فارن ٹریبونل کے یک طرفہ آرڈر کو درکنار کرتے ہوئے گوہاٹی ہائی کورٹ نے کہا کہ شہریت کسی شخص کا سب سے اہم حق ہے۔ اس سے پہلے ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے کسی شخص کو ووٹر لسٹ میں شامل سبھی رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کا ثبوت دینا ضروری نہیں ہے۔
نئی دہلی: گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ یک طرفہ آرڈر پاس کرنے کے بجائے کسی شخص کی شہریت کے سوال پر فیصلہ اس شخص کو سننے کے بعد لیا جانا چاہیے۔انڈین ایکسپریس کی
رپورٹ کے مطابق،فارن ٹریبونل کے یک طرفہ آرڈر کو درکنار کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ شہریت کسی شخص کا سب سے اہم حق ہے۔
جسٹس این کوٹیشور سنگھ اور سومتر سیکیہ کی بنچ نے 8 اپریل کے آرڈر میں کہا،‘شہریت کی بنیاد پر کوئی ایک خودمختار ملک کا ممبر بن جاتا ہے اور ملک میں قانون کے ذریعے فراہم کردہ مختلف حقوق اورخصوصی اختیارات کاحقدار بن جاتا ہے اور اس طرح اگر کسی شخص کی شہریت کے بارے میں کوئی سوال اٹھتا ہے تو ہماری رائے میں جہاں تک ممکن ہو میرٹ کی بنیاد پر اور اس شخص کی باتوں کو سننے کے بعد فیصلہ دیا جانا چاہیے۔’
ہائی کورٹ رحیمہ خاتون کی جانب سے داخل ایک عرضی پرشنوائی کر رہا تھا جو کہ آسام کے دھبری ضلع سے تعلق رکھتی ہیں اور جنہیں سال 2016 کے ایک یکطرفہ فیصلے میں غیرملکی قرار دیا گیا تھا۔
آرڈر میں کہا گیا،‘حالانکہ عرضی گزار کے مطابق نوٹس دیا گیا تھا اور فارن ٹربیونل سے نوٹس ملنے کے بعد عرضی گزار کا بیٹا ان کی جانکاری کے بنا ان کی جانب سے پیش ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے عرضی گزار کے بیٹے نے ٹربیونل کے ذریعےطے کی گئی مختلف تاریخوں پر اس کے سامنے پیش نہیں ہوا، جس کے نتیجے میں یک طرفہ آرڈر پاس کر دیا گیا۔’
اس سے پہلے
گوہاٹی ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم آرڈرمیں کہا تھا کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے کسی شخص کو ووٹر لسٹ میں شامل سبھی رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کاثبوت دینا ضروری نہیں ہے۔
آسام کے فارنرس ٹربیونل نے اپنے ایک بےحد چونکانے والے آرڈر میں حیدر علی نام کے ایک شخص کو غیر ملکی قراردیا تھا، جبکہ انہوں نے 1965 اور 1970 کے ووٹر لسٹ میں شامل اپنے والد اور دادا کے ساتھ تعلق کاثبوت دیا تھا۔
بتا دیں کہ آسام میں نیم عدالتی اداروں کے طورپر100 فارن ٹریبونل ہیں جو یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ کوئی شخص غیر ملکی ایکٹ ، 1946 کے تحت غیر قانونی شہری ہے یا نہیں۔گزشتہ سال 31 جولائی تک فارن ٹربیونل کو 4.34 لاکھ کیس ملے تھے، جن میں سے دو لاکھ سے زیادہ کیس کانمٹارہ کیا جا چکا ہے۔
فارن ٹربیونل ان لوگوں کے معاملے سنتے ہیں، جو ریاستی پولیس کی بارڈر برانچ کے ذریعہ بھیجے جاتے ہیں اور جنہیں مقامی انتخابی عہدیداروں کے ذریعےمشکوک ووٹر کے طور پر نشان زد کیا جاتا ہے۔غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے آدرڈرپر آسام میں1951 میں ہوئے این آر سی کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا، جس کی حتمی فہرست 31 اگست 2019 کو جاری کی گئی تھی۔
اس میں کل 33027661 لوگوں نے عرضی دائر کی تھی۔ حتمی فہرست میں 3 کروڑ 11 لاکھ لوگوں کا نام آیا اور 19 لاکھ سے زیادہ لوگ اس سے باہر رہ گئے تھے۔
آسام این آرسی میں شامل ہونے کے لیے ایک شخص کو ایسے ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں، جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ ان کے اجداد 24 مارچ 1971 سے پہلے ہندوستان میں رہ رہے تھے اور یہاں کے شہری تھے۔