سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف سپریم کورٹ کی سابق خاتون ملازم کے جنسی استحصال کے الزام کو لے کرعدالت کے ذریعے اپنائے گئے رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے دہلی کے نیشنل لاء یونیورسٹی کی لاء ٹاپر -سربھی کروا -نے کہا کہ وہ کنووکیشن میں اس لیے شامل نہیں ہوئی کیوں کہ وہ سی جے آئی کے ہاتھوں ایوارڈ نہیں لینا چاہتی تھی۔
سی جے آئی رنجن گگوئی ، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی : دہلی کی نیشنل لاء یونیورسٹی کی ایل ایل ایم کلاس ٹاپر سربھی کروا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سی جے آئی رنجن گگوئی سے اپنا میڈل لینے سنیچر کو منعقد تقریب میں نہیں گئی ۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ان کو پتہ تھا کہ انہیں میڈل سے نوازا جائے گا لیکن جیسے ہی ان کو پتہ چلا کہ یہ میڈل انہیں سی جے آئی گگوئی سے لینا ہے تو انہوں نے پروگرام میں نہیں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔کنووکیشن کے دوران نام بلانے پر جب وہ نہیں آئی تو یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر جی ایس واجپائی نے کہا، بدقسمتی سے وہ یہاں نہیں ہے ۔ ہم ان کی غیر موجودگی میں ان کو میڈل سے نواز رہے ہیں ۔
کروا نے کہا، کلاس رام میں میں نے جو کچھ سیکھا تھا اس نے پچھلے کچھ ہفتوں میں مجھے اس اخلاقی کشمکش میں ڈال دیا تھا کہ میں سی جے آئی گگوئی سے ایوارڈ لوں یا نہ لوں ۔ وہ جس ادارے کے چیف ہیں وہ اس وقت فیل ہوگیا جب ان کے خلاف جنسی استحصال کے الزام لگے ۔انہوں نے کہا ، میں یہ جواب اپنے لیے چاہتی ہوں کہ آئینی قدروں کی حفاظت کے لیے وکلاء کو کیسا رول ادا کرنا چاہیے ، جس کا ذکر سی جے آئی نے اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔
سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف سپریم کورٹ کی سابق خاتون ملازم نے جنسی استحصال کے الزام کو لے کرعدالت کے ذریعے اپنائے گئے رویے کا تذکرہ کرتے ہوئے دہلی کے نیشنل لاء یونیورسٹی کی لاء ٹاپر سربھی کروا نے کہا کہ وہ کنووکیشن میں اس لیے شامل نہیں ہوئی کیوں کہ وہ سی جے آئی کے ہاتھوں ایوارڈ نہیں لینا چاہتی تھی۔کنووکیشن میں موجود نہیں ہونے کے باوجود کروا نے صاف کیا کہ انہوں نے ایوارڈ لینے سے انکار نہیں کیا ہے۔اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے کروا نے آئینی قانون میں مہارت حاصل کی ہے اور ان کی تحقیق مجلس دستور ساز کی بحث کی ایک تانیثی تنقید ہے ۔ اپنی تحقیق میں کروا اس سوال کی جانچ کر رہی ہیں کہ ، کیا آئین ایک تانیثی دستاویز ہے ؟
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کی
ایک سابق اسٹاف نے 22 ججوں کو خط لکھکر الزام لگایا تھا کہ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اکتوبر 2018 میں ان کا جنسی استحصال کیا تھا۔35 سالہ یہ خاتون عدالت میں جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے عہدے پر کام کر رہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے ذریعے ان کے ساتھ کئے ‘ قابل اعتراض سلوک’ کی مخالفت کرنے کے بعد سے ہی ان کو، ان کے شوہر اور فیملی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کی انٹرنل جانچ کمیٹی نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی کو جنسی استحصال کے الزاموں پر کلین چٹ دے دی تھی۔اس وقت کہا گیا تھا کہ ‘انٹرنل کمیٹی نے پایا کہ 19 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ کی ایک سابق اسٹاف کے ذریعے لگائے جنسی استحصال کے الزاموں میں کوئی دم نہیں ہے۔’معاملے کی شنوائی شروع ہونے کے کچھ دن بعد متاثرہ نے انٹرنل کمیٹی کے ماحول کو ڈراونا بتاتے ہوئے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا تھا۔اس معاملے میں شکایت کرنے والی خاتون نے عدالت میں اپنے وکیل کی موجودگی کی اجازت نہیں دیے جانے سمیت کئی اعتراض کرتے ہوئے کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
دریں اثنا سنیچر کواپنی تقریر میں سی جے آئی گگوئی نے طلبا کو یاد دلا یا تھا کہ قانون کی ڈگری آئینی قدروں کی حفاظت کے لیے ذمہ داری کا مطالبہ کرتی ہے۔گگوئی نے کہا تھا کہ ، آپ کے ذہن میں آنے والی ہر اس چیز کو صرف اور صرف نا کہیں جو اخلاقیات اور حقیقت سے پیچھے لے جانے والی ہے ۔ ہر ایسی چیز کو ہاں کہیں جس سے آپ کو لگتا ہو کہ کسی کو کچھ دیا جاسکتا ہے۔سی جے آئی دہلی کی نیشنل لاء یونیورسٹی کے نگراں ہیں اور دلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چانسلر ہیں ۔ کروا نے کہا ، گولڈ میڈل پانا اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے ۔ میں اپنے والدین اور اساتذہ کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہاں تک آنے میں میری مدد کی ۔ کسی ایک فرد خاص سے میڈل پانا اتنا اہم نہیں ہے جتنا اس کو حاصل کرنا۔