کچھ میڈیا رپورٹس میں فاطمہ لطیف کے والد کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ، میری بیٹی کو اس لیے ٹارچر کیا جارہا تھا کہ وہ مسلمان ہوکر ٹاپ کرتی تھی ۔اس لیے اس کو کمیونٹی اور مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا تھا۔
آئی آئی ٹی مدراس / فوٹو : آئی آئی ٹی مدراس ویب سائٹ
نئی دہلی: آئی آئی ٹی انٹرنس اگزام میں نیشنل لیول ٹاپر اورآئی آئی ٹی مدراس میں ایم اے فرسٹ ایئر کی اسٹوڈنٹ فاطمہ لطیف کے مبینہ طورپر اپنے ہاسٹل کے کمرے میں خودکشی کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ مطابق ،اس معاملے میں اہل خانہ نے منگل کوکیرل کے وزیر اعلیٰ پنرئی وجین سے انصاف کی فریاد کی ہے۔اس کے ساتھ ہی، پولیس کی جانچ میں ریاستی حکومت سے دخل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح ہو کہ گزشتہ سنیچر کی صبح فاطمہ لطیف کی لاش اس کے ہاسٹل روم میں ملی تھی۔ رپورٹ کے مطابق،اس نے پھانسی لگا لی تھی۔ کیرل کے کولم سے تعلق رکھنے والی فاطمہ ہیومینٹیز اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز(انٹی گریٹیڈ)سبجیکٹ میں ایم اے فرسٹ ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی۔ ٹیچرس کا کہنا ہے کہ وہ کافی ہونہار اسٹوڈنٹ تھی اور کلاس ٹاپر بھی تھی۔فاطمہ کے والدعبدالطیف نے بتایا،‘‘اس معاملے میں پولیس نے سوسائیڈ کا کیس درج کیا ہے۔ ساتھ ہی، دعویٰ کیا ہے کہ موقع سے کوئی بھی سوسائیڈ نوٹ نہیں ملا۔’’
عبدالطیف نے اس معاملے میں وزیر اعظم مودی کو بھی عرضی بھیجی ہے اور انصاف دلانے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے فاطمہ کے فون میں لکھے ایک نوٹ کا ذکر کرتے ہوئے ایک ٹیچر کا نام بھی لیا ہے۔ عبدالطیف نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ فاطمہ کے نوٹ میں ایک پروفیسر کا نام لکھا ہے، جو اس کی موت کی وجہ ہو سکتی ہے۔
پولیس نے فاطمہ کا موبائل جانچ کے لیے بھیج دیا ہے۔ حالانکہ، متعلقہ پروفیسر سے اس معاملے میں بات نہیں ہو سکی ہے۔ آئی آئی ٹی مدراس کے ہیومینٹیز ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ اوماکانت داس نے بتایا کہ سبھی پروفیسرزاور طلبا کے ساتھ ساتھ پورا ڈپارٹمنٹ اس معاملے کو لےکر حیران ہے۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ آخر فاطمہ نے اپنی جان کیوں دے دی؟ عبدالطیف نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،‘‘فاطمہ نے کبھی ایسی کوئی بات یا حرکت نہیں کی، جس سے لگے کہ وہ سوسائیڈ کر لےگی۔
انہوں نے کہا، اس کو کسی طرح کی ذہنی اور نفسیاتی بیماری بھی نہیں تھی۔ اس کی موت ایک راز ہے۔ اس نے پہلے بھی اس پروفیسر کے بارے میں بتایا تھا، جو طلباکو پریشان کرتے تھے۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ روزانہ رات کومیس ہال میں بیٹھ کر روتی تھی۔ ہم نے پولیس سے سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کرنے کی ڈیمانڈ بھی کی ہے۔’’
عبدالطیف کا کہنا ہے کہ فاطمہ نے پچھلے آئی آئی ٹی انٹرنس اگزام میں نیشنل لیول پر سب سے زیادہ اسکور کیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ فاطمہ کی موت کے بعد اس کے ڈپارٹمنٹ نے اگلے 45 دن کے لیے کلاسز سسپنڈ کر دی ہیں۔اس کے ساتھ ہی، دسمبر میں ہونے والے امتحانات بھی ٹال دیے ہیں۔ شعبہ نے اسٹوڈنٹس سے گھر لوٹ جانے کے لیے بھی کہا ہے۔ ہمیں شک ہے کہ یہ قدم جانچ اور ثبوت اکٹھا کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کیا گیا ہے۔
وہیں، ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ اوماکانت نے امتحانات کورد کرنے کی بات سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلاسز لگاتار ہو رہی ہیں۔ کوئی بھی کلاس سسپنڈ نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ، فاطمہ کی کلاس کے کچھ طلبانے درخواست کی ہے کہ اگلے ہفتے ہونے والے کچھ سبجیکٹ کے انٹرنل اگزام ملتوی کر دیے جائیں، کیونکہ وہ اس حادثے سے نکل نہیں پائے ہیں۔
کچھ میڈیا رپورٹس میں فاطمہ لطیف کے والد کے
حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ، میری بیٹی کو اس لیے ٹارچر کیا جارہا تھا کہ وہ مسلمان ہوکر ٹاپ کرتی تھی ۔والد کا الزام ہے کہ ، ان کی بیٹی کےساتھ کمیونٹی اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جارہا تھا ۔ انہوں نے کہا، فیکلٹی کی طرف سے میری بیٹی کو اس کی کمیونٹی اور مذہب کو لے کر نشانہ بنایا جارہا تھا۔میری بیٹی نے کچھ دن پہلے بتایا تھا کہ ،وہاں اس کا نام ہی اپنےآپ میں ایک مسئلہ بن گیاہے۔
عبدالطیف نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو انصاف دلانے کے لیے ملزمین کے خلاف لڑیں گے ۔ رپورٹ میں اہل خانہ کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ 19سالہ فاطمہ کا فیکلٹی ممبر سدرسن پدما نبھن ذہنی استحصال کر رہا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ فاطمہ نے اپنے سوسائیڈ نوٹ میں فیکلٹی ممبر سدرسن پدما نبھن کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، فاطمہ لطیف کی بہن نے عائشہ لطیف نےاس معاملے میں مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی ہے۔
خبررساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، چنئی پولیس کمشنر اے کے وشو ناتھن نے کہا کہ ، انہوں نے جائے واردات کا جائزہ لیا اور سچائی کا پتہ لگانے کے لیے کئی لوگوں سے پوچھ تاچھ کی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیس سینٹرل کرائم برانچ کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔
آج تک کی ایک خبر کے مطابق،آئی آئی ٹی مدراس کی اسٹوڈنٹ فاطمہ لطیف کی خودکشی کے معاملے میں عبدا لطیف نے آئی آئی ٹی مدراس کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر پر فاطمہ لطیف کا استحصال کرنے کاالزام لگایا ہے۔خبر کے مطابق عبدا لطیف نے کیرل کے وزیر اعلیٰ کو دیے خط میں کہا ہےکہ ان کی بیٹی فاطمہ لطیف کے موبائل فون میں سوسائیڈ نوٹ ملا ہے۔ جس میں فاطمہ لطیف نے ایک اسسٹنٹ پروفیسر پر استحصال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
عبدا لطیف نے کیرل کے وزیراعلیٰ سے فاطمہ لطیف کی موت کی غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ عبدا لطیف نے کہا کہ ان کی بیٹی نے بتایا تھا کہ اس کو اگزام کے لیے پڑھائی کرنی ہے۔ اس لیے وہ اپنا موبائل سوئچ آف کرنے جا رہی ہے۔ ان کے دوستوں نے بھی اس کو لےکر کچھ صاف صاف نہیں بتایا۔ رپورٹ کے مطابق ، ہاسٹل وارڈن نے اہل خانہ کو فاطمہ کی خودکشی کی جانکاری دی۔
اس کے بعد جب گھر والے چنئی پہنچے اور فاطمہ کی بہن عائشہ لطیف نے فون کو سوئچ آن کیا، تو اس میں ایک پیغام ملا ملا۔ اس میں لکھا تھا ‘اسسٹنٹ پروفیسر… موت کی وجہ ہے۔ پلیز میرا سیمسنگ نوٹ چیک کیجیے۔’فاطمہ کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ آئی آئی ٹی پروفیسر لگاتار فاطمہ کا استحصال کر رہا تھا، جس کی وجہ سے اس کو ٹھیس پہنچی تھی۔ عبدا لطیف نے الزام لگایا کہ آئی آئی ٹی کیمپس میں بھی لوگوں نے فاطمہ کی موت کو لےکر متضاد بیان دیا ہے اور آئی آئی ٹی نے معاملے میں پردا ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
آج تک کے مطابق، اس معاملے کو لےکر عبدالطیف پھر سے چنئی پہنچے سکتے ہیں اور ڈی جی پی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔عبدا لطیف نے بتایا کہ فاطمہ نے جس پر استحصال کا الزام لگایا ہے، وہ آئی آئی ٹی مدراس میں ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز ڈپارٹمنٹ میں فلاسفی کا ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔
دریں اثنا ایم ایم کے کے لیڈرایم ایچ جواہر اللہ نے الزام لگایا ہے کہ فاطمہ لطیف کی خودکشی کو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نتیجہ قرار دیا ہے۔اور اس معاملے میں سی بی سی آئی ڈی کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔