دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ انہوں نے ہندوستان میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون، ہیٹ اسپیچ اور مذہبی اقلیتوں کے گھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافے کو درج کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@SecBlinken)
نئی دہلی: دنیا بھر میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ریاستہائے متحدہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے ہندوستان میں گھروں کو مسمار کرنے اور ہیٹ اسپیچ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔
بدھ، 26 جون کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کی صورتحال پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے
بلنکن نے کہا، ‘ہندوستان میں ہم نے تبدیلی مذہب کے خلاف قانون، ہیٹ اسپیچ، مذہبی اقلیتوں کےگھروں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافے کا مشاہدہ کیا ہے۔’
سال 2022 میں مذہبی آزادی کے حوالے سے اس سال کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے
بلنکن نے لوگوں اور عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا، دوسرے امریکی حکام نے کہا تھا کہ ‘ہندوستان کے کچھ افسران لوگوں اور عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کو نظر انداز کر رہے ہیں یا ان کی حمایت کر رہے ہیں۔’
اُس سال
ہندوستان نے جواب دیا تھااور امریکہ پر بین الاقوامی تعلقات میں ‘ووٹ بینک کی سیاست’ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ہندوستانی ردعمل میں یہ بھی شامل کیا گیا تھا کہ اس نے امریکہ میں ‘نسلی تشدد، ہیٹ کرائم اور بندوق کے تشدد پر باقاعدہ طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
سالانہ رپورٹ امریکی محکمہ خارجہ کے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں سے موصول ہونے والے ان پٹ کی بنیاد پر مرتب کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں تمام ممالک کوڈاکیومنٹ کیا گیا ہے، صرف انتہائی سنگین صورتحال کے حامل ممالک – یا واشنگٹن کے ساتھ مخالفانہ سیاسی تعلقات رکھنے والے ممالک کا تذکرہ امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے سالانہ تقریبات کے ریمارکس میں کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے 2023 ایڈیشن کو جاری کرتے ہوئے بلنکن نے ہندوستان کے بارے میں بات کرنے سے پہلے جن مسائل کا ذکر کیا تھا، ان میں اسرائیل میں حماس کا حملہ اور اس کے نتیجے میں غزہ کا تنازع، پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین جس کے نتیجے میں ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا، ہنگری اور یورپی ممالک میں یہودیوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور مسلمانوں کے خلاف بیان بازی وغیرہ شامل تھے۔
بلنکن نے بہائی اور مسلم اویغور جیسے مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم کے تناظر میں ایران اور چین جیسے ممالک کا بھی ذکر کیا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے ریاستہائے متحدہ کے سفیر رشاد حسین نے بلنکن کے خدشات کو دہراتے ہوئے ہندوستان پر مزید بات کی۔
حسین نے کہا، ‘ہماری رپورٹ میں ایسے معاملات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جہاں سماجی سطح پر تشدد ہو رہا ہے، بعض اوقات کسی سزا کے خوف کے بغیر مذہبی برادریوں کے جبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں عیسائی برادریوں نے بتایا تھا کہ مقامی پولیس نے تبدیلی مذہب کی سرگرمیوں کے الزام میں پریئر میں خلل ڈالنے والی بھڑ کی مدد کی یا جب ہجوم نے ان پر حملہ کیا تو ان کا ساتھ دیا، اورخاموش تماشائی بنے رہے اور بعد میں تبدیلی مذہب کے الزام میں متاثرین کو ہی گرفتار کیا۔’
رپورٹ میں عمر خالد کی قید اور اقلیتوں کی گرفتاری کا ذکر
ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر
2023 کی رپورٹ میں 2023 میں پیش آنے والے متعدد واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے، جن میں مبینہ طور پر گئو رکشکوں کے ہاتھوں محمد جنید اور محمد ناصر کا قتل اور کارکن عمر خالد کی قید شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘سپریم کورٹ نے مسلم طالبعلم عمر خالد کی درخواست ضمانت پر کوئی کارروائی نہیں کی جسے فسادات کے بعد گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا، حالانکہ ستمبر میں عدالت نے کہا تھا کہ عدالت ان کے کیس کا جائزہ لے گی۔ نئی دہلی کی ایک سیشن عدالت نے دیگر ملزمان کے احتجاج کے منتظمین کی ضمانت کی درخواستوں پر دلائل سنے لیکن کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔’
رپورٹ میں ہندوستان میں مسیحی برادری پر حملوں کا دستاویز تیار کیا گیا ہے، یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے بلنکن نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے اپنے خطاب میں اٹھایا تھا۔
سال 2023 کی رپورٹ میں کہا گیا، ‘دسمبر میں یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) نے اس سال عیسائیوں پر 731 حملوں کی اطلاع دی، جبکہ 2022 میں ایسے 599 واقعات ہوئے تھے۔ ریاست کے لحاظ سے یو سی ایف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ واقعات اتر پردیش (301) اور چھتیس گڑھ (152) میں رونما ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں جبری تبدیلی مذہب پر پابندی کے قوانین کے تحت اقلیتی برادری کے افراد کی گرفتاری پر بھی روشنی ڈالی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘عیسائیوں اور مسلمانوں کو جبری تبدیلی مذہب پر پابندی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا، جن کے بارے میں مذہبی گروہوں کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں اس کا استعمال مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کے خلاف جھوٹے اور من گھڑت الزامات یا مذہبی رسومات کی وجہ سے ہراساں کرنے اور جیل میں ڈالنے کے لیے کیا گیا۔ کچھ معاملات میں عیسائی گروپوں نے کہا کہ مقامی پولیس نے تبدیلی مذہب کی سرگرمیوں کے الزام میں پریئر میں خلل ڈالنے والی بھیڑ کی مدد کی یا جب ہجوم نے عیسائیوں پر حملہ کیا تو وہ خاموش تماشائی بنے رہے، اور پھر تبدیلی مذہب کے الزام میں متاثرین کوگرفتار کیا گیا۔’