیصد سیٹیں اپنے پاس برقرار رکھ سکتی ہے۔
ان سب کے درمیان امید کی واحد کرن یہ ہے کہ کانگریس نے 2018 کے اسمبلی انتخابات،جب اس نے تینوں ریاستوں میں اکثریت حاصل کی تھی، کے مقابلے ان ریاستوں میں اپنا ووٹ شیئر (راجستھان میں 0.5فیصد کی لیڈ) برقرار رکھا ہے۔ بھلے ہی کانگریس 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں اس ووٹ شیئر کو برقرار رکھنے کی اہل ہو،لیکن اس کے پاس تین ریاستوں سے 20 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا اچھا موقع ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہوگا، کیونکہ لوک سبھا انتخابات میں مودی فیکٹر مضبوط ہوگا۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ شیئر کا فرق بہت بڑا تھا۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو 58-60فیصد ووٹ ملے جبکہ کانگریس 34فیصد پر اٹک گئی۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو 50 فیصد اور کانگریس کو 40 فیصد ووٹ ملے۔ خاص طور پر او بی سی کے بیچ بی جے پی کو کانگریس پر زبردست برتری حاصل رہی۔ کانگریس اور بی جے پی کے ووٹ شیئر کے فرق کو بڑی حد تک او بی سی ووٹوں سے سمجھا جا سکتا ہے، جس پر مودی کا زبردست اثر ہے۔ اس کے علاوہ، ذات پر مبنی مردم شماری کی سیاست پر توجہ دینے کے ساتھ کانگریس نے نام نہاد اعلیٰ ذات کے ووٹوں کا لالچ ترک کر دیا ہے۔
کیا ذات پر مبنی مردم شماری کی سیاست، جس پر راہل گاندھی بھروسہ کر رہے ہیں، بہار کے علاوہ ہندی بولنے والی دوسری ریاستوں میں کانگریس کی مدد کرے گی؟ حالانکہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے پاس ایس سی/ایس ٹی ووٹوں کا بہت متاثر کن حصہ ہے، لیکن کوئی نہیں جانتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں اس کا کتنا حصہ مودی کے پاس جا سکتا ہے۔ او بی سی ووٹوں کے اتحاد نے نریندر مودی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں پھر سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ بہار سے باہر ہندی بولنے والی ریاستوں میں ذات پر مبنی مردم شماری کتنا کام کرے گی۔
لوک سبھا انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ ‘انڈیا’ اتحاد قومی پیمانے پر ذات پر مبنی مردم شماری کی بنیاد پر ‘منڈل 2.0’ کے اپنے وژن کو کیسے آگے بڑھائے گی؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے جو ہندی بیلٹ کی ریاستوں میں کانگریس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، جہاں اس کا براہ راست مقابلہ بی جے پی سے ہے۔ حال ہی میں بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر سشیل مودی نے دلیل دی تھی کہ نریندر مودی پہلے سے ہی او بی سی کمیونٹی کے لیے کافی کام کر رہے ہیں اور انھیں یہ ثابت کرنے کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بات میں کچھ سچائی ہو سکتی ہے، کم از کم بہار سے باہر۔
مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں ذات پر مبنی مردم شماری کی سیاست نے کچھ خاص کام نہیں کیا۔ تاہم، کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس ذات پر مبنی مردم شماری پر زیادہ بھروسہ کیے بغیر او بی سی ووٹ بینک کو بڑھاتی نظر آ رہی ہے۔ تلنگانہ میں اس کی جیت کے پیچھے بھارت راشٹرسمیتی (بی آر ایس ) سے شفٹ ہوا او بی سی ووٹوں کا اچھا حصہ ہے۔ روایتی طور پر، کانگریس میں نام نہاد اونچی ذات کی ریڈی برادری کا غلبہ تھا، لیکن اب اسے او بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ ایک پرانا کاسٹ الائنس تھا، جس کا مشاہدہ اندرا گاندھی کی قیادت میں کیا گیا تھا۔
تاہم، ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جنوب میں کسی سیاسی آلے کے طور پر ذات پر مبنی مردم شماری کو اٹھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ان میں سے بہت سی ریاستوں میں سوشل امپاورمنٹ کی سیاست کی جڑیں خاصی گہری ہیں۔ اس کے برعکس منڈل کمیشن کی رپورٹ کے نفاذ کے بعد شمال میں پسماندہ ذاتوں کو بااختیار بنانے کی سیاست نے جنم لیا ہے۔ منڈل کے خلاف بی جے پی کی ہندوتوا مہم نے ہندی بولنے والے وسیع علاقے میں او بی سی کے بڑے طبقے کو الگ کر دیا ہے۔ یاد رکھیں، منڈل کی صف بندی کا مقابلہ کرنے کے لیے سنگھ نے جان بوجھ کر او بی سی برادری کو رام مندر کی جارحانہ مہم میں شامل کیا تھا۔ شمال میں، او بی سی کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ ہندوتوا سے منسلک ہے۔
‘انڈیا’ اتحاد کا چیلنج اس خطے میں او بی سی ووٹوں میں در اندازی کرنا ہے۔ کیا ذات پر مبنی مردم شماری کی سیاست ایسا کر پائے گی؟ اگر نہیں تو کیا ’انڈیا‘ اتحاد کے پاس کوئی متبادل نظریہ ہے؟ اس حوالے سے جلد کوئی فیصلہ لینا ہوگا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)