سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن فلی نریمن نے موجودہ دورمیں ملک میں اخوت اور بھائی چارے کے آئینی اصول کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم آہنگی کو بگاڑنے والے بیانات( ہیٹ اسپیچ) کے معاملوں میں دیوانی عدالتوں کو مالیاتی ہرجانہ لگانے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
جسٹس آر ایف نریمن(فوٹو : یوٹیوب)
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جج روہنٹن فلی نریمن نے موجودہ دور میں ملک میں اخوت اور بھائی چارے کے آئینی اصول کو اہم قرار دیتے ہوئے جمعہ کوکہا کہ ہم آہنگی کو بگاڑنے والے بیانات ( ہیٹ اسپیچ) کے معاملوں میں دیوانی عدالتوں کو مالیاتی ہرجانہ لگانے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔
جسٹس نریمن نے کہا کہ اگرچہ فوجداری قانون بعض اوقات منتخب طور پر نافذ کیا جاتا ہے، لیکن دیوانی عدالتوں کی طرف سے کی جانے والی کارروائی سے بھائی چارے کو برقرار رکھنے اور تحفظ فراہم کرنے میں بہت مدد ملے گی، جو کہ ہر شہری کے وقار، ملکی اتحاد اور سالمیت کو یقینی بنانے کا واحد آئینی راستہ ہے۔
جسٹس (ریٹائرڈ) نریمن نے یہ بات 13ویں وی ایم تارکونڈے میموریل لیکچر میں کہی۔ اس پروگرام میں سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکور اور بار کے ممبران سمیت کئی معززحضرات نے شرکت کی۔
جسٹس نریمن نے بنیادی حقوق اور فرائض سے متعلق آئینی منصوبوں پر تفصیل سے بات کی اور تجویز پیش کی کہ حکومت کو آئین کی مفت کاپیاں شہریوں کے درمیان ہر ممکن زبان میں تقسیم کرنی چاہیے۔
جسٹس نریمن نے عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ہماری روایت رواداری کا درس دیتی ہے، ہمارا فلسفہ رواداری کی نصیحت کرتا ہے، ہمارا آئین رواداری کی پیروی کرتا ہے۔آئیے ہم اسے کمزور نہ کریں۔
دی ہندو کے مطابق، جسٹس نریمن نے کہا، جس لمحے کوئی شہری نفرت انگیز تقاریر کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کرتا ہے، عدالت نہ صرف ایک اعلامیہ اور حکم امتناعی جاری کر سکتی ہے، بلکہ اپنے بنیادی فرض کو مدنظر رکھتے ہوئے تعزیری ہرجانے بھی لگاسکتی ہے… یہ بھائی چارے کوبرقرار رکھنے اور تحفظ فراہم کرنے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہوگا۔
جسٹس نریمن نے کہا کہ بھائی چارے کا بنیادی اصول یہ طے کرتا ہے کہ ہر شہری کو بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ دوسرے شہری کا احترام کرنا چاہیے،جو مذہبی، فرقہ وارانہ اور دیگر منقطع رجحانات سے بالاتر ہے۔ دیگر اہم اصول تشدد کو ترک کرنے، ملک کی مجموعی ثقافت کو دیکھنے اور اس کا احترام کرنے ، جو کہ خصوصی طور پرموجودہ دور میں ہندوستان کے لیےاہم ہے۔
جسٹس نریمن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حالیہ حکم یہ کہنے میں ناکام رہا ہے کہ ہر اتھارٹی کو اس وقت کارروائی کرنی چاہیے جب ہیٹ اسپیچ دیے جائیں اوراگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو یہ توہین عدالت کے مترادف ہوگا۔
قومی ترانے سے متعلق 1986 کے ایک فیصلے سے جسٹس چنپا ریڈی کے الفاظ کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا، ہماری روایت رواداری کا درس دیتی ہے، ہمارا فلسفہ رواداری کی نصیحت کرتا ہے، ہمارا آئین رواداری کی پیروی کرتا ہے۔ آئیے، ہم اسے کمزور نہ ہونے دیں۔
انہوں نے کہا کہ شہریوں کو آئین کی پاسداری کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس میں کیا ہے۔ اس لیے انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کو ہر ممکن زبان میں آئین کی کاپیاں تقسیم کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ شہریوں کو ان تحریکوں سے بھی آگاہ کیا جائے جن سے مجاہدین آزادی کو گزرنا پڑا۔
جسٹس نریمن نے متعلقہ تاریخی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے بنیادی حقوق اور ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں سے متعلق دفعات کے مختلف پہلوؤں اور پیش رفت پر بھی روشنی ڈالی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)