عدالت دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی جانب سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں انہوں نے اپنی تفتیش کی بنیاد پر بتایا ہے کہ کئی ریاستوں کے جیل مینوئل جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، دراصل جیلوں کے اندر کام تفویض کیے جانے میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
(السٹریشن:پری پلب چکرورتی/دی وائر)
ممبئی: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی بنچ نے اشارہ دیا ہے کہ ہندوستانی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وہ مرکزی وزارت داخلہ کو ایک نوڈل افسر کی تعیناتی کی ہدایت دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ، سپریم کورٹ دی وائر کی صحافی سکنیا شانتا کی جانب سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کر رہی تھی، جس میں انہوں نے اپنی تفتیش کی بنیاد پر کہا تھا کہ ملک کی کئی ریاستوں کے جیل مینوئل جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ دراصل جیلوں کے اندر کام کے بٹوارے میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور ذات کی بنیاد پر ہی یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس قیدی کو کہاں رکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے ریاستی جیل مینوئل کی بعض شقوں کو پڑھتے ہوئے ان طریقوں کو ‘انتہائی پریشان کن’ قرار دیا۔ عدالت نے عرضی پر حتمی فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
چیف جسٹس، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی ایک بنچ نے اس سال جنوری میں 15 سے زیادہ ریاستوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جیل مینوئل میں موجود غیر آئینی ضابطے پر اپنا جواب داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ تاہم، مرکزی حکومت کے علاوہ، صرف چار دیگر ریاستوں – جھارکھنڈ، اڑیسہ، تمل ناڈو اور اتر پردیش نے اب تک اپنا جواب داخل کیا ہے۔ زیادہ تر جوابات میں یا تو ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی تردید کی گئی ہے یا پھر امتیازی سلوک کو منصفانہ ٹھہرایا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے 26 فروری کو ایک
ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے جیل مینوئل میں قیدیوں کو ان کی ذات یا مذہب کی بنیاد پرالگ کرنے یا کام تفویض کرنے کا اہتمام نہ ہو۔
ایڈوائزری میں کہا گیا تھا، ‘تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے استدعا ہے کہ وہ مذکورہ بالا باتوں پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ریاستی جیل مینوئل/جیل ایکٹ میں اس طرح کا امتیازی سلوک کرنے والا اہتمام نہیں ہونا چاہیے۔’
اس میں کہا گیا ہے، ‘اگر اس نوع کا کوئی اہتمام موجود ہے، تو مینوئل/ایکٹ سے امتیازی شق میں ترمیم/حذف کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔’
رپورٹ میں کیا تھا
بارڈ دی پریزن پروجیکٹ’ سیریز کے حصے کے طور پر پلتجر سینٹر آن کرائسس رپورٹنگ کے ساتھ شراکت میں کی گئی
رپورٹ میں سکنیا نے بتایا تھاکہ کس طرح کئی ریاستوں میں جیل کے دستور العمل قیدیوں کے کام کا تعین ان کی ذات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ جیل میں ذات پات کی اذیت اور ذلت کا سامنا کرنے والے اجئے کمار (بدلا ہوا نام)نے رپورٹر کو بتایا تھا کہ جیل میں سب کچھ ذات پات کی بنیاد پر ہوتا تھا۔
سکنیا اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں،
حقیقت میں ذات پات کے لحاظ سے کام کئی ریاستوں کے جیل کے دستورالعمل میں رائج ہے۔انیسویں صدی کے اواخر میں نوآبادیاتی قوانین میں شاید ہی کوئی ترمیم ہوئی ہے اور ان دستورالعمل میں ذات کے لحاظ سے کام والے حصہ کو چھوا بھی نہیں گیا ہے۔ حالانکہ، ہر ریاست کاجیل سے متعلق اپنامخصوص دستورالعمل ہے، لیکن وہ اکثر حصوں میں دی پریزن ایکٹ ،1894 پر مبنی ہیں۔
جیل کے دستورالعمل ہر طرح کے کاموں کا تفصیل سےذکرکرتے ہیں۔کھانے کی تول سے لےکرہر قیدی کے درجہ اور ‘حکم عدولی ’کے لیےسزاتک کا ان میں ذکر ہے۔ اجئے کا تجربہ راجستھان کےجیل کےدستورالعمل سے میل کھاتا ہے۔ جیل میں کھانا بنانے اورطبی سہولیات کی دیکھ ریکھ کا کام اشرافیہ کا مانا جاتا ہے، وہیں جھاڑو لگانے اور صاف صفائی کو سیدھے نچلی ذات کو سونپ دیا جاتا ہے۔
کھانا بنانے کے بارے میں جیل کا دستورالعمل کہتا ہے:‘کوئی بھی برہمن یا اپنی کمیونٹی سے اشرافیہ کا کوئی بھی ہندو قیدی باورچی کے طور پر بحالی کے لیےاہل ہے۔’
اسی طرح سے اس دستورالعمل کا ‘امپلائمنٹ، انسٹرکشن اینڈ کنٹرول آف کنوکٹس’کے عنوان والا حصہ 10 کہتا ہے (یہ پریزن ایکٹ قیدی ایکٹ کے آرٹیکل 59 (12)کے تحت دستورالعمل میں بھی مذکور ہے):
‘صفائی اہلکاروں کا انتخاب ان کے بیچ سے کیا جائےگا، جو اپنی رہائش کے ضلع کی روایت کے مطابق یا ان کے ذریعےپیشہ کو اپنانے کی وجہ سےصفائی اہلکار(سوئپر)کا کام کرتے ہیں جب وہ خالی ہوں۔ کوئی بھی دوسرا قیدی رضاکارانہ طور پر یہ کام کر سکتا ہے، لیکن کسی بھی صورت میں ایک شخص جو پیشہ ور صفائی اہلکار(سوئپر)نہیں ہے، اسے یہ کام کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔’
لیکن یہ ضابطہ‘صفائی اہلکاروں کی کمیونٹی’ کی رضامندی کے سوال پرخاموش ہے۔