یورپی یونین کے 27 رکن پارلیامان کا وفد منگل کو جموں وکشمیر کا دورہ کررہا ہے۔ یہ وفد آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ہٹائے جانے کے بعد وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے گئی کانگریس سمیت کئی پارٹیوں کے رہنماؤں کو واپس بھیج دیا گیا تھا۔
نئی دہلی میں گزشتہ سوموار کو یورپی یونین کے وفد نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی(فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی)
نئی دہلی: یورپی یونین کے رکن پارلیامان کے ایک وفد کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دینے کو لےکر کانگریس نے سوموار کو نریندر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ ہندوستانی رہنماؤں کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دینا اور غیرملکی رہنماؤں کو اجازت دینا ملک کی پارلیامنٹ اور جمہوریت کی مکمل توہین ہے۔
پارٹی کے سینئر رہنما جئے رام رمیش نے ٹوئٹ کر کےکہا، ‘ جب ہندوستانی رہنماؤں کو جموں و کشمیر کے لوگوں سے ملاقات کرنے سے روک دیا گیا تو پھر راشٹرواد کے چیمپین ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے یورپی رہنماؤں کو کس وجہ سے جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی؟ ‘ انہوں نے الزام لگایا، ‘ یہ ہندوستان کی پارلیامنٹ اور جمہوریت کی توہین ہے۔ ‘
جئے رام رمیش نے ییل یونیورسٹی کے ایک لیکچرر اور صحافی سشانت سنگھ کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے، ‘ 27 رکن پارلیامان کا ایک گروپ (جو سرکاری وفد نہیں) میں سے 22 رائٹ ونگ جماعتوں سے جڑے ہیں۔ یہ ایک این جی او کی طرف سے ذاتی طور پر ہندوستان آئے ہیں اور ان کو حکومت ہند کے ذریعے کشمیر وادی لے جایا جا رہا ہے۔ ‘
انوکھا راشٹرواد : پرینکا گاندھی
کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے منگل کو نریندر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی رکن پارلیامان کو روکنا اور غیر ملکی رہنماؤں کو وہاں جانے کی اجازت دینا انوکھا راشٹرواد ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کر کے کہا، ‘ کشمیر میں یورپی رکن پارلیامان کو سیر سپاٹا اور مداخلت کی اجازت۔ لیکن ہندوستانی رکن پارلیامان اور رہنماؤں کو پہنچتے ہی ہوائی اڈے سے واپس بھیجا گیا! یہ بڑاانوکھا راشٹرواد ہے۔ ‘
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے سوموار کو نریندر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ ہندوستانی رکن پارلیامان کو روکنے اور غیر ملکی رہنماؤں کو وہاں جانے کی اجازت دینے میں کچھ نہ کچھ بہت غلط ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ کر کےکہا، ‘ یورپ سے آئے رکن پارلیامان کا جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کے لئے استقبال ہے جبکہ ہندوستانی رکن پارلیامان کے داخلے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ کچھ نہ کچھ ایسا ہے جو بہت غلط ہے۔ ‘
غور طلب ہے کہ یورپی یونین کے 27 رکن پارلیامان کا وفد منگل کو جموں و کشمیر کا دورہ کر رہا ہے۔ یہ وفد جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کے ہٹائے جانے کے بعد وہاں کی صورتحال کا جائزہ لے گا۔ یہ رکن پارلیامان جموں و کشمیر کے مقامی لوگوں سے بات چیت کر کے ان کے تجربات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
کانگریس کے سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کےچیئر پرسن روہن گپتا نے کہا، ‘ جب ہندوستانی رہنما جموں و کشمیر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو نام نہاد راشٹرواد کے لئے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جب یورپی رہنما جموں و کشمیر کا دورہ کرتے ہیں تو کیا یہ راشٹر واد کے لئے فخر کی بات ہے؟ ‘ دراصل، جموں و کشمیر کا دورہ کرنے سے پہلے یورپی یونین کے رکن پارلیامان کے وفد نے وزیر اعظم
نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔
مودی نے اس وفد سے کہا کہ دہشت گردی کی حمایت کرنے اور اس کو اسپانسر کرنے والوں کے خلاف فوراً کارروائی کی ضرورت ہے۔ پی ایم او کے ذریعے جاری ایک بیان کے مطابق، مودی نے امید ظاہر کی کہ یورپی یونین کے رکن پارلیامان کے ملک کے مختلف حصوں کا دورہ مفید ہوگا اور جموں و کشمیر کے سفر سے ان کو جموں، کشمیر اور لداخ علاقوں کے ثقافتی اور مذہبی تنوع کی بہتر سمجھ ہو سکےگی۔
اس وفد میں اٹلی ، برٹن ، فرانس ، چیک جمہوریہ ، سلوواکیہ اور جرمنی کےرہنما شامل ہیں۔ معلوم ہو کہ اس سے پہلے جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد کو جموں و کشمیر کا دورہ کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ ان کو ہوائی اڈے سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد آزاد نے سپریم کورٹ سے جموں و کشمیر میں اپنی فیملی کے ممبروں اور رشتہ داروں سے ملنے کی اجازت بھی مانگی تھی۔ آزاد کا دورہ تب ممکن ہوا جب 16 ستمبر کو
سپریم کورٹ نے ان کو وہاں جانے کی اجازت دی تھی۔
اس کے علاوہ گزشتہ اگست مہینے میں جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو مرکز کی مودی حکومت کے ذریعے ختم کرنے کے بعد وہاں کے حالات کا جائزہ لینے سرینگر پہنچے حزب مخالف کے
رہنماؤں کو واپس دہلی بھیج دیا گیا تھا۔ آٹھ سیاسی پارٹیوں کے 11 ممبران جموں وکشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے سرینگر پہنچے تھے ۔ ان کو وہیں سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔
اس وفد میں آٹھ سیاسی پارٹیوں –کانگریس ، سی پی ایم ، سی پی آئی ، این سی پی ، جی ڈی ایس ، آر جے ڈی اور ڈی ایم کے نمائندے شامل تھے۔وفد میں کانگریسی رہنما راہل گاندھی،غلام نبی آزاد،آنند شرما،آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری کے سی وینو گوپال ،سی پی آئی ایم جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری،ڈی ایم کے ایم پی تروچی شیوا، لوک تانترک جنتا دل کے رہنما شرد یادو،ٹی ایم سی رہنما دنیش تریویدی،سی پی آئی جنرل سکریٹری ڈی راجا، این سی پی رہنما مجید مینن، آر جے ڈی رہنما منوج جھا اور جے ڈی ایس رہنما ڈی کپیندر ریڈی وغیرہ شامل تھے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)