
کانگریس نے مودی حکومت پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے طلبہ، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پرتشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس نے ہی اس قانون کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں سخت دفعات شامل کیےتھے۔

(السٹریشن : دی وائر)
نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (11 جون) کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
دی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اس قانون کو کانگریس ہی لے کر آئی تھی اور ان دفعات کو شامل کیا تھا، جنہیں وہ اب ‘سفاک’ اور ‘خطرناک طور پر غلط استعمال’ کا ہتھیار قرار دے رہی ہے۔
کانگریس لیڈر پون کھیرا نے ایکس پر لکھا،’مودی حکومت کے دور میں اختلافات کو دبانے اور انصاف میں تاخیر کے لیے قانون کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اےکے 8719 مقدمات میں سے صرف 2.55فیصد میں سزا سنائی گئی- جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ناقدین، طالبعلموں، صحافیوں اور کارکنوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی مجرم مان لینا، سوشل میڈیا اور میڈیا کی جانب سے فیصلہ کر دینا، اور سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ہیبیس کارپس کی درخواستوں کو مسترد کر دینا- یہ سب نظام انصاف میں بحران کو شدید کررہے ہیں۔’
کھیڑا نے بھیما کورےگاؤں کیس، دہلی فسادات کی سازش، نیوز کلک پورٹل پر کارروائی اور صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاری جیسے معاملات کا ذکر کیا۔
کھیڑا نے جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد کے لکھے گئے ایک حالیہ خط کا لنک بھی شیئر کیا۔ عمر 2020 سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں ہیں۔
کھیڑا نے لکھا، ‘دراصل، ان میں سے زیادہ تر مقدمات ان لوگوں کے خلاف انتقامی جذبے سے درج کیے گئے ہیں جو اس حکومت کو چیلنج کر رہے تھے۔ عدالتیں اس غلط استعمال کو بارہا بے نقاب کر چکی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ‘احتجاج دہشت گردی نہیں ہے’ اور اسی بنیاد پر دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف تنہا کو رہا کیا۔ سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر اور ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو رہا کر تے ہوئے گرفتاری پر تنقید کی اورکہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔’
‘ہندوستان کی جمہوریت کی حفاظت پرامن اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن یواےپی اےجیسے قوانین کا خطرناک اور غلط استعمال بنیادی آزادی کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے، اور یہ آئین پر بی جے پی کے وسیع حملے کا حصہ ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔
قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے کو پہلی بار کانگریس حکومت نے 1967 میں پاس کیا تھا۔ اسے 2004 میں مزید سخت کیا گیا تھا جب منموہن سنگھ حکومت نے اس میں پچھلے پوٹا قانون کی کئی دفعات شامل کی تھیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد یو پی اے حکومت نے کچھ دفعات شامل کیں جو ناقدین کے مطابق ‘من مانی گرفتاری’ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان ترامیم کے تحت دفعہ 43ڈی (5) کے ذریعے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ۔
سال 2019 میں جب مودی حکومت نے لوگوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے اور قانون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے یواے پی اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی، تو کانگریس نے لوک سبھا میں اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس نے راجیہ سبھا میں ان ترامیم کی حمایت کی، شاید اس کا مقصد پارٹی کی شبیہ کو انسداد دہشت گردی کے طور پر برقرار رکھنا تھا۔ اس حمایت نے کانگریس کے کچھ اتحادیوں کو ناراض بھی کر دیاتھا۔
اس کے بعد 2021 میں، جب بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی عدالتی حراست میں موت ہو گئی، تو کانگریس رہنما (بعد میں ایم پی) ششی کانت سینتھل نے پارٹی میگزین کانگریس سندیش میں ایک تعزیتی مضمون لکھا اور اسے ‘انسٹی ٹیوشنل مرڈر’ قرار دیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت میں شریک تھی، جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے سیپر استعمال کرنے کی اجازت لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا تھا — وہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے۔
تاہم، کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کے کیس کو این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حوالے کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
سینتھل نے لکھا، ‘حالیہ برسوں میں ہم نے یواے پی اےیا سیڈیشن جیسی دفعات کے تحت کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں، جن کا مقصد احتجاج کی آوازوں کو دبانا یا سیاسی انتقام لینا تھا۔ ہر گرفتاری موجودہ حکومت کے نظریے کو بے نقاب کرتی ہے… اسٹین سوامی کی گرفتاری اور ادارہ جاتی قتل نے عام لوگوں کے ذہنوں میں تین اہم سوالوں کو گہرا کر دیا ۔’
انہوں نے تین مسائل درج کیے؛(الف) قبائلیوں کی حالت زار، (ب) ہندو راشٹر کے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفاکیت (ج) ہمارے نظام انصاف کی قابل رحم حالت۔
جنوری 2023 میں جب منی پور میں دومدیر کو گرفتار کیا گیا، تو کانگریس نے یو اے پی اے کو’سفاک’ کہا۔
کھیڑا نے تب کہا تھا، ‘پریس کی آزادی کو کچلنے، صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانے اور یواے پی اے جیسے سخت قوانین کا غلط استعمال کرنے کا مودی حکومت کا ریکارڈ واضح طور پرآمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔’